دینی تعلیم کی زبو حالی اسباب و علل اور تدارک ۔
علم نور ہے ، یہ علم کا جامع کلی وصف ہے ۔ اس کےبعد دانشوران کے علم کے نسبت ذاتی آرا جزوی طور کے معلوم پڑتے ہیں ۔ اہل رائے کا ماننا ہے کہ علم کسی ذات میں ذات کو مؤدب بناتاہے ، علم رکھنے والے میں فکر ونظر کے پر لگ جاتے ہیں، اسے غلط اور صحیح کے بیچ کا ناتا ، مفید اور مضر کے درمیان کا پیمانہ حاصل ہوتا ہے۔ صاحب علم کے اندر نرم رویہ کھر کر لیتی ہے،ان کا پہلو لچک دار اور میزاج حقیقت پسندانہ غیر متعصبانہ ہوتا ہے ۔عالم سخت اور نرم حالات کے مابین توازن بنا کر مصالحت کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔علم سے چیزوں کی اصلیت کا،اس کے مقصدیت کا خوب سوجھ ہوتا ہے۔ وہ تاریخ کے دفینوں سے حالت حال کا دیشا دشابھاپ لیتا ہے ۔علم کے چاہے جتنے دھارے ہوں مگر ہم انہیں دو متغایر ذات اور متماثل وصف میں بانٹ سکتے ہیں، ایک علم دینی اور دوسرا علم دنیوی، یہ ایک دوسرے سے اصلا الگ بایں معنی ہیں کہ ایک توقیفی ہے (اس میں معرفت نفس اور رب کی معرفت مرکزی حیثیت رکھتا ) یاتوقیفی کی روشنی میں بنائے گئے اصول ہے یا اصول کے آدھار پر مستنباط ؛اور علةالعلة علة تو آپ سبھی سمجھتے ہی ہیں ۔ دوسرا استقرائی (اس میں انسانی اور اس سے متعلق معاملے کی تخریج ، ترکیب، تسہیل اور تزیین محور ہوتا ہے)اور تجرباتی ہے(ان کے بیچ کی اور بھی وجہیں بیان کی جا سکتی ہیں)۔ دونوں ایک دوسرے کی طرح اس طور پر ہیں کہ مزکورہ بالا باتیں جو ہم نے آرا کے تحت کہی وہ سبھی ان دونوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔
علم حاصل کرنے کے بھی اپنا ایک اصول اور کئی مراحل ہو گیں ،ہم موٹے طور پر مرحلے کی تین جز بنیادی ،اوسط اور آخری مرحہ که سکتے ہیں۔بنیادی مرحلہ چونکہ نمو اور نشا کی کیفیت میں ہوتا ہے اس لیے اپنے دونوں اخوات سے زیادہ اہمیت ہے ۔اس اہمیت دیتے ہوئے پرائیویٹ اور پرائمری سکولوں کے زمہ داران نظر آتے ہیں اتنا مدارس کے زمہ داران اہمیت نہیں رکھتی یہاں اکثر اپنے اپنے انداز کی غفلت میں ڈوبے رکھتے ہیں ۔اوسط کا مرحلہ چونکہ ذکاوت بلندی اور فکر ونظر کی پختگی کا ہوتا ہے ، اس وقت عبارت یا معانی کے پیچ وتاب ادراک کرنے میں طالب علم پژمردہ نہیں ہوتا ، نہ اس کے چہرے پر عرق جبینی کی ہوا منڈراتی۔ ہے۔ بلکہ خاص اس مرحلے میں نظریاتی اور معقولاتی مواد طبیعت پر جوشیلے پن کا مظاہرہ کرتی ہے اور فکر وفہم کو الگ جلاں عطا ہوتی ہے۔اس رو سے یہ زمانہ اپنے دونوں قسیم سے عظیم ہے ۔اس کیفیت کے واقف کاروں کی تعداد صحرامیں گھاس کی طرح ہے ۔ آخری مرحلہ شروع کے دونوں قسموں کے مقابلے جسم میں سر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس مرحلے میں طالب علم تجزیاتی ذہن رکھتاہے ۔کسی بھی معاملے میں تحقیق ،تطبیق اور تثبیت کرنے کا ملکہ اس کے دماغ میں افانی موجیں مار رہا ہوتا ہے ۔مگر یہاں تک بھی ہماری ساری توجہ کا ارتکاز ہر فنی کتابوں کو من وعن رٹا دینے پر ہوتا ہے ۔
ہمارے یہاں موجودہ طریق تعلیم میں(مجموعی حیثیت سے) ایک ہی طور کی فنی کتابیں داخلے نصاب ہیں۔ظاہر سی رات ہے ہدف ایک ہے۔ شروع کے چند درجوں میں داخل نصاب کی کتابوں کے بیانیے بالکل مجمل ہوتا ہے اور یہ معقول بھی ہے کہ طالب علم اس مرحلے میں نظریات کو سمجھنے اور بدیہیات سے نتیجہ نکالنے سے قاصر ہوتا ہے ۔دقت تب ہوتی ہے جب یہ سلسلہ بتدریج اپنے دھون پر جاری رہتا ہے ان اصولو قواعد اور اصطلاحات و تعریفات کا اجراء مختصر ان کا خلاصہ اور وضاحت ہونا تھا کہ اچانک مستثنیات اور جملہ شبہات اور ان کے نظائر پر طویل موشگافیوں اور پر پیچ بحثوں کا طوفان چل پڑتا ہے ۔ نتیجتاً سارا رٹا رٹایا اثاثا صاف ہو جاتا اورمحنت بے برگ و ثمر سوکھ جاتاہے ۔میرے نزدیک کسی مبسوط بحث کو "من وعن "رٹ کر یاد کر لینا یقیناََ علم کے لیے بے حد معاون ہے مگر علم نہیں ہے ۔ وہ ایک اشارہ ہے اسےمشار الیہ حاجت ہے ،اسے مبتدا کہیے جسے خبر درکار ہے یا موصوف صفت اور تابع متبوع میں کوئی ایک ۔
تقریباً 9/10سالہ مدارس کے معیار تعلیم کی درجہ بندی کچھ اس طریقے سے ہو تو ذیادہ مفید اور تعلیمی زبو حالی پر بند باندھنے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے ؛ شروع کے 2/3 درجے خالصتاً زبان و ادب پر مشتمل ہوں ۔ اردو ،عربی فارسی کے ساتھ انگریزی اور ہندی بھی ہو ، اولا ،اردو عربی کل وقت کے 60فی صد سے شامل نصاب ہو ، سال ثانی اردو ،فارسی کی جگہ اور فارسی اردو کی جگہ اور بقیہ اپنی رہے۔ سال اخیر عربی اور انگریزی اس معیار پر رہیں ۔ اس دوران تحریر و تحفیظ پر خوب ارتکاز رہے۔
بعد کے دو درجے فضیلت کے شعبے میں پڑھائی جانے والی فنوں کے مصطلحات اور اصول وقواعد کی کتابیں شامل نصاب ہوں۔ یہاں بھی قیل و قال کا دامن نہ پھیلے بلکہ کسی اجمال کی تفصیل بھر وضاحت کی جائے اور خال خال امثال ونظائر پیش کیے جائیں ۔ یہی پر درجہ خامسہ کی ہو جائے ۔
آنے والے تین برس کا دورانیہ درجہ فضیلت کے لیے ہو ۔اس میں مطلوب سبھی فن کے مطول اور تفصیلی بحث پر مشتمل کتابیں داخل نصاب ہوں ۔مصطلحات اور قواعد کی اجرا کی اور عقل و نقل کی حق بھر کوشش ہو۔چونکہ طلبہ کی بڑی مجبوری فن کی زبان کو لیکر ہوتی ہے ،وہ یہاں نہیں ہوگی اس لیے نصاب کی مقدار میں کچھ گنا اضافا کر دی جائے۔
طلبہ سے متعلق چند ضروری باتیں ۔طلبہ کے پہناوے اڑھاوے ،نشست و برخاست اور عادت و اتوار عمدہ ہو اس کے اصول بنا کر ان پ غائبانہ پینی نظر رکھی جائے ۔کچھ تو وجہ ہے کہ طالب علم کا جامعہ میں آئے چند برس ہوتا نہیں کہ وہ بہکاوے انداز کے ظلفوں کے اسیر ،بعض معروف منشیات کے عادی اور کچھ دریدہ اخلاقی کے نظر ہو جاتے ہیں ۔ بعض طالب علم شروع سے اخیر تک طالب علم کے لباس میں نہیں ہوتے ، وہ اپنے انداز کے آتے ہیں من پسند شعبے میں داخلہ لیتے ہیں اور اسی ڈھب پر فارغ ہو جاتے ہیں ۔بچوں کے اندر تعلیمی جنوب پیدہ کرنے کے واسطے ہر ممکن حربہ اپنایا جائے ۔ تعلیمی زبو حالی کا ایک کھمبہ اس گوشے سے بھی ٹوٹا ہے ۔
آخری بات اساتذہ کرام کی بارگاہ میں ؛ اساتذہ کا رویہ طالبہ کے ساتھ مشفقانہ سختی کے بجائے درسگاہ سے لیکر خارجی معاملے تک غیرانہ طور رکھتا ہے جو کہ طلبہ کے تعلیمی پروان سے لیکرجسمانی ترقی دونوں کو بے انتہا متاثر کرتی ہے ۔ یہ چلن جانے کب سے چل پڑی کہ معلم کی نگاہ جیسے ہی متعلم پر پڑے تو معلم کی آنکھوں کے پلکیں اپنے معمول سے خوب حد تک ابھری ہوئی ہوں۔اور آنکھ کا ڈھیلا خوب ظاہر ہوتا ہو ۔ کسی وجہ سے بلانا ہو تو آواز میں مصنوعی کڑک ساتھ زرا گرج کی بوہو اور لہجہ ڈراونی ہو۔اس سے طلبہ کے اندر نروس کا بت جنم لے لیتا ہے جو اسے احساس کمتری میں مبتلا روز فزوں کرتا چلا جاتاہے۔ارتقائی شعور کی زمین زمین ہموار نہیں ہوتی، نتیجتاً۔ طالب علم کا پورا تعلیمی سال میدان تیہ کی سرگردانی میں گزر جاتاہے۔ ضرب کاری اور دیگر اصلاح کی غرض سے تادیبی کاروائی ضرور مفید ثابت ہو سکتی ہے مگر توازن کا لازمہ قائم رہے، اپناپن اور انسیت کی شعاعیں استاد کے رگ رگ سے پھوٹتی رہے۔ رب تعالیٰ کے بارگاہ میں دعا ہے کہ عصر حاضر میں پھر سے تعلیم کے مقتضی فضا قائم ہو، تعلیمی زبو حالی کا سلسلہ وار باب اب سختی سے بند ہو ، آمین۔
غلام مصطفیٰ سہسرامی ،22/8/24
0 تبصرے