Header New Widget

معمار قوم وملت حضور شیخ اعظم سید اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ

 

معمار قوم وملت حضور شیخ اعظم سید اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ

بر صغیر ہندوستان میں واسلام کی ہمہ گیر اشاعت صوفیہ اور مشائخ طریقت کی مساعی جمیلہ کی بدولت ہوئی۔ ایک طرف فاتحین نے حربی سیاسی قوت و تدبیر سے مسلم اقتدار کی بساط آراستہ کی تو دوسری جانب اہل صفا بزرگوں نے ہندوستان کے چپے چپے میں روحانی فیوض و برکات کے چشمے جاری کردئے جن کے گرد تشنگان حق و صداقت کی بھڑ اکھٹا ہوگئی ۔اور دیکھتے ہی دکھتے ہندوستان کی سرزمین پر اسلام کا غلبہ بلند ہوا یہاں کے قبائل اسلام کی صداقت سے آشنا ہوکر جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ماضی میں اودھ کا ایک سنسان دور افتادہ خطہ کچھوچھہ مقدسہ ہے جسے قدوۃ الکبری حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ(709ھ تا808ھ)نے اپنی تبلیغی وروحانی تحریک کا مرکز قرار دیا۔اسی مرکز علم و عرفان سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور معرفت و سلوک کی تعلیم ورتبیت کا کام شروع ہوا۔کچھوچھہ شریف کے دوران قیام تبلیغ حغق اور مسلنمانوں کی اصلاح باطن کے لئے ہندو بیرون ہند کے سفر کئے ۔ اجودھیا،ردولی،آس مئو،جائس،سندیلی،بنارس،بہرائچ،گلبرگہ،گجرات،شام روم ،مصر، ایران مقامات پر بس نے والے عفار مشرکین کو دعوت حق دی ، دائرہ اسلام میں داخل کیا اور گم گشتہ راہ مسلمانوں کو ہدایت دی اور ان کے اندت تصوف وعرفاں کا ذوق پیدا کیا۔حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد تبلیغ دین ،اشاعت علم اور تؤوف وعرفاں کی روایت آپ کے جانشینوں میں قائم رہی تا ہم اس سلسلے کو جو فروغ ہوا اس میں نمایا کردار ہم سبیہ غؤظ الثقلین حضرت علامہ علی حسین المعروف نہ اشرفی میاں (1355ھ)کا ہے ۔قطب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ علماو مشائخ کے نورانی قافلہ کے ساتھ حج و زیارت کے لئے حجاج حرمین تشریف لے گئے ۔قیام مدینہ کے درمیان (6محرم الحرام 1355ھ)کی صبح کو فرمایا :یونس ! میرا پوتا پیدا ہوا ہے۔ میں نے عرض کیا کوئی ٹیلی گرام تو نہیں آیا ہے۔اعلی حضرت نے فرمایا تو سوچتا ہے کہ بغیر ٹیلی گرام کے کیسے اطلاع ہوگئی ، تمہیں معلوم نہیں کہ فقیر کو کسی ٹیلیگرام کا محتاج نہیں ہوتا۔چلو اس کا نام رکھ دیا جائے۔اعلی حضرت نے مواجہ اقدس کے سمنے حاضر ہوکے اظہار نام رکھا یہ بھی ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ تعالی میرے اس پوتے سے اشرفیت کا اظہار ہوگا۔

        شیخ اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میری نانی مخدومہ (اہلیہ حضرت مولانا الحاج سید شاہ مصطفے اشرف علیہ الرحمہ)نے بیان فرمایا کہ جب اعلی حضرت اشرفی میاں مدینہ منورہ سے تشریف لائے چالیس روزکے بعد میں تمہیں ان کی گود میں دیا اور اعلی حضرت نے گود میں لیا ۔اس وقت میں کہا کہ معلوم نہیں کہ کس پر پڑا ہے تو اعلی حضرت نے فرمایا :یہ میں ہوں میں ،یہ میرا مرید ہے اور اس سے بہت بڑا کام انجام پائے گا۔سلسلہ کی اشاعت اور دین کا کام ہوگا۔

حضرت شیخ اعظم تحصیل علم اور چارسال تدریسی(جامعیہ نعیمیہ مردآباد) خدمات کے بعد ہی سے اپنےجد امجد حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے تبلیغی ، دعوتی، علمی وروحانی مشن کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔اور زندگی کا ایک ایک لمحہ مسلمانوں کی رسد و ہدایت کے لئے وقف کردیا ۔آپ نے وعظ و تقریر ،بیعت ارشاد اور اہل سنت ع جماعت کی نتظیم و تشکیل اور امت مسلمہ کے نوجوانوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لئے دینی مدارس کے قیام کی جدو جہد پوری دلسوزی اوسر لگن کے ساتھ فرمائی۔اس طرح ہر محاذ  پر یقین محکم ، عمل پیہم کی جیتی جاگتی تصویر بن کر آنے والی نسلوں کو لائحہ علم اور نمونہ زیست سے آشناں کردیا۔

حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے جہاں لوگوں کو راہ راست پرلایا اور اہل سنت و جماعت میں داخل فرمایا وہیں پر ان کے دین و ایمان کی حفاظت و صیانت کی کے لئے دینی اسلامی قلعے بھی تعمیر فرمائے

 

 

 

 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے