پیری مریدی
جب کوئی مرید ارادت کے لئے حضرت پیر ومرشد(مخدوم سیداشرف قدس سرہ) کی خدمت میں حاضر ہوتاتھااورارادت کانام لیتاتھاتوحضرت اس سے بہت بچتے تھےاورآپ کے چہرے کارنگ بدل جاتا اور فرماتے تھے:آج کل مرید کہاں ہے؟اگر کوئی مریدتھاتو حلقہء مریدانِ جہاں کے سردار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور پیروں اور مرشدوں کے سردار سرور کونین ﷺ کی ذات گرامی تھی اور ان کے بعد چند اور حضرات متقدمین میں تھے جو ارادت کی حدوں تک پہنچے تھے۔چوں کہ آپ کے خُدّامِ عظام نے آپ کی زبان سے متعدد بار یہ بات سنی تھی اس لئے جب کوئی طالب ِارادت خدمت میں حاضر ہوتاتھا تو اس کو سمجھادیاجاتاکہ ارادت کے بجائے توبہ کی گزارش کرے۔جب آپ کے گوش مبارک میں توبہ کانام پہنچتاتھا تو آپ حددرجہ مسرور ہوتے اور فرماتے تھے:اے بھائی آؤ،آؤ! ہم تم مل کر توبہ کریں اور ہم تم کہ بحر عصیاں میں غرقاب ہیں توبہ کرکے ساحل بخشش تک پہنچ جائیں۔۔۔حضرت قدوۃ الکُبَراء(حضرت مخدوم اشرف) فرماتے تھے:اِس زمانے کے مرید اِس زمانے کے پیروں سے اچھے ہیں،کیوں کہ مرید کابیعت سے مقصود دین کا استفادہ(دینی فائدہ حاصل کرنا) ہے، اور بیشتر پیروں کامقصود مرید کرنے سے اِس کمینی دنیا کاحصول ہے اور فرق صاف ظاہر ہے(کہ دونوں میں کون بہتر ہے۔)۔(لطائف اشرفی حصہ اول، لطیفہ ۱۲،ترجمہ اردو: مولانا شمس بریلوی ،ناشر: مرحوم شیخ محمد ہاشم اشرفی پاکستان۔
0 تبصرے