Header New Widget

راکھی باندھنے یا بندھوانا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ راکھی باندنا کیسا؟ مسلمانوں کا راکھی بندھوانا

 راکھی باندھنے یا بندھوانا کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تحریر

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

راکھی باندھنا یا بندھوانا فقط حرام و ناجائز ہے یا کفر بھی۔

 تو اس بارے علما کی تحقیقات مختلف ہیں جن علما نے اس تہوار کو ہندووں کا مذہبی تہوار مانا ہے ان کے نزدیک اپنی پسندیدگی کے ساتھ راکھی باندھنا یا بندھوانا صرف حرام ہی نہیں بلکہ کفر بھی ہے۔ لہذا ایسی صورت میں جو بھی برضا و رغبت اس کام کو انجام دے گا وہ بالفور اسلام سے خارج ہوجائے گا پس ایسا کرنے والے کو پہلے صدق دلی کے ساتھ سچی توبہ کرنی ہوگی اس کے بعد کلمہ پڑھ کر پھر سے داخل اسلام ہونا پڑے گا اور اگر شادی شدہ ہے تو دوبارہ ازسر نو نئے مہر کے ساتھ نکاح بھی کرنا ہوگا۔ 

جیساکہ محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہاء حضرت علامہ *مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی صاحب* سے سوال کیا گیا کہ 

 "زید نے راکھی تیوہار کے موقع پر سیاسی طور پرخود اپنے ہاتھ پر ایک کافرہ سے راکھی بندھوائی اور دوسروں کو بھی بندھوائی"۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں زید پر کیا حکم شرعی عائد ہوتا ہے؟

تو آپ اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ "راکھی بندھوانا یا باندھنا یہاں کے غیر مسلموں کا شعار مذہبی ہے اس لیے اسے پسندیدگی کے ساتھ باندھنا بندھوانا حرام بلکہ کفر ہے ۔ زید نے اپنے ہاتھ پر راکھی بندھوائی اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی ۔ ظاہر ہے کہ اس نے یہ اچھا سمجھ کر ہی کیا ہے اس لیے وہ اس سے توبہ کرے ، بے زاری کا اظہار کرے اور کلمہ پڑھ کر داخل اسلام ہو ، شادی ہوچکی ہو تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرے ۔

 رواداری الگ چیز ہے اور ان کے مذہبی امور میں شرکت اور عمل در آمد الگ چیز۔

*قرآن حکیم میں ہے:*

لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ 

 مفتی نظام الدین رضوی (صدر شعبہ افتا وشیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور) 

یہی نظریہ اہل سنت کے کئی دگر مفیان کرام کا بھی ہے فقیر اشرفی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ 

*اور بعض مفتیان کرام کہتے ہیں کہ راکھی باندھنا یہ ہندووں کا مذہبی تہوار نہیں بلکہ ایک قومی تہوار ہے*۔ پس جس نے اس کو قومی تہوار مانا ہے ان کے نزدیک راکھی باندھنا کفر نہیں بلکہ ناجائز و حرام اور باعث قہرِ قہار اور مُفضِی الی عذاب نار ہے ۔ لہذا ایسی صورت میں راکھی باندھنے یا بندھوانے  والے پر حکم شرع یہ ہے کہ وہ سچے دل سے توبہ و استغفار کرے اور اس گناہ کو آئندہ نہ کرنے عزم مصصم کرے ۔ اور یہ نظریہ شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ودگر مفتیان اھل سنت کا ہے جیساکہ مفتی صاحب اپنی فتاوی شارح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں کہ 

"جن مسلمان عورتوں نے ہندؤوں کو یہ ڈورا باندھا یا جن مسلمان مردوں نے ہندو عورتوں سے یہ ڈورا بندھوایا فاسق و فاجر گنہگار مستحق عذاب نار ہوئے لیکن کافر نہ ہوئے اس لیے کہ یہ راکھی بندھن پوجا نہیں ان کا قومی تہوار ہے اور ان کا یہ قومی شعار ہے مذہبی شعار نہیں

 کسی بھی کافر کے قومی شعار کو اختیار کرنا حرام وگناہ ہے جیسے ہولی کھیلنا۔

ہاں ! کسی کافر کے مذہبی شعار کو اختیار کرنا ضرور کفر ہے مذہبی شعار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز ان کے مذہب میں عبادت ہو یا وہ چیز ان کے مذہب کی علامت ہو جیسے چوٹی رکھنا   زنار  باندھنا اور راکھی باندھنا نہ تو ان کے مذہب  میں عبادت ہے اور نہ ہی ان کے مذہب کی رو سے ان کی مذہبی علامت یہ ایک وقتی رسم ہے " اھ ( فتاوی شارح بخاری : کتاب العقائد باب الفاظ الکفر ج 2 ص 566 )

*اور ہاں ! مجھ فقیر اشرفی کی ناقص تحقیق بھی یہی ہے کہ* اپنی رضا مندی سے بلا کسی جبر و تششد د کے راکھی باندھنا فقط حرام و ناجائز ہی نہیں بلکہ کفر ہے جس کہ وجہ یہ ہے کہ

راکھی باندھنا ایک طرح کا مواخات ، دوستی اور رشتہ داری ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اور حضورﷺ نے احادیث میں غیر مسلموں سے (بے وجہ شرعی) تعلقات قائم کرنے اور دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے *کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید*

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ-یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْؕ-اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ ﳓ تُسِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﳓ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَ مَاۤ اَعْلَنْتُمْؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ۔ 

ترجمہ: کنزالایمان

اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا گھر سے جدا کرتے ہیں رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو تم انہیں خفیہ پیام محبّت کا بھیجتے ہو اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو اور تم میں جو ایسا کرے وہ بےشک وہ سیدھی راہ سے بہکا۔ 

*ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:* 

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ۔ 

ترجمہ: کنزالعرفان

مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

قران کریم کی یہ آیات واضح طور پر بتلا رہی ہیں کہ کفار سے دوستی محبت دلی تعلقات بلاوجہ شرعی جائز نہیں ہے اور جو اس کے بر خلاف کرے گا وہ نقصان میں رہے گا اور ایسے آدمی کے ساتھ اللہ کی مدد اور رحمت نہیں ہوتی ۔

*نیز حدیث پاک میں آتا ہے:*

"من تشبہ بقوم فھو منھم"۔

 جو شخص جس قوم کے ساتھ(بلا کسی مجبوری کے) مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھیں میں سے ہوجاتا ہے۔ 

*اور فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ:*

کہ بلا کسی مجبوری و حاجت کے مجوسیوں کی ٹوپی بھی  سر پہ رکھنا کفر ہے جیساکہ

*فتاوی عالمگیری ، جلد دوم ، کتاب السیر ، باب موجبات الکفر ، ص: ٢٨٦ / میں ہے:*

"یکفر بوضع قلنسوة المجوس علی رأسہ علی الصحیح إلاّ لضرورة دفع الحر والبرد وبشدّ الزنار في وسطہ إلا إذا فعل ذلک خدیعة في الحرب وطلیعة للمسلمن الخ"۔ 

*شرح الفقہ الاکبر ، فصل في الکفر صریحا وکنایة ، ص: ٢٢٧، ٢٢٨ / میں لکھا ہے:*

 "ولو شبہ نفسہ بالیھود والنصاریٰ أی صورۃ أو ، سیرۃ علی طریق المزاح والھزل أي : ولو علی ھذا المنوال کفر"۔ 

*اور بہت سے لوگ خاص کر سیاسی حضرات یہ سوچتے ہیں* کہ ایسا نہ کرنے سے ان کے دل ٹوٹ جائیں گے ہمیں ان کے ساتھ رہنا ہے ان کو برا لگے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر مسلم کو خوش کرنے کے لیے اتنا مت گر جاؤ کہ آپ کا خدا آپ کا خالق و مالک آپ سے ناراض ہو جائے ، اب اتنا ہی ان کے ساتھ تعلقات رکھیں  جتنے کی اجازت آپ کو آپ کے دین نے آپ کی شریعت نے آپ کو دی ہے اس سے تجاوز کریں گے تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔

یہ واضح ہے کہ کسی غیر مسلم کو خوش کرنے کے لیے یا اس کا دل رکھنے کے لیے گناہ کا ارتکاب کرنا اللہ کی ناراضگی مول لینا یہ ہرگز جائز نہیں ورنہ ایسے تو بہت سارے حرام کام کرنے پڑ جائیں گے ، کچھ ماں باپ کی محبت میں ، کچھ بیوی بچوں کی محبت میں ، کچھ دوست و  احباب کی محبت میں ، کچھ معاشرے کی وجہ سے وغیرہ وغیرہ اس لیے گناہ کے کاموں میں شرکت یا معاونت قطعا جائز نہیں ہے چاہے کسی کا دل ٹوٹے یا رہے ۔

*حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے:*

لاطاعة لمخلوق  فی معصیة الخالق"۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی  اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔

ہاں جس علاقے میں اکثریت غیر مسلموں کی ہو اور مسلمان کے لیے اس طرح کی رسومات میں شرکت نہ کرنے پر جان یا مال کا شدید نقصان پہنچنے کا یقین  کامل ہو تو ایسی جگہ میں بقدر ضرورت اس کی گنجائش ہے۔

 پس اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس کے کفر کا فتوی تو نہیں دیا جائے گا، لیکن یہ رسم چوں کہ کفریہ ہے اس لیے اس صورت میں بھی خیال رہے کہ یہ عمل  دل سے نہ ہو اور بعد میں بطور احتیاط توبہ و تجدید نکاح ضرور کریں ۔

*فتاوی عالمگیری ، جلد دوم ، ص:  ٢٨٣/  میں ہے:*

وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔

 اسی طرح بعض ملک اور مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں ہر مذھب کے لوگ رہتے ہوں تو وہاں کوئی لڑکی کسی مسلمان کو اپنا بھائی تصور کرتی ہو تو اور وہ اس کو راکھی باندھنا چاہتی ہو اور ایسی صورت میں اس کے انکار سے معاملات بگڑنے حالات خراب ہونے اور دلوں میں بُرائی پیدا ہونے اور آپس میں مذھبی منافرت پھیلنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں آخری حد تک اس سے بچنے کی کوشش کریں اور اگر بچ نہ سکیں تو اس کو ہاتھ میں لے کر اس کو بعد میں کہیں ڈالدیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر ہاتھ میں لے سکا اور بندھوا لیا تو پھر بعد میں ضرور توبہ و استغفار کرے کہ وہ غفور الرحیم ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ 

*لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا" 

*حاصل جواب یہ ہے کہ* راکھی خالص ایک ہندوانہ مذہبی رسم ہے اس بچنا لازم و ضروری ہے ورنہ برضا و رغبت راکھی باندھنا یا بندھوانا فقط حرام ہی نہیں بلکہ کفر ہے جیساکہ سطور بالا میں ہم نے واضح کردیا ہے پس جن مسلمانوں نے غیر مسلم عورتوں سے راکھی بندھوایا ہے یا خود باندھا ہے اور ایسا اس نے پسندیدگی کے ساتھ کیا ہے تو وہ سخت گناہ کے مرتکب ہوکر خارج از اسلام ہوئے لہٰذا ان پر ضروری ہے کہ اس غیرشرعی فعل پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ سچی پکی توبہ و استغفار کریں، بعدہ داخل اسلام ہو اور شادی شدہ اور کسی پیر سے مرید ہو ہو تو تجدید نکاح و بیعت بھی کریں اور آئندہ ایسی چیزوں سے قطعاً دور رہیں۔

*بلاشبہ مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ایک بہترین عمل اور کارِ ثواب ہے*، لیکن اس میں بھی شرعی حدود و قیود کی پاسداری انتہائی ضروری ہے، ورنہ نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔

فقط واللہ رسولہ اعلم

کتبہ 

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد واگرہ بھروچ گجرات 

١٣/  صفر المظفر ١۴۴۵ 

٣١/  اگست ٢٠٢٣ بروز جمعرات

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے