Header New Widget

حضرت مخدوم سید اشرف سمنانی اور لطائف اشرفی

-حضرت مخدوم سید اشرف سمنانی اور لطائف اشرفی



اشرف نامہ

محسن رضا ضیائی

حضرت سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ کا شمار اپنے وقت کے ان ممتاز صوفیا اور اولیائے کرام میں ہوتا ہے،جنہوں نے اپنی فکری ، روحانی اور صوفیانہ تعلیمات سے اسلام و سنّیت کو بے پناہ فروغ دیا اور کفر و شرک میں مبتلا افراد کو تصوف و روحانیت کے ذریعہ جادۂ حق پر گامزن کیا۔آپ اپنے عہد کے ایک متبحرعالم ، مثالی صوفی ، درویش کامل اور ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ آپ ایک شاہانہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خود خراسان کے شہر سمنان کے حکمراں تھے ، لیکن دنیاوی تخت و تاج کو ٹھوکر مار کر درویشانہ اورفقیرانہ زندگی اختیار فرمائی اور تا عمر اسلام و سنّیت کی نشر و اشاعت اور قوم و ملت کی گراں بہاخدمات کا اہم فریضہ سر انجام دیتے رہے۔آپ کی حیاتِ مبارکہ کے روشن و تابناک پہلووں سے ظاہر ہے کہ آپ نے علم و تحقیق ، وعظ و نصیحت اور تصوف و طریقت کے میدانوں میں ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں،جس سے آپ کی ہمہ جہت اور بلند قامت شخصیت کا خوب سے خوب تراندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

 تصوف و روحانیت سے آپ کاگہرا ربط و تعلق تھا، اسی لیے آپ کی شخصیت پرجمالیاتِ تصوف کا پورا رنگ نمایاں اور غالب تھا،یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف جہاں تاریخ تصوف کا ایک عظیم شاہ کار ہیں، وہیں متصوفانہ رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، خاص طور سے لطائف اشرفی جس میں تصوف کے تمام اسرار و رموز، احوال و ظروف اور حقائق و معارف کا گراں مایہ خزینہ موجود ہے۔یہ تصوف کا ایک ایسابحرِذخّار ہے، جس کے ہر کنارے سے فیض و روحانیت کا منبع و سرچشمہ جاری ہے، جس سے ایک جہاںسیراب ہو رہاہے۔آئیے اسی خزینۂ علم و معارف’’ لطائف اشرفی‘‘ کا قدرے جائزہ لینے کی سعی و کوشش کرتے ہیں۔

لطائفِ اشرفی نہایت ہی علمی ،تحقیقی اور مستندکتاب ہے،جو آپ کے حالاتِ زندگی،ملفوظات و ارشادات اور وقیع تعلیمات کا ایک عطر بیزمجموعہ ہے، جسے آپ کے مرید و خلیفہ حضرت نظام الدین یمنی المعروف نظام حاجی غریب یمنی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب کیا،جو تیس سال تک آپ کی خدمتِ بابرکت میں رہے اور آپ کے سنہری اقوال و ارشادات کو جمع و ترتیب دینے کے بعدآپ کی خدمت اقدس میں پیش کیا، جس کی آپ نے اصلاح و تصحیح فرمائی، بعد ازاں یہ مستقل طور پر کتابی شکل میں منصۂ شہود پر جلوہ بار ہوئی۔ یہ کتاب دو بار طبع ہوچکی ہے، پہلی بارمجددِ سلسلۂ اشرفیہ اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ نے ۱۲۹۵ھ میں مطبع نصرت المطابع دہلی سے طبع فرمایااور دوسری بار ۱۲۹۸ھ میں دو جلد اسی مطبع سے شائع ہوئی ہے۔

 یہ فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے قدرے مشکل تھی، جس سے ہر کہ و مہ کا استفادہ کرنا ممکن نہیں تھا، لہذااردو زبان کی افادیت کے پیشِ نظر اس کا اردو ترجمہ کئی ایک مترجمین کی محنتوں اور کوششوں سے منظر عام پر آچکا ہے۔اردو میں یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے،اس میں ایک مقدّمہ اور ساٹھ لطائف ہیں، جن میں سے ہر لطیفہ تصوف و طریقت، علوم و حکمت اور حیرت انگیز معلومات کے لحاظ سے اپنی ایک خصوصیت و معنویت رکھتا ہے۔ آپ نے مختلف عنوانات اور بیش بہا موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے اور جہاں عقائد و اعمال کو سنوارنے پر زور دیا ہے وہیں تصوف کے سالکین و طالبین کو تزکیہ و تربیت کی ترغیب و تشویق بھی دلائی ہے۔اس کے علاوہ قرآن و احادیث ، صحابہ و تابعین، ائمہ و سلف صالحین کے اقوال و ارشادات اور واقعات و حکایات کو بڑی اثر آفرینی اور خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے، مزید تصوف و طریقت کے روحانی اقدار اوراس کی بیش قیمتی اصطلاحات کو بھی نہایت ہی نزاکت و باریکی اور لطافت و عمدگی کے ساتھ جس طرح ذکر کیا ہے، وہ قاری کے ذہن و دماغ پراپنے انمٹ اورگہرے نقوش چھوڑتی ہیں۔

اس کتاب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے لطائف اشرفی کے دیباچہ سے ڈاکٹر خضر نوشاہی صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں، آپ لکھتے ہیں:

اس میں کہیں تصوف کی اصطلاحات ہیں ، کہیں ذکر و فکر کی تفصیلات ہیں، کہیں صوفیانہ غوامض پر مباحث ہیں، کہیں صوفیائے کرام کے مختلف خانوادوں کی مختصر تاریخ، کہیں نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم، آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین،ائمۂ کباراور صوفیاکے حالات ہیں اور کہیں صوفی شعرا پر دل چسپ تبصرہ ہے۔ غرض اسے تصوف کی ایک قاموس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ اس عہد کی علمی، دینی اور عرفانی تاریخ بھی ہے اور بزرگانِ دین کا تذکرہ بھی، بہر حال اپنے موضوع کی منفرد اور لا جواب کتاب ہے۔(لطائف اشرفی، دیباچہ،ص:۱۰،از:ڈاکٹر خضر نوشاہی)

یقیناً یہ تصوف و طریقت، علوم و حکمت، زبان و ادب، تاریخ و تہذیب اور احکام و مسائل پر ایک شاندار اور بے مثال و بے نظیر کتاب ہے۔ جو جتنا ہی اس کوگہرائی و گیرائی اور دقیق نظری سے مطالعہ کرے گا، وہ اس کے لیے اتنی ہی بحرِ بے کراں ثابت ہوگی۔ اب آئیے یہاں کتاب کے کچھ لطائف کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

 اس کتاب کے حصۂ اول میں سب سے پہلے’’علم اور کتبِ صوفیا کے دیکھنے اور کلماتِ مشائخ کے سننے کے فوائد اور اس کے شرائط و آداب ‘‘کے ایک اہم عنوان پر ایک طویل مقدّمہ ہے، جو نہایت ہی علمی، تحقیقی اور جامع و مستند ہے، جو اپنے جلومیں بہت سارے علمی جواہر لیے ہوئے ہے۔اس کے بعد کل ۲۱؍ لطائف ہیں،جن کے عنوانات درج ذیل ہیں:

(۱)توحید اور اس کے مراتب(۲)ولی کی ولایت پہنچاننا اور اس کے اقسام(۳)معرفت عارف ومعترف و جاہل(۴)صوفی و متصوف وملامتی و فقیر(۵)معجزہ و کرامت اور استدراج میں فرق،اور کرامت کے دلائل اور معراج شریف کا تذکرہ(۶)شیخ ہونے کی اہلیت،اقتدا کی شرائط، مرشد و مرید کے آداب(۷)اصطلاحاتِ تصوف (۸)حقیقت معرف راہِ سلوک(۹)شرائط تلقین اذکارِ مختلفہ (۱۰) تفکر و مراقبہ(۱۱)مشاہدہ و وصول در رؤیتِ صوفیہ و مومنان و یقین (۱۲) صوف وخرقہ وغیرہ سے لباسِ مشائخ کے اقسام(۱۳)حلق و قصر(۱۴)مشائخ کے خانوادوں کی ابتدا (۱۵) سلسلۂ حضرت قدوۃ الکبراء (۱۶)مشائخ کرام کے کلمات شطحیات کے معانی(۱۷)آدابِ صحبت و زیارت مشائخ وقبوروجبین سائی (۱۸) معانی زلف و خال وامثال آن(۱۹)دربیان معانی ابیات متفرقہ(۲۰)سماع و استماعِ مزامیر۔

اسی طرح حصۂ دوم میں کل ۱۸؍ لطائف ہیں،جو حسبِ ذیل ہیں:

(۲۱)اختیار، قضا و قدر،خیر و شر اور صوفیا کے بعض عقائد سے متعلق مسئلے کی تفصیل(۲۲)بادشاہت کو ترک کرنے اور تختِ سلطنت کو ٹھکرانے کے بیان میں(۲۳)مقامِ اشرفی کے تعین اور مراتبِ عالی کا بیان(۲۴)امیروں، بادشاہوں، مسکینوں اور محتاجوں سے ملاقات اور سیف خاں کے اوصاف کا بیان(۲۵)ایمان اور صانع کے اثبات (۲۶)اربابِ علم و استدلال اور اصحابِ کشف و مشاہدہ (۲۷)وحدتِ وجود کی دلیلوں اور مرتبۂ شہود کی وضاحتوں کے بیان میں(۲۸)توبہ کے بیان میں(۲۹)نماز کی معرف کے بیان میں(۳۰)روزے کی معرفت کا بیان (۳۱)زکات کا بیان(۳۲)حج و جہاد کا بیان(۳۳)امت کے فرقوں کی خصوصیات(۳۴)سفر کے فائدہ اور شرطوں کا بیان(۳۵)دنیا کے ان عجیب و غریب آثار کے بیان مین جو سیّد اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ نے ملاحظہ فرمائے(۳۶)بزرگوں کے طعام اور ضیافت کا طریقہ(۳۷)اعتکاف کی شرائط(۳۸)صبح و شام کے وظائف۔

   حصۂ سوم میں باقی مزید ۲۲؍ لطائف ہیں:

   (۳۹)عشق اور اس کے درجات کا بیان(۴۰)پرہیز گاری،دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کا بیان(۴۱)توکّل ، تسلیم و رضا اور روزی کمانے کے بیان میں(۴۲)خواب کی تعبیر کا بیان(۴۳)بخل ، سخاوت، رزق اور ذخیرہ کرنے کے بیان میں(۴۴)ریاضت و مجاہدے کا بیان اور سعادت و شقاوت کی وضاحت(۴۵)رسم و رواج، خوش گوار مزاج اور معاملات کا بیان(۴۶)حسنِ اخلاق، غصہ، شفقت اور معاملات سے متعلق وعظ و نصیحت(۴۷)مومن و مسلم کے بیان میں (۴۸)نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی تفصیل(۴۹)امامت کی معرفت ، توالّا اور تبرّا کی وضاحت اور ترکِ تعلقات نیز تعلّقات اور موانع کا بیان(۵۰)نفس، روح اور قلب کی معرفت کا بیان(۵۱)طبل و علم اور زنبیل پھروانے والے کا بیان(۵۲)نبی ﷺ کے مبارک نسب اور کسی قدر پاک سیرت کا بیان (۵۳)خلفائے راشدین، بعض صحابہ اور تابعین نیز بارہ امام کے ذکر میں(۵۴)ان بعض شعرا کا ذکر جو صوفیا اور طائفہ عالیہ کے مشرب کا ذوق رکھتے تھے(۵۵) چند کرامات کا بیان(۵۶)زبدۃ لآفاق (۵۷) اودھ کے علاقے (۵۸)بعض دعاؤں اور اسمائے اعظم کی تشریح(۵۹)حضرت قدوۃ الکبراء کی رحلت کے ایام میں فیض و فضلِ اِلٰہی کا نزول(۶۰)حضرت قدوۃ الکبراء کے بعض کلماتِ اشفاق ۔

 قارئینِ کرام مذکورہ بالا لطائف کے عنوانات سے ان کی اہمیت و افادیت کا بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔کیوں کہ ان لطائف میں علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ان میں سے ہر لطیفہ اپنے اندر عشق و عرفان اور علم تصوف و طریقت کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ نے بعض لطائف کے تحت کئی ایک علمی عنوانات قائم کرکے ان میں اسلامی تاریخ کے سنہری واقعات، صحابہ و تابعین، اولیائے کرام کے احوال و آثاراور بے شمار فقہی مسائل و احکام کو دل نشیں انداز و اسلوب اورعمدہ پیرایۂ بیان میں ذکر کرکے ایک شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔گرچہ یہ تصوف پر ایک مستقل کتاب ہے، لیکن اس میں فقہ و حدیث،حکمت و فلسفہ،تاریخ و ادب، عقائدو نظریات اور اعمال و اورادکے مسائل و مباحث پرعالمانہ اورمحققانہ گفتگو فرمائی ہے، جن کے مطالعہ سے کچھ یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ نے ان تمام علوم کے دریا کو ایک کوزے میں بند کردیا ہے،اسی لیے تو پڑھنے کے بعد ایک طرح کا کیف و سرور ملتا ہے ۔

یہاں ہم کتابِ مذکورہ کی چند خصوصیات کو بیان کررہے ہیں،جس سے کتاب کی اہمیت قارئین کے دلوں میںاور بھی زیادہ روزِ روشن کی طرح ظاہر وعیاں ہوجائے گی۔              

چناں چہ آپ مذکورہ کتاب کے حصۂ سوم میں لطیفہ نمبر ()کے تحت پرہیز گاری اور تقویٰ و بے رغبتی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

 اپنے اس لطیفے میں حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ نے دنیا کی صلاح و فلاح کا راستہ ارشاد فرمایا اور اہل دنیا کو دنیاسے بے رغبتی و بے زاری پر زور دیا ہے۔

  فقر کو اپنانے والا دنیاوی سازوسامان اور وسائل و ذرائع کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوتا ہے۔ فقر صوفی کے اندر ایک امتیازی وصف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک صوفی و درویش میں یہ فقر تمام اعمال و احوال اور مقامات میں اس کی ذات سے سلبِ نسبت بن جاتا ہے اور پھر کسی چیز پر اس کا تملک باقی نہیں رہتا ۔

 حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ نے نہایت ہی سادہ، درویشانہ اور فقیرانہ زندگی گزاری اور خانقاہ میں بیٹھ کر لوگوں کے ظاہری و باطنی مسائل و معاملات کو حل کرتے رہے۔اس کے علاوہ فقیروں، محتاجوں، یتیموں اور تمام لوگوں کے حقوق و فرائض کا یکسر طور پر خیال رکھا کرتے تھے۔ اگر کوئی تہی دامن آپ کی خدمتِ با برکت میں چلا آتا تو وہ آپ کی بارگاہِ کرم نوازی سے اپنے دامن کو گوہرِ مراد سے بھر کر واپس لوٹتا۔ کوئی کیسا بھی حاجت مند آپ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوجاتا ، آپ اس کی تمام تر ضرورتوں کو پورا فرمادیا کرتے تھے۔ جب آپ با حیات تھے تو سائلین کی تمام تر حاجتیں اور ضرورتیں پوری فرمایا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام و انصرام فرمایا کرتے تھے۔ اور جب دنیا سے چلے گئے تو بھی قبرِ انور سے سائلین کی منہ مانگی مرادوں کو پورا کررہے ہیں۔آج بھی آپ کا آستانۂ عالیہ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی کے لیے کھلا ہوا ہے، جہاں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں اور اپنی آرزوئیں و تمنائیں بر لاتے ہیں۔یوپی کے معروف علاقہ کچھوچھہ شریف میں آپ کا مزارِ پْر انوار مرجعِ خلائقِ خاص و عام ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے