سماج اور معاشرے میں دینی اور اخلاقی زوال کے اسباب
از محمد عمران اشرفی جامعی ۔
خادم جامعہ معین السنہ ڈینگلہ پونچھ ،جموں وکشمیر
انسان اپنی حقیقت شناسی کی وجہ سے وہ انسان بن جاتا جسے دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں ۔ حقیقت شناسی ہی کی بناپر انسان اپنے مستقبل کی راہوں کو اس قدر تابناک کر لیتا ہے کہ لوگ اس کے نقش قدم کو کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنالیتے ہیں؛ مگر یہی انسان جب اپنی حقیقت کو نہیں مجھ پاتا ہے تو یہ انسانی اقتدار کو کھو کر حیوان صفت بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں انسان اپنی حقیقت کو فراموش کر چکا ہے، اپنے مقام و مرتبہ کو بھول کر غیر فطری افعال و غیر اخلاقی کردار کا خوگر بنتا جا رہا ہے اور ہمارا پورا معاشرہ مغربی آندھی کی زد میں آچکا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اسلامی معاشرہ کے حوالے سے مباحث کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اخبار کی سرخیوں میں طرح طرح کی روح فرسا چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہیں اسلامی قانون پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے تو کہیں مسلم معاشرے کے اخلاق و کردار کو غلط انداز میں لوگوں کے سامنے کیا جارہا ہے۔ بعض مسلمانوں کے نازیبا حرکات اور غیر اسلامی نظریات وافعال کو مسلم قوم کے کردار کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ابمسلمانوں کی کوئی پہچان باقی نہ رہی اور نہ کوئی وقار رہا؛ اگر اس بات نے اہل دانش کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہر طرف مسلمانوں کو ٹھوکروں کا سامنا کیوں کرناپڑ رہا ہے؟ کیا مسلم معاشرہ بلکل تباہ ہو چکا ہے یا پھر بلا وجہ جملے چست کیے جارہے ہیں؟ غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم نے توکل علی اللہ کے مفہوم کو بھلا دیا قرآن کے اصول و ضوابط پر چلنا چھوڑ دیا، اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا وہ اصول زندگی جو ہمارے لیے مشعل راہ تھا اس کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اپنے نبی کی غلامی کا پتہ اتار کر مغربی تہذیب کی غلامی کا طوق
اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کی صدیاں دنیا کی سیاسی اخلاقی اور ثقافتی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہی مگر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ سب ہاتھ سے نکلا، عروج ،زوال آشناہو گیا، قیادت مسلمانوں کے گھر سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی ،سماج میں دینی اور اخلاقی زوال شروع ہوا اور یہود و نصاری نے اسلامی معاشرے کے خلاف منصوبہ بندی شروع کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسی سازشیں رچیں، جس کے پس پردہ مسلم معاشرہ کے اخلاق و مروت کی دھجیاں اڑائی جاسکیں۔ چناں چہ "یہود و نصاری کی اسلام کے خلاف سازشیں میں" نامی کتاب میں ان کے "پروٹوکول" کے حوالے سے لکھا ہے:کہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اہم ہر جگہ اخلاق کی جڑیں کھوکھلی کریں تا کہ ہم ان پر با آسانی غلبہ حاصل کر سکیں ۔ "فرائڈ ہم میں سے ہے اور وہ دن دہاڑے کھلے عام جنسی تعلقات کے نمونے پیش کرتا ہے، تا کہ نو جوانوں کی نظر میں کوئی چیز مقدس باقی نہ رہے ، اور ان کا مقصد اصلی ہی جنسی جذبات اور خواہشات کا پورا کرنا بن جائے، اور جب وہ اس کو اپنا مقصد بنالیں گے تو پھر ان کی اخلاقی حالت تباہ
اور تہس نہس ہو جائے گی ۔" (1) ان کی نظر میں اخلاقی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے وسائل میں سے ایک وسیلہ یہ بھی ہے کہ نشر و اشاعت، ریڈیو،ٹیلی ویژن،سنیما،ملٹی مڈیاموبائل اور یومیہ کے نشریاتی پروگرام میں اسے خائن ایجنٹ اور کرائے کے صحافی سے کام لیاجائے جوان کے منصوبہ میں ان کا ہاتھ بٹائے ۔ (۲)
لیکن جس معاشرے سے دین ومذہب کی یہ بالادستی ختم ہوجاتی ہے اور تمام اخلاقی بندشیں آٹھ جاتی ہیں تواس معاشرے کا رخ شروفساد ہلاکت و تباہی اور برائیوں کی طرف ہوجاتا ہے ۔ پھر اس معاشرے کے افراد کونہ دینی تعلقات کی کوئی پروا ہوتی ہے اورنہ ہی اخلاقی بندشوں کا کوئی پاس ولحاظ ہوتا ہے، بلکہ وہاں رفتہ رفتہ محرمات و ممنوعات کے ارتکاب کو جائزومباح خیال کیا جانےلگتا ہے،نتیجتا اس معاشرے میں نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں اور طرح طرح کی مشکلات کا ظہور ہوتا ہے، اور ان کاحل زہریلی چڑی بوٹیوں کی طرف ایک نی مشکل کا سبب بن جاتا ہے، جن سے مختلف قسم کے امراض کا علاج بھی ہوتا ہے، اور بس اوقات ان سے مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اور دہ دوائے درد کے بجائے اضافہ درد اور تریاق کے بجائے زہر ہلاہل کا کام انجام دیتی ہیں۔ (۳) کہا جاتا ہے کہ ایک سالم بیج سے صحیح سالم پودے اگتے ہیں ، اگر بیج خراب ہو تو پودے بھی بیمار اور کمزور ہوتے ہیں ایسے پودے موسم کی سختی برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ بلکہ بہت جلد مرجھاتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں ۔ آج یہی کچھ حال مسلمانوں کا ہے، مسلمانوں کے عقیدے میں اضمحلال آگیا ہے جس نے ان کے ذہن وفکر بلکہ اخلاق و اعمال سب کوگھن لگادیا ہے۔ (4)
آج کا مسلمان اپنی بنیادی صفات سے بھی آرہی ہے۔ صرف خاندانی اور پیدائشی مسلمان ہے اس کے اندر نہ عقیدہ کی توانائی ہے نہ اعمال کا حسن اور نہ اخلاق کی خوشبو ، جو آتا ہے اور جو چاہتا ہے دوٹھو کر گا کرگزر جاتا ہے۔ عقیدے کی کمزوری کا سب سے پہلا اثر عبادات اور اخلاقیات پر پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی بلا مبالغہ 90فی صد آبادی نماز جیسے فرض سے غافل ہے، جو کسی حال میں معاف نہیں ہے۔ جب ایک شخص کلمہ لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ کا اقرار کرتا ہے تو سب سے پہلے نماز اس پر فرض ہوتی ہے۔ جب تک یہ کڑی قائم نہیں ہو گی ، بندے کا خدا سے رشتہ استوار نہیں ہوسکتا پھر اس کا مسلمان ہونا ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، جس کو اسلامی شریعت کبھی تسلیم نہیں کرتی۔ (۵)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: "الصلاۃ عماد الدین مناقامھا قد قام الدين من تركها لقد ھدم الدین" نماز دین کا ستون ہے، جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو ترک کیا، اس نے دین کو ترک کر دیا۔ گویا جو مسلمان ہو کر نماز ادا نہیں کرتا اس نے اس گھر کو ڈھا دیا جس میں رہنے کا دعوی کرتا ہے اور دین کو ڈھانے والا مسلمان
کیسے ہو سکتا ہے ؟ (6) ۔
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
نماز اسلام کی ایک ایسی علامت ہے کہ مدینے کے منافق نماز کی عدم ادائیگی سے ڈرتے تھے، کہ کہیں ان کا نفاق ظاہر نہ ہو جائے اور وہ پکڑے نہ جائیں جب کہ آج مسلمانوں کی پوری آبادی چند نفوس کو چھوڑ کر اس فرض کی ادائیگی سے غافل ہے۔ اس میں صرف جاہل اور ان پڑھ لوگ نہیں ہیں جن کی اکثریت ہے بلکہ خاصے پڑھے لکھے لوگ جن میںڈاکٹر،انجنیر، پروفیسر،افسر،تعلیم یافتہ،دولت مند،خوش حال اور بد حال غرض کہ بچے اور عورتیں بھی ہیں ۔محلہ میں سیکڑوں اور ہزاروں کی آبادی ہے ؛ لیکن مسجد آج بھی خالی ہیں ۔یہ کیوں اور کیسے ہوا کسی کو اس پر شرمندگی اور ندامت بھی نہیں ہیں۔ شاہد اسی لیے علامہ اقبال نے کہاتھا:
اے مسلمان اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
اسی طرح 40 فی صد لوگ روزے کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں عامی اور درمیانی درجے کے مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ جو روشن خیال اور فارغ البال سمجھا جاتا ہے وہ روزے کو ایک فضول عمل سمجھتے ہیں اور اسے غریبوں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی عبادت مانتے ہیں
۔ (7)
آج ہمارے سیاسی قائدین، اعلی افسران، اشتراکیت زدہ مسلمان اور مغربی تہذیب کے نقال جو سیاسی افطار پارٹیوں میں بڑی کلغی لگا کر شریک ہوتے ہیں اور سیکولرزم اور قومی تکجہتی کاا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کے سب بے روزے دار ہوتے ہیں جو اسے ایک فضول عبادت جانتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ادھر حال کے دنوں میں جو سیاسی لیڈر شپ ملک میں ابھری ہوئی ہے اس میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جو ہندولیڈر شپ ہے اس کا ہر چھوٹا بڑا بڑے ہی اہتمام سے پوچا پارٹ کرتا ہے، وہ اپنے مصروف اوقات میں سے اس کے لئے بھی وقت لگا تار رکھتا ہے اور اپنے پورے مذہبی علامات کے ساتھ پبلک میں آتا ہے، اور اسے کلچر کا لازمی حصہ مانتا ہے، اس کے بر کس جو مسلمان لیڈر ہوتے ہیں وہ اگر چہ سیاسی میدان میں آنے سے قبل داڑھی اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں؛ لیکن دھیرے دھیرے ان کی داڑھی بھی اتنی چھوٹی ہو جاتی ہے اور نماز کے اہتمام میں اتنی کوتاہی ہو جاتی ہے کہ داڑھی بھی غائب اور نماز بھی غائب۔ باقی لیڈران نماز روزے سے بلکل آزاد ،شکل وصورت، عادات و اطوار ،بول چال اور کردار واخلاق ہر اعتبار سے غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن
تہذیب کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ (۸)
اسی طرح لوگ زکات و حج کے اہتمام میں بھی بخیلی سے پیش آتے ہیں۔یہ سب دینی کی زوال کے اسباب نہیں تو اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلمان معاشرہ اسلامی عبادات اور اس کے مقتضیات کو سمجھ لے اور شعور کے ساتھ اس کی بجا آوری کرنے لگے تو یہ معاشرہ اتنا پاکیزہ اور مضبوط ہو گا جس کی طہارت و مضبوطی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے لیکن وائے افسوس یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور کسی کو اس کی اگر نہیں ہے۔
غور کرو! عقائد کے بگاڑ کا اثر صرف عبادات پر ہی نہیں بلکہ عام اخلاق اور معاشرتی آداب پر بھی پڑتا ہے، پھل اپنے بیج سے پہچانا جاتا ہے، آپ دھتورے کے پیڑے سے گلاب کا پھول حاصل نہیں کر سکتے۔ ہر چیز کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو اپنے فطری نتائج پیدا کرتی ہیں۔ بیمار آدمی سے آپ صحت مند اور توانا آدمی کی طرح صحت و توانائی کی توقع نہیں رکھ سکتے ، اسی طرح کسی بد کردار آدمی سے تقوی کی امید فضول ہے، جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے اور اپنی سابقہ زندگی سے باز نہ آ جائے۔ٹھیک اسی طرح جب آدمی کے عقائد میں اضمحلال اور فساد پیدا ہوجائے گا تو س کے اعمال پراگندہ اور اخلاق گھناؤنے ہوں گے۔
آج ہماری اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی پراگندگی کی شاید یہی وجہ ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنے کے لیے سوائے تاریخی حوالوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ جن کے بارے میں قرآن کا صاف صاف اعلان ہے وہ کچھ لوگ تھے جو گذر گئے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارےعمال تمہارے لیے، تم سے صرف تمہارے بارے میں پوچھا جائے گا ان کے بارے میں نہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ ہم کن خام خیالیوں میں مبتلا ہیں؟ہر طرف جھوٹ،فریب اور اخلاقی دیوالیہ پن کا دور دورا ہے۔وہ کون سی اخلاقی برائی ہے،جو آج ملت اسلامیہ کے افراد میں نہیں پائی جاتی۔چوری، زنا، شراب سوشی، وعدہ خلافی،ملاوٹ، کم تولنا اور امانتوں میں خیانت۔غرض کہ ہم ہر طرح کی اخلاقی برائی میں گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں جس سے دنیاکی قوموں میں ہماری پہچان گم ہوچکی ہے۔کل تک ایک مسلمان اپنی سچائی اور معملات میں کھرا ہونے کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا،آج وہ اپنے جھوٹ اور بد عہدی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ۔ (1)
خلاصہ :مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کی کوئی ایک وجہ ہو سکتی ہےتو وہ تعلیمی پسماندگی ہے۔ تمام علما،زعما،ماہرین، سیاسی لیڈران اور خود حکومت کا یہ اعتراف ہے کہ مسلمان اس ملک کی سب سے پسماندہ قوم ہے۔ جس معاشرے اور سماج نے تعلیم کو بے توجہی کا شکار ہونے دیا،وہ خاطر خواہ اور نمایا فائدہ اٹھانے اور ترقی کی منزلوں سے قریب تر ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ الہذا ان اسباب و علل پر ہم سب کومل کر غور کرنا چاہے کیوں کہ "کنتم خیر امت" کے مصداق ہم سب ہیں۔
غافل نه خودی سے کر اپنی پاسبانی
شایدکسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
*ماخذ و مراجع*
(۱) یہود نصاری کی اسلام کے خلاف سازشیں،ص، ۲۷ مؤلف: مولانامحمدار سلان، ناشر مکتبہ ارسلان اردو بازار، کراچی، سن طباعت ۲۰۰۴
(۲) اسباب تباہی، ص ۳۹ ، مرتب مولانا کلیم الله قاسمی، ناشر فرید بک ڈپو، دہلی، سن طباعت ۲۰۰۳ء ۰
(۳) عالم اسلام پر مغرب کا تسلط اسباب و نتائج:ص 60 مؤلف محمد وثیق ندوی، ناشر دار الرشید ،لکھنؤ،سن طباعت ۲۰۱۴
(۴) اسباب تباہی ،ص۳۰ ، مرتب مولانا کلیم الله قاسمی،ناشر : فرید بک ڈپو،دہلی،سن طباعت ۲۰۰۳
(۵) مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب، مصنف: ڈاکٹر ابوذر کمال الدین، ناشر فرید بک ڈپو۔ سن طباعت ۲۰۰۳
(۶) مجلہ صدائے جامع اشرف ۔ص ۱۶۲ ۔سن طباعت ۲۰۰۸
(۷) مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب ۔ص ۳۱،مصنف ڈاکٹر ابوذز کمال الدین، ناشر فرید بک ڈپو۔سن طباعت ۲۰۰۳
(۸) سمان اور تاریخ ۔ص191. مؤلف استاد شهید مرتضی مطهری، ناشر سازمان تبلیغات اسلامی ۔سن طباعت ۱۴۱۰ء
(۹) مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب ۔ص۳۷تا ۵۰ مصنف: ڈاکٹر ابوذرکمال الدین۔سن اطلاعت ۲۰۰۳
المشتہر ۔مجلس ثقافت
0 تبصرے