Header New Widget

قوم کی ترقی کا راز تعلیم کے فروغ میں مضمر۔ قوم کے عروج وارتقا کا راز تعلیم وتعلم کے فروغ میں پنہاں ہے.

 قوم کی ترقی کا راز تعلیم کے فروغ میں مضمر

از ۔مفتی ناظم القادری جامعی صاحب قبلہ ۔

    یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کے عروج وارتقا کا راز تعلیم وتعلم کے فروغ میں پنہاں ہے. سفینہ تعلیم وتعلم ہی سے قوم تباہی کے دلدل سے نکل کر ترقی کی آغوش میں آتی ہے. یہ وہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جس قوم نے بھی دامن علم سے وابستگی رکھی, اس نے دنیا پر راج کیا. علم ہی کی بدولت انسان پستی کی کھائی سے نکل کر بلندی کے مدارج طے کرتا ہے. علم و ادراک ہی انسان اور حیوان کے مابین خط امتیاز کھینچتا ہے. علم نے حضرت آدم صفی اللہ کو مسجود ملائکہ بنایا. زیور تعلیم ہی سے انسان کے اخلاق و کردار سنورتے ہیں. دنیا کی ہرچیز تقسیم سے گھٹتی ہے جب کہ علم کی تقسیم سے اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے. علم انسان کو انسانیت کا جامہ پہناتی ہے. انسان علم ہی کے طفیل حلت وحرمت میں امتیاز کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:"علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے"یعنی اتناعلم کہ جس کے ذریعے اوامر ونواہی اور فرائض واجبات کی ادائیگی کرسکے, فرض ہے. 

   نیز قران واحادیث میں علم کی فضیلت واہمیت پرغیر معمولی نصوص وارد ہیں. چناں چہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:"تم فرماؤ !کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان, نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں"(الزمر,۹)

  یعنی ذی علم اور غیر ذی علم کا مرتبہ یکساں نہیں ہے. بلکہ اہل علم دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل کرتے ہیں. 

  اسی طرح دوسری جگہ باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:"اللہ تعالیٰ سے اہل علم ہی ڈرتے ہیں"(فاطر,۴۵)یعنی جس کو باری تعالیٰ کی ذات وصفات کا جتنا علم ہوگا اس کے قلب وجگر میں اسی مقدار خوف ہوگا. 

    اسی طرح علم کی فضیلت واہمیت پر امتعددحادیث کریمہ موجود ہیں. جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:"عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی میری فضیلت تم پر"(مشکاۃ المصابیح) 

  دوسری جگہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:"جوشخص تلاش علم کی راہ پر چلا, اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمادیتا ہے"(مسلم,ترمذی,ابوداؤد)

    مذکورہ بالا آیات واحادیث سے علم اور اہل علم کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں. 

    لیکن دریغا فی الوقت امت مسلمہ مال ودولت کی حرص مبتلا ہوکر علم سے کوسوں دور نظر آتی ہے, اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں علم حاصل کرنے والے طلبہ اکثر غریب یا میڈیل کلاس کے ہوتے ہیں جب کہ مالدار اپنی اولاد کو عصری تعلیم کی زیب و زینت سے مزین کرنا چاہتے ہیں محض اس لیے کہ عصری تعلیم حاصل کرنے سے روزگار اچھا مل جائے گا, بالکل ٹھیک ہے آپ اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کیجیے اور یہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے, پر اتنی سی عرض ضرور ہے کہ نیت درست کرلیجیے کیوں کہ اگر کوئی انجینئریاڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرتا ہے خلق خدا کی خاطر تو بلاشبہ یہ علم بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ بن جائے گا. اگر کوئی قرآن وحدیث دنیا کمانے کے لیے پڑھتا ہے تو یہ اگرچہ ہے دینی علم لیکن یہی علم اس کی نیت وجہ سے وبال جان بن جائے گا. اپنے بچوں کو عصری علوم کی رغبت ضرور دلائیں پر فرض عین علوم کی تعلیم کے بعد. 

   آج کے اس پر فتن دور میں اسلام اور مسلمانوں کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا ہے, یہ فتنہ فساد کا دور ہے. سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے, بایں وجہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا حاصل کرنا بھی از حد ضروری ہے.


  کیوں کہ عصری علوم کے بھی غیر معمولی فوائد ہیں. زندگی کے ہر شعبہ جات میں آج عصری علوم کی بوقلمونی نظر آتی ہے. قوموں کی قیادت, سیاست مدن اور تدبیر منزل جیسے اوصاف عصری تعلیم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے. سائنس اور ٹیکنالوجی کے تند رفتار عہد میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر باوقار زندگی گذارنا محال سا نظر آتا ہے. جب ہمارے سماج کے نوجوان دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی آگے بڑھیں گے تو وہ دور حاضر کے مختلف النوع مسائل اور چیلنجز کا سختی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں گے. عصری تعلیم سے معاشی حالت کی برتری و بہتری کی بھی قوی امید ہے, جس کے ذریعے غربت, افلاس اورتنگدستی جیسے مسلم معاشرے کے مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے. 

    ناچیز کی ناقص رائے کے مطابق فی الوقت ہمارے سماج کوعالم باعمل مفتیان کرام کے ساتھ ساتھ اچھے ڈاکٹرز, انجینئر, قانون داں اور سائنسدانوں کی بھی اشد ضرورت ہے. کیوں کہ جب کوئی عالم شرع ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا تو معاوضہ شرع کے مطابق طے کرے گا, اگر وکیل یا جج بنے گا تو خلفا وانبیا کی حیات طیبہ زیر نظر ہوگی اور ان کے اسلوب کی روشنی میں فیصلہ کرے گا. 

   لہذاعہدحاضرمیں امت مسلمہ اپنے بچوں کودینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر بھی زور دیں, کیوں کہ دور حاضر کے تقاضوں سے آگاہی بغیر اپنا کاروانِ حیات فلاحوبہبود کی مدارج پر اپنی کمندیں ڈالنے سے قاصر ہیں اور اس کا شعور وادراک دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے حصول ہی سے ممکن ہوگا.

   ہاں! یہ بات بھی ذہین نشین  رکھنا نہایت ضروری ہے. کیوں کہ عصری تعلیم کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہیں پہ مضر اثرات بھی ہیں, جن میں سب سے نمایاں مضر اثرمغربی افکار سے مرعوبیت اور اپنی تہذیب وتمدن کو ترک کرکے مغربی کلچر کو اپنانا ہے. 

   لہذا ہمارے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ عصری تعلیم سے قبل اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے اس طرح مزین کردیاجائے کہ وہ عصری دانشگاہوں کے مغرب زدہ ماحول میں جاکر وہاں کے رنگ میں نہ رنگے بلکہ دوسروں کو اپنے رنگ میں ڈھال لیں, تب ہی عصری تعلیم کے صحیح معنوں میں فوائد حاصل ہونگے اور عصری تعلیم سے متعلق منفی رویوں میں تبدیلی آئے گی. 

      بہر کیف علم خواہ دینی ہو یا دنیوی حسب ضرورت دونوں کا حصول ضروری ہے, جو قوم ترقی کے خواہاں ہے. اسے تعلیم وتربیت کے نور سے منور ہونا ہے. . فروغِ تعلیم میں امت مسلمہ کا مستقبل روشن وتابناک ہوگا. اور ہمیں اپنی زبوں حالی سے نکل کر عروج وارتقا کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے بچوں کو دینی وعصری دونوں علوم سے مزین کرنا ہوگا. کیوں کہ ترقی کا راز فروغ تعلیم میں پنہاں ہے. 

   باری تعالیٰ سے دعا ہے امت مسلمہ کو دونوں جہاں میں سرخروئی عطا فرمائے. آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت مفتی محمد ناظم القادری جامعی صاحب قبلہ 

استاد جامعہ علی حسن اہل سنت اترولہ بلرامپوری یوپی۔

المشتہر ۔مجلس ثقافت



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے