Header New Widget

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

 *وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی*


اس کائنات رنگ و بو میں چند انقلابی ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی موت ایک عالم کی موت اور جن کی وفات ایک انجمن کی وفات کے مترادف ہوتی ہے ۔ ہمارے علمی و ادبی سیمیناروں کا ایک ایسا ہی بے باک محقق و مدقق،  فقہی اور فکری مجلسوں کا ایک ایسا ہی آفتاب جہاں تاب ، فقیہ عصر ، محقق بے بدل ، مرکزی درس گاہ جامع اشرف (کچھوچھہ مقدسہ) کے سابق شیخ الحدیث و صدر مفتی حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی شکل میں راہی ملک عدم ہو گیا۔إنا لله و إنا إليه رجعون.

حضرت مفتی صاحب قبلہ کی ذات رازی و غزالی کے علوم و فنون کی امین اور اساطین ملت و سادات امت کے فیوض و برکات سے بہرہ ور تھی۔

اللہ رب العزت نے آپ کو زبردست قوت حافظہ ، بے مثال فہم و فراست اور  عظیم الشان تفقہ فی الدین کا لازوال خزانہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کی دینی خدمات کا دائرہ تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے، اور آپ کے ہزاروں لائق و فائق تلامذہ ملک و بیرونِ ملک دین و سنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ الغرض۔۔۔

*خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مفتی صاحب میں*

یوں تو ہر کسی کی وفات باعث رنج ہوتی ہے لیکن علم و فن کی خیرات لٹانے والے امیر کشور فقہ و افتا کا سینکڑوں حاجت مندان علم و فضل کو تشنہ چھوڑ کر اچانک دار فانی سے ہجرت کر جانا کچھ زیادہ ہی الم ناک ہوتا ہے۔۔۔ ہاں یہ یقین پس ماندگان کے ٹوٹے دلوں کو ضرور سہارا دیتا ہے کہ


*سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں*

(دیوانِ سالک، ص: 22)


دست بدعا ہوں کہ رب قدیر حضرت مفتی صاحب قبلہ کو غریق رحمت فرمائے ، آپ کی خدمات دینیہ قبول فرما کر جنت الفردوس میں آپ کو جگہ عنایت فرمائے اور جماعت اہل سنت کو آپ کا بدل عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔


شرکاے غم:

جملہ اراکینِ جامعہ علی حسن و اساتذۂ جامعہ ہٰذا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے