مختصر تعارف حضور شیخ اعظم رحمۃ اللہ علیہ
ہندوستان ایک صوفی سنتوں کا ملک ہے یہ ایک خوبصورتی ہے کہ اس ملک میں ہزاروں سال سے اس کی گنگا جمنی تہذیب اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ان صوفی سنتوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔وہیں پر خانوادے اشرفیہ بھی 600 سال سے لوگوں کے اخلاق و کردار کی نور ہدایت سے روشناس کرانے،ظلم و ستم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح اور ساتھ ہی میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانے میں اور تزکیہ نفس سلوک و معرفت سے روشناس کرانے میں اس کا ایک عظیم کارنامہ رہا ہے۔اسی خانوادے کے ایک چشم و چراغ جسے دنیا شیخ اعظم کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ آپ کا نام "اظہار اشرف" ہے جو کہ آپ کے پردادا مخدوم الاولیاء اعلی حضرت اشرفی میاں علی رحمتہ دوران حج بیت اللہ شریف میں رکھا تھا۔اور فرمایا کہ میں نے اس پوتے کا نام" اظہار" رکھا ہے۔ جس سے اشرفیت کا خوب اظہار ہو گا۔
آپ کی ولادت 2 محرم حرام 1355 ہجری مطابق 1935ء میں مقام کے کچھوچھہ شریف میں ہوئی ہے۔ آپ کا لقب مخدوم العلماء والفضلاء، شیخ اعظم، بانی جامع اشرف ہے۔ آپ کے والد ماجد مخدوم المشائخ عارف باللہ حضرت علامہ مفتی سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی سرکار کلاں ہیں۔ اور والدہ ماجدہ مخدومہ پر تورابعہ ثانیہ سیدہ سنجیدہ رحمتہ اللہ علیہا ہیں۔
آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے جد امجد ہم شبیہ غوث اعظم اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے قائم کردہ ادارہ جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔ اعلی تعلیم کے لئے مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کی طرف سفر باندھا۔ جس کا موجودہ نام الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کو آپ کے جد امجد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ رحمہ نے قائم فرمایا تھا۔ جس کی سرپرستی آپ کے والد ماجد تک خانوادہ اشرفیہ کی بزرگ شخصیات حاصل رہی۔ وہی آپ نے علم و ادب کی مایہ ناز شخصیات سے علم حاصل کیے اور 1959 میں آپ کی فراغت ہوئی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں عمدۃالفقہاء مفتی حبیب اللہ اشرفی نعیمی، مولانایونس اشرفی نعیمی، مولانا عبدالرؤف مبارکپوری، حافظ ملت عبد العزیز مراد آبادی وغیرہ ہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں رہی۔
حصول علم سے فراغت کے بعد چار سال جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں تدریسی خدمات انجام دی پھر تاحیات جامع اشرف میں افتتاح اور ختم بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کو 1378 ہجری مطابق 1958ء میں سلسلہ قادریہ چشتیہ میں پہلے بیت فرمایا۔ پھر سلسلہ قادریہ سلسلہ منورہ اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت دے کر اپنا ولیعہد وجانشین مقرر فرمایا۔ تقریبا آپ چالیس سال اس منصب پر فائز رہے۔ جب مخدوم المشائخ حضور سرکار کلاں اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو عرس چہلم کے موقع پر آپ مسند سجادگی پر متمکن ہوئے ہوئے۔
آپ کے دینی و علمی کارنامے کی ایک لمبی فہرست ہے جس کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ کی دینی و علمی خدمات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو شیخ اعظم نمبر،معارف شیخ اعظم اور یہ میں ہوں (شیخ اعظم کی حیات کے چند گوشے) مطالعہ کر سکتے ہیں۔
جامع اشرف کی تاسیس، مسجد اعلی حضرت اشرفی میاں کا قیام، مختار اشرف لائبریری کا قیام، اشرف حسین میوزیم کی بنیاد، اس کے علاوہ آپ نے سیکڑوں مدارس و مکاتب کی سرپرستی فرمائی اور نہ جانے کتنے ہی تنظیم و سنگھٹن کومنصہ شہود پر لایا۔ آپ نے زندگی کا بیشتر حصہ شہروں اور قصبوں میں دین و سنیت کی اشاعت میں گزاریں۔ عقلی و نقلی دلائل و براہین سے مخالفین کے مغالطے اور ان کے غلط افکار و نظریات کا تصفیہ فرمایا۔ اور بہتوں کو داخلے اسلام فرمایا۔
اس طرح سے یہ دین و سنیت کا عظیم ستارہ 30 ربیع الاول مطابق 22 مارچ 2012 میں غروب ہو جاتا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حضور شیخ اعظم کو غرق رحمت فرمائے اور ہم تمام فرزندان اشرفیہ پر حضور اعظم علیہ الرحمہ کا فیضان جاری و ساری رہے۔
0 تبصرے