Header New Widget

مفتی اور فتوی۔ درحقیقت مفتی وہی ہے جو مجتہد ہے۔

 مفتی اور فتوی

درحقیقت مفتی وہی ہے جو مجتہد ہے۔دورحاضر میں اس معنی کامفتی کوئی نہیں،نہ اس معنی میں کوئی فتوی۔اس زمانے میں بلکہ صدیوں پہلے سے جومفتی ہوتے آئے ہیں وہ عرفی مفتی ہیں ،ناقل فتوی ہیں ،حقیقی مفتی نہیں۔۔عرفی مفتی ہونابھی کوئی معمولی بات نہیں،اس کے لیے بھی علم فقہ میں جس کمال کی ضرورت ہے دور حاضر میں اس کی کہیں کہیں کچھ  جھلک پائی جاتی ہے، کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔۔ہمیں عرفی مفتیوں کی درسگاہ فقہ وافتا میں پچھلی صفوں میں بیٹھنے کی جگہ دے دی جائے تو زہے نصیب!

ماضی قریب کے فقیہ فقید المثال جن کا تفقہ فی الدین  آفتاب و ماہتاب کی طرح روشن ہے ،جن کی مجتہدانہ شان فقاہت کی غیروں نے بھی گواہی دی ہے،جن کے فتاوی کا مجموعہ اردوزبان کاسب سے بڑا فقہی ذخیرہ ہے،ایسے بے مثال فقیہ ومفتی بھی اپنے فتووں کے بارے میں جوفرماتے ہیں وہ دور حاضر کے مفتیوں کے لیے بڑی نصیحت اور خود احتسابی کا عظیم وسیلہ ہے۔۔فقیہ فقید المثال امام اہل سنت اعلی حضرت مولانا الشاہ احمد رضاخاں قدس سرہ 

فرماتے ہیں:

 مقدمہ چہارم: ایک حقیقی فتوٰی ہوتا ہے ، ایک عرفی، فتوائے حقیقی یہ ہے کہ دلیل تفصیلی کی آشنائی کے ساتھ فتوٰی دیاجائے۔ ایسے ہی حضرات کو اصحاب فتوٰی کہاجاتا ہے اور اسی معنی میں یہ بولا جاتا ہے کہ فقیہ ابو جعفر ، فقیہ ابو اللیث اور ان جیسے حضرات رحمہم الله تعالی نے فتوٰی دیا ، اور فتوائے عرفی یہ ہے کہ اقوال امام کا علم رکھنے والا اس تفصیلی آشنائی کے بغیر ان کی تقلید کے طور پر کسی نہ جاننے والے کو بتائے ۔ جیسے کہا جاتا ہے  فتاوی ابن نجیم، فتا وی غزی ،فتا وی طوری،فتا وی خیریہ، اسی طرح زمانہ ورتبہ میں ان سے فروتر

فتا وٰی رضویہ تک چلے آیئے ، الله تعالی اسے اپنی رضا کا باعث اور اپنا پسندیدہ بنائے ، آمین!

(فتاوی رضویہ ج 1 ص 114)

رضاءالحق مصباحی راج محلی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے