سید علی ہجویری رحمتہ الله علیہ: سیرت و سوانح
_______________ 980/واں عرس پر تحریر __________________
_______________________________افتخاراحمدقادری برکاتی
الله رب العزت نے اس زمین پر انسانوں کے متلاطم سمندر اور خواہشات و مکروہات کے بھنور میں پھنسی کشتیوں کو کنارے لگانے کے لیے اہل ہمت کا ایک طائفہ مشیت ایزدی کے اشارے کا منتظر پھرتا ہے- اسباب وعلل کے اس جہان بو قلموں میں اولیاء کرام رحمتہ الله علیہ اس کے حواسِ خمسہ ہیں- جنکے ذریعے وہ دیکھتا ہے، سنتا ہے اور پکڑتا ہے- اس کے یہ چاہنے والے اپنی چاہتوں کو مٹا کر صرف اسے چاہتے ہیں اور وہ ان کو بطورِ انعام حسن کا نمائندہ مقرر کر دیتا ہے- یہی وہ بوریا نشیانان ہیں جن کے در پر شہنشاہ گداگر بنے پھرتے ہیں- عوام وخواص گلہائے مراد سے جھولیاں بھرتے ہیں- یہ گل توحیدی کی مہک میں چمنستانِ دہر کی پرورش کو مہکا دیتے ہیں، روتوں کو ہنسانا اور ہنستوں کو ابدی مسرتوں سے مالا مال کرنے کی سعادت انہیں کو نصیب ہے- نہ جانے کتنی بار ان کی آفاقی رنگا رنگیوں سے ظاہر بینوں کی بے نور آنکھیں ٹکرائیں، نہ جانے کتنی بار ان کے برق دانوں پر دنیا پرستوں نے اپنے گناہوں کی کالک تھوپنے کی کوشش کی، مگر ان نفوسِ قدسیہ کے تقدس کو مکدر نہ کر سکے- ان عروس حقیقت کے نوشوں کے سہرے نوچنے کی بار بار جسارت کی گئی، مگر یہ رخصتی سے پہلے اور رخصتی کے بعد بھی دولہا بنے خلق کی بارات میں عقیدتوں کے نذرانے وصول کرتے رہے اور کرتے رہیں گے- ایسی بلند وبالا ہستیاں ایسے بلند مراتب کیوں نہ پائیں؟ خالق ارض و سما نے مکان دنیا میں فروکش اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے نام مکتوب ضابطہ کائنات ارسال فرمایا- اس میں جابجا اپنے محبوب دوستوں کے نام سلام و پیام رقم فرمائے- رسوخ علم کی تاج پوشی انہی کو عطا فرمائی اور انہیں اپنے راز کا محرم اور ناز کا حریم بنایا- ان کے دلوں کو اپنے خرام حسن کی گزر گاہ بنایا- ایسے صاحب دل انسانوں میں سے ایک ہستی حضرت سید علی ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ الله علیہ کی ہے_________
حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ حسنی سید تھے- آپ کا پورا نام مبارک سید ابو الحسن علی بن عثمان جلابی ہجویری ہے- جلاب اور ہجویر غزنی شہر کی دو بستیوں کے نام ہیں- شہر جلاب میں آپ رحمتہ الله علیہ کے والدِ ماجد حضرت سید عثمان رحمۃ الله علیہ رہتے تھے اور ہجویر میں آپ رحمتہ الله علیہ کے ننھیال رہتے تھے- حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کی پیدائش بھی یہیں ہوئی اور زندگی کا ابتدائی حصہ بھی ہجویر ہی میں گزرا- حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کا شجرہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت سیدنا امام حسن رضی الله عنہ تک پہنچتا ہے اور روحانی سلسلہ دس واسطوں سے سید الاولیاء حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم سے جا ملتا ہے- آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے:
،، سید علی بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبد الرحمٰن بن سید عبد الله شاہ شجاع بن سید ابو الحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زید شہید رضی الله عنہم بن سید امام حسن رضی الله عنہ بن سید حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم ،،
(چشمہ فیض داتا گنج بخش، صفحہ: 55)
حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کی ولادتِ باسعادت پاک 400/ھ سلطان محمود غزنوی رحمۃ الله علیہ کے عہد میں مقام غزنی میں ہوئی- آپ کی تعلیم و تربیت میں خاندانی روایت کی بنا پر آپ کے والدِ گرامی نے کافی زیادہ دلچسپی لی- آپ کی تعلیم کی ابتداء تقریباً چال سال چار ماہ کی عمر میں ہوئی- ابتدائی درجہ کے علومِ دینیہ کی تحصیل کے بعد آپ نے خرغانہ، ماورالنہر، خراسان، مرو اور آذربائجان وغیرہ بلادِ اسلامیہ کا رخ کیا- آپ جہاں جہاں گئے وہاں کے اربابِ کمال سے علمی استفادہ کیا- غزنی شہر کے اساتذہ کے علاوہ جن مشہور ومعروف علماء کرام سے آپ نے تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہے:
،، امام ابو العاس احمد اشقانی، شیخ ابو القاسم گورگانی، شیخ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ الله علیہ ،،
آپ نے سلسلہ عالیہ جنیدیہ کی عظیم المرتبت ہستی قطب وقت حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ الله علیہ کے روحانی کمالات کے چرچے سنے تو آتش شوق کے شعلے بھڑک اٹھے- آپ نے اول فرصت میں اس شیخ کامل کی زیارت کا شرف حاصل کیا- حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمتہ الله علیہ کی نظر کیمیا اثر حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ پر پڑی تو جگر تک اتر گئی- حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کو ایک قابل مرید ملا اور حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کو ایک کامل مرشد، دونوں حضرات کی دلی مراد پوری ہو گئی- پیری مریدی کا رشتہ بیعت کے بعد اتنا استوار ہو گیا کہ پیر اور مرید دونوں سفر و حضر میں ساتھ رہنے لگے- ان ایام میں حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ نے اپنی باطنی رہنمائی کی ذات سے اتنا فیض حاصل کیا کہ آپ کا سینہ انوار کا گنجینہ اور آپ کا دل اسرار کا خزانہ بن گیا- آپ کا شجرہ طریقت سُلطان ولایت حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم تک اس طرح منتہی ہوتا ہے:
،، حضرت سید علی ہجویری مرید شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کے، وہ مرید حضرت شیخ حصری کے، وہ مرید حضرت شیخ ابو ابکر شبلی کے، وہ مرید حضرت سیدنا جنید بغدادی کے، وہ مرید حضرت شیخ سری سقطی کے، وہ مرید حضرت معروف کرخی کے، وہ مرید حضرت داؤد طائی کے، وہ مرید حضرت حبیب عجمی کے، وہ مرید حضرت حسن بصری کے اور وہ مرید حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے ،،
حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ حنفی المذہب تھے- آپ کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے خاص عقیدت تھی- آپ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کو امام اماماں، مقتدائے سنیاں، شرف فقہا، علماء کے معزز و محترم خطابات سے یاد کیا ہے- آپ صرف صوفئی باصفا ہی نہیں تھے بلکہ الله رب العزت نے آپ کو ظاہری وباطنی علوم سے بھی نوازا تھا- آپ نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سنت نکاح پر بھی عمل کیا- مگر آپ کی اہلیہ محترمہ کی زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی اور چند سالوں کے بعد آپ کا وصال ہوگیا- آپ نے پہلی شادی نوجوانی کی حالت میں کی- پھر گیارہ سال کے بعد والدین کے اسرار پر آپ کی دوسری شادی ہوئی لیکن الله رب العزت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے یہ رشتہ بھی دیر پا ثابت نہ ہو سکا- کتنی خوش نصیب بیویاں تھیں جنہیں الله رب العزت نے ایک شیخ کامل کی محبت سے نوازا اور پھر اس کی موجودگی میں انہیں دنیا کے خرخشوں سے نجات عطا فرمائی-
(چشمہ فیض داتا گنج بخش، صفحہ: 35)
حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کی سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے لاہور آمد سے قبل کئی اسلامی ممالک کی سیر کی مثلاً: شام، ماور النہر، بغداد، پارس، آذربائجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ترکستان وغیرہ ممالک کی سیاحت آپ رحمتہ الله علیہ کی کتاب زندگی کا وہ ورق ہے جسے ہم ریاضت ومجاہدہ کی ایک طویل داستان سے تعبیر کر سکتے ہیں- آپ رحمتہ الله تعالیٰ نے اس سیاحت میں الله رب العزت کے آثار کا مشاہدہ بھی کیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اولیاء عظام اور صوفیاء کرام کی روح پرور صحبتوں سے بھی مستفیض ہوئے- صرف خراسان میں ہی آپ رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی ملاقات تین سو مشائخِ کرام سے ہوئی- سفر کے دوران آپ رحمتہ الله علیہ کو عجیب وغریب واقعات بھی پیش آتے رہے- ملک عراق میں آپ کو اس بات کا مشاہدہ ہوا کہ عوام کی ضرورتیں رفع کرنے میں اتنی مشغولیت نہیں ہونی چاہیے، ہوائے نفس کی پیروی کے سوا کچھ نہیں- جس شخص کی قلبی حالت بہتر ہے ایسے شخص کی خاطر مشغولیت کوئی عجیب نہیں- جب الله رب العزت خود ہی اپنے بندوں کے لیے کافی ہے تو ان کے لیے دوسروں کو پریشانی مول لینے کی کیا ضرورت؟ آپ نے سیکڑوں علماء کرام سے اکتسابِ فیض کیا- آپ نے اپنے عہد کے تمام بلادِ اسلامیہ کا سفر کیا اور ہر علمی دانش گاہ سے سیراب ہوئے- آپ چالیس سال سفر میں رہے مگر ایک بھی نماز اور جمعہ کبھی قضا نہ ہوئی-
(چشمہ فیض داتا گنج بخش، صفحہ:21)
آپ کی تصنیفات کی تعداد دس ہے- لیکن 09/ تصانیف تو ناپید ہو گئی مگر ایک تصنیف ،، کشف المحجوب ،، باقی رہ گئی- جو بین الاقوامی شہرت یافتہ علماء کرام اور صوفیاء کرام میں بھی مستند ومعتبر مانی جاتی ہے- آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں: وجدان (فارسی دیوان) منہاج الدین، کتاب الفنا و البقا، اسرار الحزق، کتاب البیان اہل العیان، بحر القلوب، ایمان، الرعایتہ لحقوق، شرحِ کلام منصور حلاج، کشف المحجوب، حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ کی مشہور ومعروف تصنیف ،، کشف المحجوب ،، کا ورق ورق اس پر شاہد ہے کہ آپ الله رب العزت اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن وہ مسافر تھے جن کے فکر وعمل اور شریعت وطریقت میں خوشبو رچی بسی تھی- آپ رحمتہ الله علیہ کی زندگی کا لمحہ لمحہ حصولِ علم اور فروغ علم میں گزرا- آپ نے رسم و رواج سے بے نیاز سادہ زندگی بسر فرمائی- یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں شہنشاہوں کی قوت وجبروت وہ کام نہ کر سکی جو اس صوفئی کامل نے کر دکھایا- اپنے اسلامی کردار و عمل سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر کے ان پر اسلام کی مہر ثبت کردی- حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ 431/ھ میں دن ڈھلے پورے ڈیڑھ برس کی مسافت کے بعد دریائے راوی کے کنارے لاہور پہنچے اور شہر کے جنوب مغربی گوشے کا رخ کیا اور ایک بلند ٹیلے پر جہاں اس وقت ایک املی کا درخت تھا- آپ نے قیام فرمایا- آج وہاں پر نہ یہ بلند ٹیلا ہے نہ ہی املی کا درخت البتہ آپ رحمتہ الله علیہ کی اس یاد کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سنگ مرمر کا بڑا سا کٹورا آپ رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی مزار مبارک کے شمال مغرب میں ایک دو گز کے فاصلے پر نصب کر دیا گیا، اس کٹورے میں ٹوٹیاں لگی ہوئی ہیں زائرین اس سے پانی پیتے ہیں- آپ کی کرامات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے لاہور کے معترض باسیوں کو نماز کی حالت میں خانہ کعبہ کی زیارت کرائی- آپ رحمتہ الله علیہ کے دست اقدس پر سب سے پہلے ایمان لانے والی شخصیت پنجاب کے نائب حاکم رائے راجو تھے- جس کا بعد میں آپ نے شیخ ہندی نام رکھا- بالآخر حضرتِ سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ نے زندگی کی تقریباً 65/ بہاریں دیکھنے کے بعد اس فانی دنیا کو خیر باد کہتے ہوئے 465/ھ میں اور بعض کے نزدیک 481/ھ تا 500/ھ کے درمیان وصال فرمایا- آپ کا عرس مبارک ہر سال 18 تا 20 صفر المظفر کو منعقد ہوتا ہے- جس میں دور دور سے لوگ شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اپنے دامنِ مراد کو مالا مال کرتے ہیں-
حضرت سید علی ہجویری کے ملفوظات:
حضرت سید داتا علی ہجویری رحمۃ الله علیہ تصوف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز، عشقِ حقیقی سے سرشار اور فنا فی الله تھے- اس لیے آپ رحمتہ الله علیہ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی، مسلمانوں کی خیر خواہی اور عقائد واعمال کی اصلاح سے متعلق نظر آتے ہیں- آپ رحمتہ الله علیہ کے چند اقوال قارئین ملاحظہ فرمائیں:
حضرت سید علی ہجویری رحمۃ الله علیہ ارشاد فرماتے ہیں: انسان کو تمام علوم کا جاننا ضروری نہیں صرف اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جسے شریعتِ مطہرہ نے ضروری قرار دیا ہے- (کشف المحجوب باب اثبات علم، صفحہ:01) طالب علم کے لیے لازم ہے کہ باعمل بننے کے لیے علم حاصل کرے- ( کشف المحجوب باب اثبات علم صفحہ: 01) طالب حق پر لازم ہے کہ عمل کرتے ہوئے یہ یقین کرے کہ الله رب العزت میرے عمل کو دیکھ رہا ہے جیسا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھنے والا ہے- (کشف المحجوب باب اثبات علم صفحہ: 03) لباس اولیاء کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے والا اپنے لیے آفت مول لیتا ہے- (کشف المحجوب باب بس المرقعات، صفحہ: 54) باطل پر رضا مندی بھی باطل ہے غصہ کی حالت میں حق وصداقت کا چلا جانا بھی باطل ہے اور کامل مومن کبھی بھی باطل اختیار نہیں کرتا- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من اھل البیت، صفحہ: 78) آگ پر قدم رکھنا تو نفس گوارہ کر سکتا ہے لیکن علم پر عمل اس سے کئی گنا دشوار ہے- (کشف المحجوب باب الملامتہ، صفحہ: 60) جسے الله رب العزت پسند فرماتا ہے عوام اسے پسند نہیں کرتی اور جسے اپنا وجود پسند آیا الله رب العزت اسے پسند نہیں کرتا-(کشف المحجوب باب الملامتہ، صفحہ: 81) برے لوگوں کی صحبت میں رہنے والا شرارت نفس کا شکار بن جاتا ہے اگر بندے میں بھلائی اور نیکی ہو تو نیکوں کی صحبت میں رہنا پسند کرے گا- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من التابعین، صفحہ: 92) عمل کی روح اخلاص ہے جس طرح جسم روح کے بغیر محض پتھر ہے اسی طرح اخلاص بغیر عمل کے محض غبار ہے-(کشف المحجوب باب ذکر ائمتہم من تبع تابعین الی یومنا، صفحہ: 95) صرف علم پر قناعت کرنے والا عالم نہیں، عمل کی برکت سے علم فائدہ دیتا ہے لہذا کبھی بھی علم کو عمل سے جدا نہیں کرنا چاہیے- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من التابعین، صفحہ: 101) زندگی یوں گزاریں کہ آپ کو مخلوق سے اور مخلوق کو آپ سے کوئی برائی نہ پہنچے- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من التابعین، صفحہ: 161) جو شخص فقہی معاملات میں محتاط نہ ہو، پرہیزگاری کے بغیر علم فقہ حاصل کرے اور رخصتوں اور کوتاہیوں کے پیچھے لگ کر شبہات میں پڑے، آئمہ کی تقلید چھوڑ کر خود مجتہد بن بیٹھے، تو ایسا شخص جلد ہی فسق میں مبتلا ہو جائے گا در اصل یہ باتیں دل کی غفلت کے سبب پیدا ہوتی ہیں- (کشف المحجوب باب اثبات علم، صفحہ: 17) فقیر وہ ہے کہ جس کا ضمیر نفسانی خواہشات سے محفوظ رہے، نفس کی چالوں سے ہوشیار رہ کر اپنے معبود حقیقی کے فرائض کما حقہ ادا کرے اور اس قدر ہوشیار رہے کہ جو اسرارِ باطنی اس پر منکشف ہو ان کو ظاہر نہ ہونے دے اور کبھی بھی باطنی کیفیات کو زبان پر نہ آنے دے- (کشف المحجوب باب اثبات الفقر، صفحہ: 26) الله رب العزت کے محبوب اور پسندیدہ بندوں کی صحبت دل وجان کے عوض بھی میسر ہو تب بھی سستی ہے کیونکہ ان کا طریق عمل برگزیدہ اور تمام عالم سے علیحدہ ہے ان کی برکت سے انسان مقاصدِ دارین حاصل کرتا ہے- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من التابعین، صفحہ: 92) جب غافلوں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ مصیبت الحمد للہ مال پر ٹل گئی جان و تن اس آفت سے محفوظ رہے- جب کوئی آزمائش الله رب العزت کے پسندیدہ بندوں پر آتی ہے تو وہ یوں کہتے ہیں: الحمد للہ تن پر ٹل گئی دل اس سے محفوظ رہا- (کشف المحجوب باب فی ذکر ائمتہم من التابعین، صفحہ: 93) دینی و دنیاوی تمام امور کی زینت ادب سے ہے اور مخلوقات کو ہر مقام پر ادب کی ضرورت ہے جس میں مروت و ادب نہیں اس میں متابعت سنت نہیں ہو سکتی اور جس میں متابعت سنت نہ ہو وہ رعایت عزت نہیں کر سکتا- (کشف المحجوب باب المشاہدہ، صفحہ: 370) آپ رحمتہ الله علیہ ادب کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ادب کی چند اقسام ہیں- الله رب العزت کے معاملے میں ادب یہ ہے کہ ظاہر وباطن میں اپنے آپ کو بے ادبی سے محفوظ رکھے اور اس طرح رہے جس طرح دربار شاہی میں رہتے ہیں- باہمی کاروباری معاملات میں ادب یہ ہے کہ ہر معاملے میں اپنے حق نفس کی رعایت کرے یعنی حرف سچ بولے اور جو اپنے حق میں خلاف جانے وہ زبان پر نہ لائے، کم کھائے تاکہ قضائے حاجت کی کم ضرورت ہو- اپنے اس عضو کو نہ دیکھے جو غیر کو دیکھنا جائز نہ ہو- صحت خلق میں ادب یہ ہے کہ سفر وحضر میں حلق کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے- (کشف المحجوب باب المشاہدہ، صفحہ: 370) بندہ آفات دنیا میں تدبر وتفکر کرے کہ دنیا بے وفا ہے اور یہ جگہ خالص فنا ہے- اس سے دل خالی کر کے ایک سو ہو- مگر یہ بغیر مجاہدے کے حاصل نہیں ہو سکتا- (کشف المحجوب فی فرق فرقہم فی مزاہیہم، صفحہ: 318) دنیا سرائے فساق و فجار ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبت الٰہی ہے- (کشف المحجوب باب اثبات الفقر، صفحہ: 21) بھوک کو بڑا شرف حاصل ہے اور تمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہے اس لیے کہ بھوک کا دل ذکی ہوتا ہے- طبیعت مہذب ہوتی ہے اور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص کھانے کے ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کردے تو وہ ریاضت میں اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کر لیتا ہے- (کشف المحجوب باب الجوع ما یتعلق بھا، صفحہ: 358)
* کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت یوپی
رابطہ:8954728623
iftikharahmadquadri@gmail.com
0 تبصرے