Header New Widget

نام، مقام اور نظام۔ حد تو یہ یے کہ اساتذہ کو مزدور سمجھ لیا گیا ہے

نام، مقام اور نظام



ہمارے لئے یہ بات انتہائی افسوس کن ہے کہ ہمارے یہاں جو نام،مقام اور نظام ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کی تعلیمی نظام اور ہندوستان سے باہر جاکر پڑھنے والے طلبہ۔دونوں باتوں میں کوئی بظاہر کوئی ربط نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی اس میں نہ ہو۔جہاں تک پہلی بات کی تعلق ہے اس پر بل گیٹس نے کہا تھا کہ ہندوستان کا جو نام اور مقام ہے اس اعتبار سے یہاں نظام تعلیم بہت بلند اور اعلیٰ ہونا چاہیئےتھا لیکن ایسا نہیں ہے۔

بل گیٹس کا کہنا کوئی غلط نہیں ہے۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہاں برسوں سے کہا جارہا ہے لیکن صاحبان اقتدار نے  خواہ وہ کسی پارٹی کے رہے ہوں،تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں بننے نہیں دیا ۔ اس کلیدی شعبہ کی جانب سے ایسیی بے اعتنائی برتی گئی جیسے و  کوئی پرانا قلعہہو اور اگر دن رات دھول کھاتا ہو، موسم کے سرد و گرم جھیلتا ہوااور ٹؤٹ پھوٹ کا شکار ہو تو ہوا کرے۔ہر چند کہ قلعہ بھی اہم ہے کیونکہ ملک کی تاریخ کا ایک باب ہوتا ہے جس کی حفاظت از حد ضروری ہوتا ہے ۔لیکن اگر اس طرف فوری  توجہ نہیں دی گئی تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔وہ ماضی ہے جبکہ تعلیم ملک کا مستقبل ہے اور اس کی جانب سے برتی جانے والی لاپرواہی اور بے اعتنائی معاف نہیں کی جا سکتی ۔نظام تعلیم درست نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ دوسری بات سامنے آئی اور لوگوں کی نگاہ کی مرگز بنی،جس کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا ۔کہ 2016اور2017 میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے امریکہ جانے والے ہندوستانی طلبہ نے 54ء 6 ارب ڈالر خرچ کئے۔

کیا اس کا مطلب یہ نیں کہ اگر ہندستانی نؔام تعلیم ویسا ہوجائے جیسا کہ ہونا چاہئےیا جو ہندوستان کے نام اور مقام کے شایان شان ہو تو کیا اتنے طلبہ بغرض تعلیم امریکہ جائیں گے اور ایسی خطیر رقم خرچ کریںگے؟یہ رقم بچ جائے اور امریکہ میں خرچ ہونے کے بجائے ہندوستان ہی میں خرچ ہو تو کیا اس میں ملک کا  گرں قدر فائدہ نہیں ہے؟افسوس کہ اہل اقتدار کو نہ تو معیار تعلیم کی فکرہے نہ ہی انفراٹرکچر کی۔نہ تو اساتذہ کی تقرری کا خیال ہے نہ تو طلبہ کو بہتر سہولتیں مہیا کرنے کا احساس ہے۔

وطن عزیز کی کوئی بھی یونیورسیٹی دنیاکی سر فہرست 200 یونیورسیٹی میں جگہ پانے کے قابل ہوں۔ہمارے جو ممتاز ادارے ہیں وہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ علیٰ تجارتی ادارے ان کے لئے شرخ قالین بھچائیں۔جب ممتاز اداروں کا یہ حال ہے توان کے بارے میں سوچا جاسکتا جو جیسے تیسے اپنی خدمات دیتے ہی۔دہی علاقوں کے تعلیمی مراکز کاحال ت اتنا برا ہے کہ بیان تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ مسلسل غفلت کا نتیجہ ہے۔

حد تو یہ یے کہ اساتذہ کو مزدور سمجھ لیا گیا ہے کہ ان پر جتنا بوجھ لادا جا سکتا ہو لاد دیا جائے،بوجھ تدریسی ذمہ  دوریوں کا ہو تو اتنا معیوب نہیں لیکن یہ جو بوجھ ہے اس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔معلوم ہوا کہ پہلے ہم نے نظآم تعلیم کو نظر انداز کیا اور اب اسے مذاق بنا دینا چاہتے ہیں۔ مثبت اور خوشگوار تبدیلی کے آثآر دور دور تک نہیں ہیں ۔ ایسے میں جن کے پاس دولت ہے ان کے بچے تو امریکہ میں پڑھ لیں گے لیکن جن کے پاس دولت نہیں ہے ان کے بارے میں کوئی بتا دے کہ وہ کہاں جائیں گے۔۔۔ افسوس!


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے