Header New Widget

قوم مسلم کی حالت ماضی اور حال کے آئینے میں۔۔۔ عصر حاضر میں قوم مسلم کی جو حالت ہے۔

 قوم مسلم کی حالت ماضی اور حال کے آئینے میں

از...محمد سراج الدین شفق دمکاوی صاحب


عصر حاضر میں قوم مسلم کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی وپوشیدہ نہیں ہے ۔جب کبھی پستی وزوال کا تصور ہوتا ہے تو قوم مسلم اس تصور میں مختص نظر آتی ہے ۔قوم مسلم کی معاشیات کی تمام راہیں جس سے وہ اکتساب روزی کرتے ہیں سیاسی،سماجی،معاشرتی، معاشی وغیرہ یہ سب ان کے لئے بند ہوتیں دکھائی دے رہی ہیں ہر طبقہ اس سے منہ موڑ رہا ہے۔

کسی طبقے میں اس کے عروج و ارتقاء کا امکان نہیں ۔ ہمیں پستی وزوال کا لباس پہنا کر در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ہماری بے بسی اور لاچاری پر دنیا مسکرا رہی ہے ۔ پھر بھی مسلمان غفلت ولاپرواہی کی نیند اور بے نیازی کی چادر تانے سو رہے ہیں۔ شاید مسلمان اپنے ماضی کی تاریخ کو بھول گیا ہے۔ دنیا کے اکثر وبیشتر ممالک میں مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ *اندلس* (ہسپانیہ) جہاں مسلمانوں کی آٹھ سو سال حکومت رہی۔

جب بعد میں خرابیاں شروع ہوئیں دولت ،شراب اور شباب کو اپنا ساتھی بنا لیا اور قرآن واحادیث کے ارشادات کو فراموش کر دیا تو حالات ایسے آگئے کہ اگر وہ قرآن پڑھنا چاہتے تھے تو نہ پڑھ سکتے تھے ۔ نمازیں ادا کرنا چاہتے تھے نہ کر سکتے تھے ۔ اپنی عورتوں کی عصمتیں بچانا چاہتے تھے نہ بچا سکتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے مسلمان یا تو مارے گئے یا پھر عیسائی بن گئے یا فرار ہو گئے ۔ طارق بن زیاد کی قیادت میں مجاہدین اسلام نے سخت صعوبتیں جھیل کر اندلس میں پرچم اسلام بلند کیا تھا بعد کی نسلوں نے اسے کفرستان بنا دیا ۔


بخارا و سمرقند

یہ وہ مبارک خطے ہیں'جہاں ہزاروں مفسرین ومحدثین نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔ اپنے رب کی رضا کی خاطر شجر اسلام کی ایسی آبیاری کی جس کی ہریالی تا قیامت باقی رہے گی ۔ وہاں کے مسلمان ایسے گناہوں میں ڈوبے نہ قرآن کا خیال نہ صاحب قرآن کا

نتیجہ: جن مسجدوں میں بیٹھ کر ہمارے اسلاف نے کتب احادیث وفقہ ،عقائد ، ومنطق وفلسفہ ،تدوین کی تھیں - ان مسجدوں میں گھوڑے باندھے گٸے یا پھر بعض مقفل کردی گٸیں- مسلمان اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس پر ہورہے ظلم وستم کےخلاف کوٸی آواز بلند کرےگا -اس کی اعانت ونصرت کےلیے کوٸی آۓ گا اور اس سے نجات دلاۓگا - 

برما_ کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا سب نے دیکھا - لاکھوں مرد ،عورتوں اور معصوم بچے، بچیوں کو بڑی ہی سفاکی وبےدردی سے قتل کردیا گیا - 

مگر پوری دنیا خاموش رہی - اس گمان میں آپ نہ رہیں کہ کوٸی فریاد رسی کےلیے آۓگا اور ظالموں کےچنگل سے آپ کو آزادی دلاۓ گا-


بھارت

بھارت کے مسلمانوں نے بھی چشمِ خویش سے کچھ ایسے بھیانک مناظر دیکھےجس کا اسے تصور بھی نہ تھا جنگ آزادی کے اگست ١٩٤٧ٕ ، میں تقسيمِ ہندوپاک کےبعد جب مشرقی پنجاب ودیگر صوبوں وأضلاع میں ہزاروں بستياں آگ اور خون کا طوفان دیکھ رہی تھیں- مسلح ہندو اور سیکھ (”جھتوں“) نےاتنے وسیع پیمانےپر ماردھاڑ اور آتشزنی کی کہ آناً فاناً سارا مشرقی پنجاب اس کی چپیٹ میں آگیا وہ آبادیاں جو صدیوں سے امن کی زندگی بسر کررہی تھیں اور جن کے تصور میں یہ قیامت خیز مناظر نہ تھے -تباہ ہوگٸیں سارا نظامِ معیشت درہم برہم ہوگیا -لاکھوں بےگھر ہوۓ-ہزاروں مرد، عورتيں ، اور بچے، موت کےگھاٹ اتار دیٸے گٸے- اور تاریخ کی سب سے گھناٶنی حرکت تو یہ ہوٸی کہ وہاں کے مسلمان مردوں کو قتل کرکے انکی عورتوں پر غاصبانہ تسلط کرلیا گیا -جس کا اثر و اظہار آج بھی پنجاب کے علاقوں میں عورتوں کےناموں سے ہوتا ہے- یہ غیرمسلموں کی طرف سے مسلمانوں کے چہرے ہر ایسا زناٹے دار طمانچہ ہے جس کی لالی قیامت تک باقی رہے گی -

اس وقت بھی ہندوستان کا مسلمان یہ سوچنے سے قاصر تھا کہ آنے والے وقت میں ہماری بربادی کی داستان ہمارے ہی خون کی سیاہی سے لکھی جاۓ گی دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ جو آزادی کے بعد نٸی ہندوسماج نے مسلم دشمنی پر لگاٸی تھی

اس کی شعلوں نے ہزاریباغ، رانچی، ٹاٹا، بھاگلپور، گجرات، گودھرا، مظفر نگر، کو اپنی زد میں لے کر ان کی جانوں اور مالوں کو خاکستر کردیا.

اس طرح سے مسلمانوں کے چہرے کی حسین مسکراہٹیں آہ و فغاں اور سسکیوں میں تبدیل ہوگئیں. 


قرونِ اولیٰ کے مسلمان قرآن و حدیث کی روشنی میں

 قرونِ ماضیہ میں قومِ مسلم ایک متعمد و مہذب قوم سمجھی جاتی تھی یہ نہایت ہی سادہ سی زندگی بسر کرنے کی عادی تھی چند سوکھی روٹی اور تھوڑا سا سرکہ اور شہد اس کی غذا چند زنگ آلود تلوار اور کچھ ٹوٹے بکھرے تیروکمان اس کا سامان جہاد بھوک سے نڈھال ہونے کے باوجود مرضی مولا پر قائم رہنے والی، ظالموں کے ظلم کو سہ  کر اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی جنگ میں اپنے سینے پر تلوار کے وار اور نیزے کی مار کھا کر اپنے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہنے والی، انصاف کی خاطر اپنی آل و اولاد کی پرواہ کیے بغیر مظلوم کو اس کا حق دلانے والی گویا ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسوہ حسنہ سے مملو تھا کہ یہ رات رات بھر مسجدوں میں نمازیں پڑھا کرتی تھی قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی درود و وظائف میں مشغول رہتی، 

ان کے عوض 

 اللہ رب العزت نے بدلے اسے رضی اللہ عنہ ورضو عنہ کر جنت کا پروانہ عطا کردیا، 

صدق وفا، عدل و اخلاق، مروت و محبت شرافت و نجابت،

  قوم مسلم ان تمام خو بیوں کی  مجسمہ تھی جب کوئی مسلمان کسی جگہ کا حاکم ہوتا تو رات میں اٹھ کر اطراف  و اکناف کا چکر لگاتا اس ارادے سے کی کوئی غریب غربت کی وجہ سے بغیر چولہا جلائے نہ سو گیا ہو، قرون اولیٰ کا  مسلمان جب کسی راستے سے گزرتا تو دنیا اسے جھک کر سلام کرتی ہے ان کی حیا آلود نظریں، نجابت و شرافت میں ڈوبی ہوئی حسین ادائیں شریعت کا پاسدار تھیں غیر محرم عورتوں کی طرف 

نظر اٹھانا تو دور ایسے مہلک گناہ کا وہ تصور بھی نہ کرتے تھے، مجاہدین اسلام جب جنگ میں جاتے تو یہود و نصارٰی اپنی خوبصورت دوشیزاؤں کو لباس فاخرہ سے مزین کر کے ان کے نفس مطمئنہ کو نفس امارہ بنانے پر مامور کر دیتے، مگر تاریخ شاھد ہے کہ مجاہدین وہاں سے ایسے گزر جاتے جیسے کوئی مست فیل راہ میں پڑی ہوئی ہر شیٔ کو روندتے ہوئے گزر جاتا ہے، گویا ان کی زندگی آیت ربی قُل لِلْمُؤمِنِينَ يَغُضُوْا مِن أَبصَارِهِم کی مصداق تھی، یہ جب نصیحت کے لئے زبان کھولتے تو انکی گفتار ایسی سحر آفرینی ہوتی جس کا اثر براہ راست دل پر ہوتا، جس سے ہزاروں سنگدل، شقی القلب، و شور دیدہ بخت انسان کے بخت خفتہ بیدار ہو جاتے، اور اسکی کِشت ویراں بھی لالہ زار ہو جاتی 

اُس عہد کے مسلمانوں کی سعادت کا کیا کہنا وہ ھادیٔ بر حق کے ہر ایک حکم کی تعمیل ہی اپنا مقصد حیات سمجھتے تھے، ان کے ہر ارشاد پر اپنی جان نچھاور کرنا اپنا نصب العین جانتے تھے، ان کو یہ معلوم تھا کہ ان سے رو گردانی، یا حکم عدولی، بے اعتنائی و بے توجہی، قیل و قال، حیل و حجت، تسہیل و کوتاہی دخول فی النار ہے

 قرون ماضیہ کے مسلمانوں کے اخلاق درخشاں، و خصائل نور افشاں، اور انکی تابندہ حیاتِ جاوید کے ایسے چنندہ پہلو ہیں جسے لکھ کر ہم وارفتگیٔ شوق قلم کو تسکین و راحت کے سمندر سے ہم کنار کرتے ہیں

 

          انحطاط و زوال کے اسباب و علل

یوں تو قوم مسلم کے بگڑے ہوئے حالات کی سینکڑوں وجہیں ہو سکتی ہیں، مگر ان میں سب سے بڑی اور اہم وجہ قرآن اور صاحب قرآن کے ارشادات سے بے رابطگی  و لاتعلقی ہے، یہ جب تک قرآن کے ساۓ میں اپنی زندگی کی سانسیں لیتی رہی اللہ ربّ العزت ان سانسوں کے بدلے فتوحات عطا کرتا رہا، تاکہ یہ تخت نشیں ہو کر میری خلاقیت کا ڈنکا بجاۓ، قوم مسلم اپنے رب سے اس بات کا شکوہ نہیں کر سکتی کہ اسے تاج و تخت حکومت نہیں ملی، رب اعلیٰ نے اسے پوری دنیا پر قابض کیا تھا، مگر انکی بے راہ روی و نفس پروری نے اسے تنزلی کے ایسے کنویں میں ڈھکیل دیا جہاں ترقی کی کرنیں بھی نہیں پہنچتی،  جن جن گناہوں کا ذکر قرآن مقدس میں اللہ ربّ العزت نے سخت وعید کے ساتھ کیا ہے قومِ مسلم اسے انجام دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتی ہے۔ شراب چوڑی زنانہ لوٹ مار قتل و غارت گری دلشکنی بغض و کینہ حسد ان تمام گناہوں کا ارتکاب یہ ایسے کرتی ہیں۔گویا ان کے معمولات حیات کا ایک اہم حصہ ہو۔ قوم مسلم کی علماء کرام و مشائخ عظام مساجد و مدارس سے دوری و لا تعلقی بھی ان کی تنزلی کی ایک خاص وجہ ہے۔ قوم یہ بھول گئی وارثینِ علوم نبویہ فقط علماء کی کی ذات ہے۔ قیامت تک جن کے مضبوط کاندھوں پر شریعت اسلامیہ کا بار رہےگا۔یہ مساجد و مدارس میں بیٹھ کر توحید کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ کفر و شرک کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو ایمان و اسلام کا پیغام دیتے ہیں۔ ان سے رشتہ منقطع کرنا گویا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے۔ قرآن حکیم و فرقان حمید کا مقصد اولین انسان کی رشد و ہدایت اور اسکی اصلاح ہے۔تربیت پیہم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ میں تبدیل کرنا ہے۔ ھوا و ھوس کے غبار سے کاسۂِ قلب کو صاف کرکے اسے انوارِ ایزدی کی جلوہ گاہ بنانا ہے۔ غرور و تکبر و سرکشی کا جامہ اتارکر وفا،خلوص ،اخلاق ،عدل مروت و محبت کا جامہ پہنا کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور انقیاد کا خوگر بنا نا ہے۔ 

           نزول قرآن کے لئے اللہ تبارک و تعالی نے جس سرزمین کا انتخاب فرمایا وہ خطّۂِ عرب تھا۔ وہاں کے بسنے والے لوگوں میں ذرہ برابر انسانیت نہیں تھی۔ کفروشرک فسق و فجور اور ظلم و ستم وحشت و بربریت جہالت اور اجڈ پن غرض کہ تمام عیوب اس میں پائے جاتے تھے. 

مگر واہ قرآن کی تاثیر اور صاحب قرآن کی برکت سے وہ کیا بن گئے۔ جب یہ قرآن عرب کے اجڈ بدوؤں کو بزم علم دانش کا صدر نشین بنا سکتا ہے۔ اگر حرم کعبہ میں 360 بتوں کی پوجا کرنے والی قوم کے دلوں میں معرفت الہی کے دیپ جلا سکتا ہے تو ہماری خستہ حالی کو بدلنے میں اسے کتنی دیر لگے گی۔ہمارے حالات آج بھی سازگار ہو سکتے ہیں ہمیں اپنی قسمت برگشتہ پر آہ و فغاں کرنے کی ضرورت نہیں ۔دنیا کی امامت وقیادت متاعِ گم گشتہ ہے ۔ یہ ہمیں واپس مل سکتی ہے ۔ ہمارا کھویا ہوا وقار ہمیں واپس مل سکتا ہے بشرطیکہ ہم قرآن کی قیادت کو قبول کر لیں،اپنی شاہراہِ حیات کو قرآن مقبول و حدیث رسول کے دلکش نقوش سے منقش کر لیں۔ اور اس ہدایت کی طرف گامزن ہوں جو خالقِ ایزدی نے ہمارے لیے تجویز کیا ہے ۔اللھم اھدنا الصراط المستقیم۔


شاعر اسلام حضرت حافظ و قاری مولانا محمد سراج الدین شفؔق دمکاوی صاحب قبلہ 

ناظمِ تعلیمات

الحجاب کلیۃ البنات اکیڈمی سیت پہاڑی پوسٹ چھیلا پاتھر مسلیہ دمکا جھارکھنڈ۔

المشتہر مجلس ثقافت ۔



 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے