Header New Widget

کنزالایمان کی معنویت اور مقصدیت

 کنزالایمان کی معنویت اور مقصدیت 


     اعلی حضرت کے ترجمہ قرآن کا تیسرا امتیازی وصف معنویت اور مقصدیت ہے ۔اگر کامل غیر جانبداری اور کسی قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر اعلی حضرت کے ترجمہ کا مطالعہ کیا جائے آئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے ہے کہ جو مقصدیت و معنویت آیت قرآنی کا امتیاز ہے اس کی کامل جھلک اعلی حضرت کے ترجمہ میں بھی بخوبی موجود ہے۔

ترجمہ میں معنویت کا پہلو :- معنویت قرآنی کا اعلی حضرت نے کس قدر حسن و خوبی کے ساتھ ترجمہ کا قالب میں ڈھالا ہے اس کی جھلک دیکھنے کے لئے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات پر غور فرمائیں ۔ ارشاد فرمایا " الٓمّٓۚ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ " اعلی حضرت نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے ۔ "وہ بلند مرتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں" اہل علم جانتے ہیں کہ ذلک کا اسم اشارہ بعید ہے جو دور کی اشیاء کے لئے بولا جاتا ہے ہے قریب کی چیز کے لیے" ھذا " کا لفظ استعمال ہوتا ہے قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن تو پڑھنے سننے والے کے قریب ہے دکھائی بھی دیتا ہےاور سنا بھی جاتا ہے۔ لیکن یہاں اسم اشارہ قریب یعنی ھذا استعمال نہیں کیا ۔بلکہ ذلک لایا گیا ہے ۔ ذلک کے استعمال کی حکمت جاننے کے لیے آپ جتنے ترجمے چاہیں دیکھ لیں۔ کسی ترجمے میں وہ معنویت و حکم دکھائی نہیں دیتی جو اسم اشارہ بعید کے استعمال کے مضمر ہے۔ یہ امتیاز صرف اعلی حضرت کو حاصل ہے کہ انہوں نے کنزالایمان کے قالب میں اسم اشارہ بعید کے استعمال کی حالت واضح کرکے رکھ دیتی ہے ۔ "ذالک الکتاب " بلند رتبہ کتاب کوئی شک کی جگہ نہیں ذہن میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ بلند رتبہ کتاب کے الفاظ کہاں سے آگئے حق یہ ہے کہ انہی میں ذلک کے استعمال کی حکمت پنہاں ہے ۔ بسا اوقات ایک اپنے حسی وجود کے اعتبار سے تو انسان کے قریب ہوتی ہے۔ لیکن اپنی عظمت وسطوت اور شوکت و رفعت کے اعتبار سے اتنی ارفع اور بلند ہوتی ہے۔کہ اس کی حقیقت تک رسائی انسانی فہم و ادراک سے بالا تر ہوتی ہے۔ قرآن حسی اعتبار سے تو ہمارے قریب ہے لیکن مقام و مرتبہ کے اعتبار سے اتنا ارفع ہے کہ ساری انسانیت مل کر بھی اس کی مثل بنانے سے قاصر ہے۔ قرآن وجود کے اعتبار سے بے شک ہمارے قریب ہے لیکن عظمت کے اعتبار سے اتنا بلند ہے کہ ذہن انسانی کی پرواز سے ماورا ہے لہٰذا قرآن کی عظمت و بزرگی اور رفعت وسطوت نے ظاہراً نزدیک ہوتے ہوئے بھی اسے فہم انسانی سے دور بنا دیا ہے۔ اسی حکمت کے تحت اعلی حضرت نے" ذلک الکتاب "کا ترجمہ" وہ بلند مرتبہ کتاب" کیا۔ یعنی وہ علو مرتبہ کتاب اس کی حقیقت کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نوعیت کی علمی حکمتیں جو بسا اوقات تفسیروں کے اوراق پڑھ لینے سے آشکارا نہیں ہوپاتیں کنزالایمان کے مطالعہ سے فورا سامنے آجاتی ہیں کہ فی الحقیقت کنزالایمان اتنا جامع دقیع اور بھرپور ترجمہ ہے کہ انسان کو بیسوں تفسیروں کے مطالعہ سے بے نیاز کردیتا ہے۔  

      " لاریب فیہ" کا مفہوم :- اسی طرح لاریب فیہ کا ترجمہ کرتے ہوئے اکثر مترجمین نے شک کی ماہیت کو متعین کر دیا ہے۔ مثلا یہ وہ کتاب ہے کہ اس کے الہی ہونے میں کوئی شک نہیں وغیرہ وغیرہ۔صاف ظاہر ہے کہ شک ایک نوعیت کا کئی قسم کا ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم نے شک کی کسی نوعیت کو متعین نہیں کیا۔ "لاریب فیہ" میں تنکیر کی وجہ سے عمومیت وہ استقراق پایا جاتا ہے۔ اس لیے لاریب فیہ کا معنی ہوگا کہ ذہن انسانی میں جو جو اور جس جس طرح کا شک بھی پیدا ہو سکتا ہے قرآن اس سے پاک ہے۔ قرآن حکیم میں شک کی نفی جتنے وسیع معنی پر دلالت کرتی ہے اعلی حضرت نے" لاریب فیہ "کا ترجمہ کسی معنوی وسعت سے کیا ہے۔ 

         ترجمہ میں مقصدیت کا پہلو :- اعلی حضرت کا ترجمہ مقصدیت کے اعتبار سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا ترجمہ قرآن میں مقصدیت کے پہلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن کسی مقام پر جو خالص مضمون یا حقیقت بیان کرنا چاہتا ہے یا کسی واقعہ کے بیان سے جو خاص تاثر قائم کرنا چاہتا ہے ترجمہ کرتے ہوئے لفظوں کا انتخاب اتنی احتیاط سے کیا جائے اور ان کی ترتیب و ترکیب میں اس درجہ حزم ملحوظ رکھا جائے کہ جو تصور قرآن ذہن نشین کرانا چاہتا ہے وہ تصور بلا کم و کاست ترجمے کے قالب میں ڈھل کر قاری کے ذہن میں اتر جائے۔   

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے