ہماری زندگی کا مدار سوچ پر ہے ہم جیسا سوچتے ہیں ویسی ہماری زندگی بنتی ہے
امریکہ میں جب قیدی کی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو وہاں کے کچھ سائنسدانوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس قیدی پر کچھ تجربات کئے جائیں۔
قیدی کو بتا یا گیا کہ ہم تمہیں پھانسی دے کر نہیں ماریں گے بلکہ زہریلا کوبرا سانپ ڈسا کر ماریں گے۔ اس کے سامنے بڑا سازہریلا سانپ لایا گیا اور اس کی آنکھیں بند کر کے اس کو کرسی سے باندھ دیا گیا۔ پھر اس کو سانپ نہیں بلکہ دو سیفٹی پن چبھوئی گئیں۔
قیدی کی کچھ سکنڈ میں ہی موت ہوگئی۔پوسٹ مارٹم کے بعد یہ پایا گیا کہ قیدی کے جسم میں سانپ کے زہر جیسا زہر ہے۔ اب یہ زہر کہا سے آیا جس نے اس قیدی کی جان لے لی۔وہ زہر اس کے جسم نے ہی صدمے میں جاری کیا تھا۔ اس کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہچے کہ ہمارے ہر عمل سے مثبت یا منفی توانائی بنتی ہے او وہمارے جسم میں اسی کے مطابق ہارمونز تیار یکرتی ہے۔
یاد رکھی
۵۷ فیصد بیماریوں کی وجہ منفی سوچ ہوا کرتی ہے۔ آج انسان خود ہی اپنی منفی سوچ سے خود کو ختم کررہا ہے۔ اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھیں اور بہت خوش رہیں۔
۵۲ سال کی عمرتک ہمیں یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیا سوچیں گے؟
۰۵ سال کی عمر تک اسی ڈر میں جیتے ہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے؟
۰۵ سال کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا تھا!!
زندگی خوبصورت ہے اس لیے ہمیشہ خوش رہیں۔
0 تبصرے