آہ جامع اشرف کی یادیں
اعدایہ تا رابعہ دو مدرسہ میں زیر تعلیم رہا پھر یکلخت دل میں خیال آیا کہ اعلی تعلیم کے لئے کسی ایسے مدرسے کا رخ کیا جاے جہاں ایک طرف تعلیم ہو تو دوسری طرف تزکیۂ نفس بھی اسی تخیل میں چہار سو نظر دوڑائی تو کئی مدارس ذہن کے حاشیہ میں گردش کرنے لگے، اب دل و دماغ کا مرکز ترجیح پر تھا اسی تذبذب میں گھر والے کے دعاؤں کا سہارا لیکر ایک محب گرامی کے ساتھ رخت سفر باندھا جب ٹرین بریلی جنکشن پہونچی تو دونوں مسافر مع زادوتوشہ اتر کر بریلی شریف کا ایک عظیم ادارہ جامعۃ الرضا کی طرف چل دیئے وہاں پہونچ کر ٹیسٹ کی تمام کاروائی مکمل کرکے ٹیسٹ میں بیٹھ گیے جامعۃ الرضا میں پہلے سے میرے دو ساتھی زیر تعلیم تھے لہذا ان دونوں کو نتیجہ امتحان بتانے کی تاکید کرکے ہم پھر اسی مدرسہ کی طرف رخ کرلیے جہاں سے آے تھے جب لکھنؤ جنکشن پہونچے تو پھر سے دل میں خیال مچلا کہ جس مقصد کے لیے آیا تھا وہ نہیں ہورہاہے تو شریک سفر سے کہا کہ آپ مادر علمی جاؤ میں اہل سنت والجماعت کا عظیم ادارہ جامع اشرف کچھوچھہ شریف امبیڈکر نگر یو پی کا رخ کرتاہوں جب جامع اشرف پہونچا تو تحریری امتحان اختتام پزیر ہوچکا تھا تھوڑی چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ ابھی تقریری امتحان باقی ہے لہذا تقریری امتحان کاروائی کو پورا کرکے امتحان میں شرکت کی تو بفضلہ تعالیٰ ممتحن نے اس قابل جانا کہ اس ناچیز کو زانوئے تلمذ بخشے۔
پھر جامع اشرف میں مؤقر اساتذہ، ذروں کو کندن بنانے والے، لق و دق کو بھی سرسبز و شاداب کردینے والے اور دل و جان سے پڑھانے والے کے زیرِ نگرانی فضیلت تک تعلیم حاصل کی بعدفضیلت گھر والے اور کچھ معزز علماء کرام سے مشورہ طلب کیا کہ دو سالہ تخصص فی الفقہ کرنی چاہیے یا نہیں؟ ان تمام کا جواب ہاں میں آیا لہذا جامع اشرف کچھوچھہ شریف ہی سے دو سالہ کورس تخصص فی الفقہ مکمل کیا بفضلہ تعالیٰ ۔
تقریباً چھ سال تک جامع اشرف کچھوچھہ شریف میں زیر تعلیم رہا بالآخر آج وہ ساعت آہی گئی جسے نا چاہ کر بھی چاہنا پڑ رہا ہے وہ دار الافتا جنکی نایاب کتب سے ذہن و فکر کو کشادہ کرنا، جامع اشرف کی در و دیوار جن سے الگ طرح کی انسیت ہوجانا، عظیم الشان درسگاہی عمارت جن کے ساے تلے اپنی علمی پیاس کو بجھانا، مختار اشرف لائیبریری (جن کی عظیم الشان ہونے کی گواہی اپنے تو اپنے غیر بھی دیتے ہیں) میں جاکر کتب بینی کرکے معلومات میں اضافہ کرنا اور وقتاً فوقتاً بعد فجر سرکار مخدوم سمناں، حضرت عبد الرزاق نورالعین، اشرفی میاں، سرکار کلاں اور شیخ اعظم علیھم الرحمہ کی چوکھٹ پر حاضری دینا ان تمام سے فرقت کا وقت آگیا۔ لبوں پر بظاہر مسکراہٹ تو ہے مگر عجیب سی کیفیت دل کو مغموم بھی کررہی ہے۔ لہذا جب رخصت کا وقت قریب سے قریب تر ہوا وہ احباب جدا ہوے جن کی حسین ترین کردار ان آنکھوں نے دیکھا اور مشام جاں بھرا لمحہ دل میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اور جب وہ اساتذہ جن کا رتبہ گھر کے سربراہ اعلیٰ کا ہوتا ہیں ان سے ملاقات و دست بوسی کر کے نکل رہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ ایک مزدور اپنے گھر کو الوداع کہکر اکتساب مال کے لئے پردیس جا رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ مولی ہمارے تمام اساتذہ کرام کو مخدومی فیض سے فیضیاب کرے اور ان کو ہر جگہ خوشحال رکھے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم اور جامع اشرف کو تاقیامت شاد آباد رکھے آمین۔
وقت فرقت نظیر کا ایک شعر ذہن میں آیا۔
دیکھ لے اس چمن دہر کو جی بھر کے نظیر
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا۔
از۔۔ احوج الناس الی شفاعۃ رسول اللہ
محمد تصدق حسین جامعی پورنوی
04/03/2023
0 تبصرے