لڑکی! کاش تیرے باپ کا نمبر ہوتا
: محمد نعمان مکی۔
مکہ مکرمہ میں موجود ہمارے ایک دوست کل ملاقات کے لیے تشریف لائے، دوران گفتگو انہوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ جسے سن کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوگیا۔
انہوں نے سنایا کہ اپریل 2023 رمضان کا مہینہ تھا، اور میں اپنی فیملی کے ساتھ ہاوڑہ ریلوے اسٹیشن سے راجدھانی ایکسپریس ٹرین میں چڑھا، وہ ریزرویشن والی بوگی تھی۔ دراصل مجھے کولکتہ سے پٹنہ کے لیے جانا تھا۔
ابھی میں اپنا لگیج وغیرہ رکھ کر فیملی کو بٹھا ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے کسی کے سلام کرنے کی آواز آئی، میں اس طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ ایک دیندار اور باشرع آدمی سامنے کھڑے ہیں، ان کے لباس اور وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی عالم دین ہیں۔
سلام دعا کے بعد انہوں نے ایک نوجوان بچی کی طرف اشارہ کیا جو برقع میں ملبوس تھی مگر اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا، جو کچھ ہی دوری پر کھڑکی کے ساتھ والی سنگل سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کے بلکل سامنے والی سنگل سیٹ اس وقت بلکل خالی تھی۔ ان صاحب نے بڑی عاجزی سے کہا کہ وہ میری بیٹی ہے جو پٹنہ جارہی ہے، وہ وہاں ایک ہاسٹل میں رہتی ہے اور کالج میں پڑھتی ہے۔ وہ اس وقت اکیلی سفر کررہی ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ ازراہ کرم اس کا خیال رکھیں۔
چونکہ ہمارے دوست بھی شرعی وضع قطع میں تھے تو ممکن ہے کہ ایک باپ کے طور پر انہوں نے امید اور بھروسے کے ساتھ یہ بات کہی ہوگی۔ تاکہ اللہ نا کرے اگر ان کی معصوم سی لخت جگر کو کوئی مسئلہ پیش آ جائے تو کوئی مسلمان بھائی مدد کے لیے موجود ہو۔ لہذا وہ اپنے دل کی تسلی کا سامان کررہے تھے۔ بیٹی تو بہر حال ہر باپ کے لیے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ اس کی عزت اور اس کے دل کا سکون ہوتی ہے۔
ہمارے دوست فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ جی ٹھیک ہے، یہ میری فیملی بیٹھی ہوئی ہے، آپ اپنی بچی سے کہہ دیں کہ اگر کچھ ضرورت ہو تو وہ میری اہلیہ سے بات کرلے۔
وہ فرماتے ہیں کہ، چونکہ میں خود بھی سامان اور اپنے بچوں کی فکر میں لگا ہوا تھا تو میں ان سے زیادہ گفتگو نا کر سکا اور نا ہی ان کا کوئی رابطہ نمبر لے سکا۔
جب ریل پلیٹ فارم چھوڑنے لگی تو وہ مولانا صاحب اپنی بچی کو الوداع کہہ کر ریل سے اتر گئے۔ رات کا وقت تھا اور تقریباً چھ سو کلو میٹر کا سفر تھا، اور پوری رات ریل گاڑی میں ہی گزارنی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں میں نے دیکھا کہ اس لڑکی کی سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر ایک ہندو لڑکا آکر بیٹھا، جس نے ہاتھ میں لوہے کا کڑا پہنا ہوا تھا اور ایک زعفرانی رنگ کا دھاگا بھی باندھ رکھا تھا۔ اور وہ دونوں آپس میں بہت ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کی آپس میں گہری دوستی ہے۔ پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر بیٹھ کر سرگوشیاں کرنے لگے۔ اب اس لڑکی نے اپنا حجاب بھی اتار دیا تھا۔
وہ فرماتے ہیں کہ اس منظر کو دیکھ کر میں پریشان ہوگیا کہ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ دونوں اپنی شوخی میں ایسے مست تھے کہ انہیں اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کا بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو ناراضگی سے گھور کر دیکھا، تاکہ کم از کم اس کی وجہ سے اس کو کچھ حیا آئے اور وہ اپنی حرکات سے باز آ جائے۔ مجھے ناراضگی سے گھورتا دیکھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سٹپٹا سی گئی، لیکن پتا نہیں پھر اس کو کہاں سے ہمت آئی کہ اس نے مجھے بھی نظر انداز کر دیا اپنی عاشقی میں مصروف ہوگئی۔ اس لڑکے کا برتھ اوپر تھا، لیکن وہ اوپر گیا ہی نہیں، بلکہ وہ دونوں ایک ہی برتھ پر پوری رات ایک ہی چادر اوڑھ کر لیٹے رہے۔
میرا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا، اور خون کھول رہا تھا۔ میں بار بار سوچتا کہ یا اللہ میں کیا کروں، یہ تو کسی دیندار گھرانے کی بچی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی سوچتا کہ ان کی ویڈیو بناؤں، لیکن پھر دل نے گورا نا کیا۔ پھر سوچتا کہ جاکر ان دونوں سے بات کروں اور ان کو روکوں، لیکن پھر سوچتا کہ اگر لڑکی نے سامنے سے یہ پوچھ لیا تم کون ہوتے ہو میرے پرسنل معاملے میں دخل دینے والے تو میرے پاس اس کا کچھ بھی جواب نہیں ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ یہ لڑکی الٹا میرے اوپر ہی کچھ الزام نا لگا دے، اس وقت ماحول اور قانون دونوں ہی موافق نہیں ہیں ، اور تو اور میرے ساتھ میری بیوی اور چھوٹے بچے بھی ہیں، لہذا کوئی بھی خطرہ یا جھگڑا مول لینا اس وقت عقلمندی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس وقت مجھے اس بات کا شدید افسوس ہوا کہ کاش میں نے اس لڑکی کے والد صاحب سے ان کا نمبر لے لیا ہوتا۔ کم از کم میں صورت حال سے تو ان کو واقف کرا سکتا۔
بہر حال صبح تک وہ دونوں اسی طرح اس چادر میں گھسے رہے۔ اور جب ہم منزل پر اترے تو اس لڑکی کے حجاب کے ساتھ ساتھ اس کا برقع بھی اتر چکا تھا، شاید اس نے اسے اپنی بیگ میں رکھ لیا تھا۔
ایک نوجوان بچی جو کالج جانے کے لیے اپنے گھر سے اپنے باپ کے ساتھ باپردہ نکلی تھی، وہ اس وقت، بے پردہ، بے پرواہ اور بے جھجھک ہوکر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ رواں دواں ہوگئی۔
ہمارے دوست بڑے ہی درد کے ساتھ فرمانے لگے کہ مجھے اس واقعے پر اور اپنی بے بسی پر انتہائی افسوس اور دکھ ہوا۔ مجھے رہ رہ کر اس لڑکی کے والد صاحب کا داڑھی اور ٹوپی سے سجا خوبصورت چہرہ یاد آرہا تھا۔ ان کا اپنی بچی پر اس طرح اندھا اعتماد کرنا اور پھر لڑکی کا اس طرح ان کے اعتماد کا خون کرنا سب ہوش اڑ دینے والا تھا۔ وہ صاحب تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کی بیٹی حیا کی چادر میں لپٹ کر تعلم حاصل کررہی، اور ان کو کانوں کان خبر نہیں ہے کہ ان کی لخت جگر تو کسی غیر کی باہوں کی زینت بن چکی ہے۔ اس لڑکی ریلوے اسٹیشن سے جاتا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ، *اے لڑکی کاش تیر باپ کا نمبر ہوتا*۔
*سبق:*
اب کس بات کا رونا روئیں اور کس کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ یہ وقت بچیوں کو اپنے سے دور دراز علاقوں میں بھیج کر کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا ہر گز نہیں ہے۔ ان کو اگر اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اسکول اور کالجس میں پڑھانا ممکن ہو تو پڑھائیں ورنہ ایسی تعلیم سے محرومی اچھی ہے۔ ماحول پر فتن ہے، اور موبائل فون معصوم ذہنوں کو ان فتنوں سے آشناس کرنے کا آسان سبب اور ذریعہ ہے۔ اپنے بچوں پر اندھا اعتماد نا کریں، ان کی عمر ہی ایسی ہے کہ وہ کبھی بھی جذبات کی لے میں بہہ جا سکتے ہیں۔ وقت پر اپنے بچوں کی شادی کی فکر کریں۔ مزید تعلیم تو شادی کے بعد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
*اس تحریر کا مقصد نوجوان بچیوں کے ماں باپ کو جھنجھوڑنا ہے، تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور بے فکر نا رہیں۔ اور اللہ کرے کہ اس بچی کے باپ تک بھی یہ تحریر پہنچ جائے۔ لہذا اس تحریر کو آگے شیر فرمائیں۔*
منقول
0 تبصرے