ممتاز الفقہاء حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی علیہ الرحمہ - کچھ یادیں کچھ باتیں
18/ مارچ بروز سنیچرکو والد صاحب کی فاتحہ چہلم کرکے 19/مارچ بروز اتوار کو علی الصباح "دمن" تراویح کے لیے روانہ ہوا تھا 20/مارچ کو برہان پور ایم پی کے قریب ٹرین پہنچی تھی کہ یکایک واٹسپ اساتذہ گروپ سے موبائل کی اسکرین پر ایک خبر کی نوٹیفیکیشن آئی، موبائل نکال کر خبر پڑھی تو دل کو ایک دھچکا سا لگا. خبر ہی کچھ ایسی تھی، مولانا شاہد صاحب استاد جامع اشرف نے لکھا تھا:
حضرت مفتی شہاب الدین صاحب کی طبیعت بہت علیل ہے، سب لوگ خصوصی دعاء کریں(معنی و مفہوم)-
دل نے کہا یا اللہ یہ حضرت کو اچانک کیا ہوگیا؟ ابھی چند دن پہلے تو مدرسہ سے صحیح سلامت گھر کے لیے روانہ ہوئے تھے، اور روانہ ہونے سے دو دن پہلے ہم دونوں ایک ساتھ ایک ضرورت سے بسکھاری گئے تھے اس وقت تک تو کسی طرح کی کوئی بات نہیں تھی اتنی جلدی طبیعت اتنی خراب ہوگئی کہ مولانا شاہد صاحب خصوصی دعا کے لیے کہہ رہے ہیں؟
پھر کچھ دیر بعد فیس بک کھولا تو اب فیس بک میں بھی یہ خبر گردش کر رہی تھی، مفتی صاحب کے شاگرد حضرات خود دعائیں کر رہے تھے اور دوسروں سے بھی دعاؤں کی گزارش کر رہے تھے، اب اور پریشان ہوا، میری پریشانی کی ایک وجہ اور تھی اور وہ یہ کہ میں اور آپ نے حج کا فارم ایک ساتھ بھرا تھا پٹنہ حج ہاؤس میں ہمارے پاسپورٹ و دیگر کاغذات بھی جمع ہوچکے تھے، عنقریب پہلی قسط رقم کی ادائیگی کی تاریخ آنے والی تھی اور اس میں مطلوبہ رقم جمع کرنا تھا، مگر اس سے دو تین دن پہلے یہ خبر آرہی تھی کہ حضرت کی طبیعت سخت خراب ہے-
یہی باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں کہ یکایک فون کی گھنٹی بجی، اسکرین پر مولانا شاہد صاحب کا نام تھا،
، انہوں نے کہا کہ آپ کو مفتی صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہوا؟ میں نے کہا ہاں، اساتذہ گروپ میں آپ کی ڈالی ہوئی خبر پڑھی ، آپ کچھ تفصیل بتائیے، اچانک حضرت کو کیا ہو گیا؟ انہوں نے کہا:
حضرت کے پیٹ میں درد ہوا تھا، درد سخت تھا اس لیے وہ بھاگل پور شہر میں علاج کے لیے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے ، اس نے کئی طرح کی جانچ کروائی، ان جانچوں سے جو رپورٹ آئی ہے وہ پریشان کن ہے، انہوں نے رپورٹ بتائی اور کہا اگرچہ رپورٹ صحیح ہی ہوگی تا ہم جب تک کسی اور ڈاکٹر سے اس کی تصدیق نہ ہوجائے مرض کی نوعیت راز رکھی جائے گی ، نوعیت مرض کا دوسروں سے اظہار نہیں کیا جائے گا ، میں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن اب آگے کا مرحلہ بتائیے، آگے کیا ہونا ہے ؟ انہوں نے کہا آگے کی ذمہ داری حضور قائد ملت نے اٹھالی ہے، حضرت نے انہیں ممبئ علاج کے لیے بلوایا ہے اور ان کا ٹکٹ بھی بن چکا ہے، وہ اپنی اہلیہ اور اپنے بھائی کے ساتھ کل ہی ممبئی کے لیے روانہ ہو رہے ہیں، سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ حضور قائد ملت حضرت مفتی صاحب کی مصیبت کے وقت مفتی صاحب کا دست و بازو ہی نہیں بلکہ مکمل سہارا بن گئے ہیں"
خیر مولانا شاہد صاحب کے فون کرنے کا مقصد اسی بات کی طرف توجہ دلانا تھا جو میرے ذہن میں سوالیہ نشان بن کر گردش کر رہا تھا کہ کیا اب وہ حج پر جا سکیں گے یا نہیں؟ میں نے پوچھا حضرت بات چیت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا اس دن وقتی طور پر درد اٹھا تھا لیکن ابھی وہ ٹھیک ٹھاک ہیں، انہیں بظاہر کوئی پریشانی نہیں ہے، بالکل نارمل ہیں، میں نے کہا ٹھیک ہے، وہ ممبئی پہنچ جائیں تو پھر ان شاء اللہ بات کی جائے گی -
رات کو 8/ بجے کے قریب لوک مانیہ تلک پہنچا وہاں مفتی ساحل پرویز جامعی نے حافظ ضمیر الدین جامعی کو پہلے ہی سے ریسیو کرنے کے لیے بھیج رکھا تھا، حافظ صاحب لوکل ٹرین سے مجھے ورسئی لے گئے، پھر وہاں سے موٹر سائیکل پر بٹھا کر نالہ سوپارہ سے بھی آگےاپنی مسجد لے گئے، اپنے گھر کا تیار کردہ پر تکلف کھانا کھلایا، پھر دوسرے دن واپی کے لیے ایک اسکارپیو پر بٹھا کر رخصت کیا، واپی میں مفتی ساحل پرویز صاحب نے دارالعلوم مخدوم اشرف کے پڑھے ہوئے میرے پاس آنے جانے والے مولانا عبدالقادر صاحب کو پہلے ہی سے آگاہ کر رکھا تھا، وقت مقررہ پر وہ خوشی خوشی آئے اور مجھے اپنی "رضا مسجد" لے گئے وہاں بعد ظہر اپنے ایک معتقد کے گھر انہوں نے مع نذرانہ دعوت کھلوائی، پھر" دمن" کے لیے ٹیمپو پر بٹھا کر رخصت کیا، کوئی بیس منٹ کے بعد منزل مقصود سے آدھا کیلو میٹر پہلے ایک چوک پر ٹیمپو سے اتر کر مسجد غریب نواز کے امام مولا نا قاسم صاحب کے ساتھ بائک پر سوار ہو کر مسجد پہنچا، مسجد اگرچہ چھوٹی تھی لیکن خوبصورت تھی، وہاں ستائیس رمضان تک مسجد کی بالائی منزل پر قیام رہا اور کھانا پینا مولانا قاسم صاحب امام مسجد غریب نواز کے ساتھ ان کے گھر رہا، مولانا نے کھلانے پلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، آخری دن تک دسترخوان کو مزیدار، پرتکلف اور صحت بخش غذاؤں سے آراستہ رکھا-
آمدم برسرمطلب
جب دمن پہنچا تو اس کے دو تین دن بعد حضرت مفتی شہاب الدین صاحب قبلہ کو فون لگایا، خبر و خیریت دریافت کی، بیماری کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا ابھی چیک اپ نہیں ہوا ہے، دعا کیجئے کہ رپورٹ ٹھیک ٹھاک آئے، ویسے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، لگتا ہے بھاگل پور والی رپورٹ غلط ہے، میں نے کہا اللہ کرے حضور غلط ثابت ہو - دو تین دن کے بعد پھر فون کیا تو حضرت نے فرمایا جانچ ہو چکی ہے لیکن ابھی رپورٹ نہیں آئی ہے کل تک امید ہے، پھر دو تین دن کے بعد آپ نے فرمایا مولانا! میں حج پر نہیں جارہا ہوں، آپ اپنا دیکھ لیجیے، اس دوران پہلی قسط پیسے جمع کرنے کی تاریخ آچکی تھی، میں نے حج کمیٹی میں فون لگا کر پوچھا کہ ہم چار لوگوں نے حج کا فارم ایک ساتھ بھرا تھا جن میں سے دو لوگ نہیں جا رہے ہیں تو اب باقی دو لوگ کیا کریں پھر سے فارم بھریں یا وہ اپنے پیسے جمع کریں، حج کمیٹی سے بتایا گیا کہ اب فارم نہیں لیا جائے گا، اس لئے دوسرا فارم بھرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اب آپ کو پہلے نہ جانے والوں کا کینسیلیشن فارم بھر کے پہلے ان دونوں کا کینسل کروانا ہوگا، اگر دن رہتے ہوئے یہ کارروائی مکمل ہوجاتی ہے تو پھر آپ دو لوگوں کو اپنے حصے کے پیسے جمع کرنے ہوں گے، خیر ساری کار روائیاں میں نے کرالیں اور میری تیاری چلتی رہی اور یوم معین 9/جون کو ہمارا قافلہ کلکتہ سے سوئے حرم روانہ ہو گیا -
اس دوران حضرت مفتی صاحب سے رابطہ برابر جاری رہا، چونکہ حج فارم میں گروپ کا ہیڈ آپ ہی کو بنایا گیا تھا اس لیے آپ کا نام کینسل کردیے جانے کے بعد بھی حج کمیٹی سے جو بھی میسج آتا آپ ہی کے پاس آتا تھا، آپ مجھے میسیج ٹرانسفر کرتے تھے تبھی مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میرے پیسے حج کمیٹی کو موصول ہوگئے یا نہیں اور یہ کہ اب اگلا مرحلہ کیا ہے؟ اور اس کے لیے مجھے کبھی حضرت کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ میسیج ٹرانسفر کر دیں، آپ جیسے ہی کوئی میسیج آتا تھا فوراً ٹرانسفر کردیتے تھے، مکہ شریف پہںنچ کر بھی آپ سے رابطہ برقرار رہا ایک بار میسج کے ذریعہ آور ایک بار واٹسپ ریکارڈنگ کے ذریعہ -
آخری بار واٹسپ ریکارڈنگ کے ذریعہ جب میری بات ہوئی تھی میری واپسی 21 جولائی سے پانچ چھ دن پہلے ہی ہوئی تھی،اس وقت تک حضرت مفتی صاحب کی آواز حسب سابق ہی تھی، ذرہ برابر آواز میں کسی ضعف یا ارتعاش کا احساس نہیں ہوا، اس کے بعد آپ سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا -
اساتذہ گروپ میں جو بھی میسیج ڈالا جاتا مفتی صاحب اسے پڑھتے تھے، ایک بار غالباً کسی نے گروپ میں دعاے عاشورہ ڈالی تھی تو اس میں لکھاوٹ میں کوئی لفظ چھوٹ گیا تھا جس پر مفتی صاحب نے تنبیہ کی تھی، اس وقت میں مکہ شریف سے واپس گھر آچکا تھا، آپ کے اس کمینٹ سے مجھے لگا کہ شاید مفتی صاحب جامع اشرف پہنچے ہونگے اور وہیں سے پٹنہ والے ڈاکٹر سے علاج چل رہا ہوگا، لیکن جب سولہ سترہ دن گھر میں گزار کر 7 /اگست کو مدرسہ حاضر ہوا تو مفتی صاحب کو مدرسہ میں نہ پاکر بہت مغموم ہوا، پھر بھی یہ امید برقرار رہی کہ اب عنقریب تشریف لائیں گے کیونکہ عرس مخدومی قریب آچکا تھا اور بعض مدرسین سے شوال ہی میں سنا تھا کہ مفتی صاحب مدرسہ آنے کے لئے بےچین ہیں، کہتے ہیں کہ میں وہیں مدرسے میں رہ کر اپنا علاج جاری رکھوں گا، اس لیے امید بندھی کہ جب ان کی آواز وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ ہر طرح کا میسیج پڑھتے بھی ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں اور پھر وہ آنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں تو ضرور عرس میں تشریف لائیں گے، لیکن ابھی دو چار ہی دن گزرے تھے کہ گروپ میں مولانا شاہد صاحب نے میسیج ڈالا کہ حضرت مفتی صاحب کے لیے خصوصی دعا کریں، ان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہے، آج کچھ ایسی رپورٹ آئی ہے جس سے تشویش مزید بڑھ گئی ہے ( مفہوم)-
، مفتی صاحب خود گروپ میں موجود تھے اور وہ گروپ کے ہر میسیج کو پڑھتے بھی تھے، گروپ میں اس میسیج کا ڈالا جانا مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا، سوچا مفتی صاحب خود بھی اس میسیج کو پڑھیں گے، کہیں وہ کسی تشویش میں نہ پڑجائیں، اس لیے جواب میں دعائیہ کلمہ لکھ کر حضرت مفتی صاحب کی تسلی اور ڈھارس کے لیے یہ جملہ بھی لکھ دیا :
ویسے زیادہ پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں، جس کا مرتبہ جتنا زیادہ بلند ہوتا ہے اسے اسی قدر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، "ان اشد الناس بلاء الأنبياء ثم الامثل فالامثل "(مفہوم)
واٹسپ میں میسیج پڑھنے کے بعد مولانا شاہد صاحب سے سے بالمشافہ مفتی صاحب کی طبعیت کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے ڈاکٹر کے حوالے سے جو کچھ بتایا اس سے یقین ہو گیا کہ اب مفتی صاحب کا عرس میں آنا ناممکن ہے، دو ایک دن بعد میری اہلیہ نے مفتی صاحب کی اہلیہ سے فون پر تفصیل سے بات کی، جس سے مزید حالات سے آگاہی ہوئی، پھر عرس کے ایام آگئے، فتح پور سے عرس میں آئے ایک صاحب سے مفتی صاحب کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا مجھے پہلے سے ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ ان کی طبیعت خراب چل رہی ہے، ابھی چند دن پہلے معلوم ہوا، مگر جس بیماری کے بارے سنا ہے تو اس میں بچتا ہی کون ہے؟
پھر عرس کے بعد ایک صاحب سے معلوم ہوا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں، پھر ایک دن معلوم ہوا کہ حضور قائد ملت انہیں علاج کے لیے دوبارہ ممبئی بھیج رہے ہیں، پھر معلوم ہوا کہ علاج چل رہا ہے، پھر معلوم ہوا کہ ان کا آپریشن ہونا ہے، پھر سنا کہ آپریشن بھی ہوگیا، پھر نہ معلوم کیا ہوا کہ آپریشن سے پانچ چھ دن بعد، رات کے ڈیڑھ بجے مفتی صاحب نے اساتذہ گروپ میں میسیج بھیجا، آپ نے لکھا :
میں محمد شہاب الدین اشرفی ممبئی میں زیر علاج ہوں، علاج معالجہ کے باوجود دن بدن میری صحت گرتی جا رہی ہے، آج حال یہ ہے کہ بغیر سہارے کے نہ اٹھ سکتا ہوں، نہ بیٹھ سکتا ہوں، لہٰذا اساتذہ جامع اشرف سے گزارش ہے کہ بارگاہ مخدوم اشرف و بارگاہِ سرکار کلاں میں میرے لیے دعا کریں (مفہوم)
اس وقت میں بیدار ہی تھا اور موبائل میں کچھ کر رہا تھا، جیسے ہی نوٹیفکیشن آئی، میسیج پڑھا اور سب سے پہلے پڑھا اور فوراً ہی کمینٹ میں لکھا:
جی حضرت ضرور، اللہ آپ کو شفائے کاملہ عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم -
میسیج پڑھ تو لیا اور کمینٹ بھی کردیا لیکن یہ سوچ کر بے چین ہوگیا کہ رات کے ڈیڑھ بجے اس میسیج کا کیا معنی؟ یہ میسیج آپ صبح بھی کر سکتے تھے-
دوسرے دن گیارہ بجے کے آس پاس کسی نے گروپ میں مفتی صاحب کی تازہ ترین تصویر ڈال دی، دیکھ کر ایسا لگا جیسے اب کچھ دیر کے مہمان ہیں، پھر وہی ہوا 12:48 بجے جامع اشرف کے فیملی کوارٹر میں یہ بات پھیل گئی کہ آپ وصال فرماگئے، درسگاہ کی طرف بھی کچھ کچھ شور بلند ہورہا تھا لیکن ابھی خبر کی تحقیق کرلینا ضروری تھا، مولانا ساجد ماچھی پوری کے پاس فون کیا، انہوں نے بتایا کہ ابھی ابھی میں نے بھی سنا ہے، گاؤں میں بھی یہ بات پھیل رہی ہے، اب بھی کسی کو خبر دینے سے پیشتر تحقیق کرلینا ضروری سمجھا، درسگاہ کی طرف آیا تو ایک تخصص کے طالب علم سے سامنا ہوا، میں نے خبر دینے کے سے انداز میں کہا مفتی صاحب وصال فرماگئے، اس نے کہا جی ہم لوگوں نے سنا ، میں نے کہا کس سے سنا؟ اس نے کہا: عبدالرزاق نامی طالب علم جو ممبئ میں مفتی صاحب کی خدمت پر مامور تھا اس نے فون کر کے ہم لوگوں کو بتایا"
اب یقین ہو چکا تھا، تب تک مسجد میں ظہر کی اذان کا وقت ہوچکا تھا، راستے میں رکے بغیر مسجد پہنچ گیا، ظہر کی نماز کے بعد آفس میں آکر بیٹھا تو دھیرے دھیرے اکثر اساتذہ جمع ہوگئے، سب مغموم و افسردہ تھے اور دکھ درد کا اظہار کر رہے تھے، اور اپنے اپنے احباب تک کالنگ، واٹسپ اور فیس بک کے ذریعہ خبر پہنچا رہے تھے، میں نے بھی اپنی فیس بک آئی ڈی میں لکھا:
وصال پر ملال
وقار تدریس و مسند افتاے جامع اشرف، صدر مفتی و سابق شیخ الحدیث،جامع معقول و منقول، حاوی فروع و اصول،محب آل رسول ،استاد گرامی وقار، نمونہ اسلاف، عالم باعمل، صوفی باصفا حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی بھاگلپوری نماز ظہر سے کچھ دیر قبل قضائے الٰہی سے ممبئی میں دوران علاج وصال فرماگئے. انا للہ و انا الیہ راجعون-
پھر ان یادوں میں کھوگیا جو 1997/ کے آغاز سے مارچ 2023 تک ان سے وابستہ تھے، جب میں جنوری 1997 میں جامع اشرف پڑھنے آیا تھا تو ہماری جماعت کی کوئی گھنٹی ان کے پاس نہیں تھی اس لئے اس سال مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا، معاملہ فقط زیارت تک محدود رہا، پھر آگے چل کر درج ذیل کتابیں پڑھی:
"کافیہ، دروس البلاغہ، ہدایت الحکمت، ہدیہ سعدیہ، ملاحسن، تلخیص المفتاح، حسامی، توضیح تلویح"-
اس زمانے میں ان کے پاس عموماً درس نظامی کی وہی کتابیں ہوتی تھیں جو ادق مانی جاتی تھیں جیسا کہ اوپر کی کتابوں سے سمجھا جا سکتا ہے، وہ ان کتابوں کو ایسے پڑھاتے تھے جیسے یہ درس نظامی کی سب سے سہل کتابیں ہیں، بہتوں بار ایسا ہوتا تھا کہ کتاب پیچھے طاق پر رکھی ہوتی تھی، کتاب طاق سے اٹھا کر ڈسک میں رکھتے تک نہ تھے، کھولنا تو بعد کی بات ہے، جب پوری تقریر کردیتے اور انہیں اطمینان ہوجاتا کہ بچے سمجھ چکے ہیں تب پیچھے کی جانب ہاتھ بڑھا کر کتاب طاق سے نکالتے اور ترجمہ کراتے -
آج کل کافیہ کا صرف نفس مفہوم پڑھایا جاتا ہے، لیکن اس زمانے میں مع اعتراض و جواب پڑھایا جاتا تھا، بشیر الناجیہ اور جواہر الصافیہ کے تمام اعتراضات و جوابات بیان کرنے کا التزام کرتے تھے کچھ نہیں چھوڑتے تھے،اور ایک بار نہیں دو دو تین تین بار بیان کرتے تھے-
آپ کو یہ سن کر حیرت ہورہی ہوگی، لیکن حقیقت یہی ہے ، یہ ایسا ہی ہے جیسے بعد کے زمانے میں ان کا درس بخاری کہ جب وہ شیخ الحدیث کے منصب پر فائض ہوئے تو بخاری شریف مکمل پڑھاتے تھے اور وہ بھی ضروری مسائل کی وضاحت اور اختلاف ائمہ کے بیان کے ساتھ ، اصل میں وہ تیز پڑھاتے تھے، تیز پڑھانے میں ان کو ملکہ حاصل تھا، اور بغیر کسی کٹوتی کے پوری پوری گھنٹی پڑھاتے تھے اور زبردست قوت حافظہ کے مالک تھے، ان کو یہ سوچنا نہیں پڑتا تھا کہ آگے کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی زیر تدریس ہر کتاب کا نصاب وقت رہتے مکمل ہو جاتا تھا -
جب کسی مسئلہ میں مختلف احتمالات ہوں، متعدد شقیں ہوں اور کئی صورتیں ہوں تو بسا اوقات مدرس پر معاملہ مشتبہ ہوجاتا ہے، پھر مدرس کا بدلتا ہوا لب و لہجہ خود بتادیتا ہے کہ شاید کچھ گھپلا ہورہا ہے لیکن ان کی درسگاہ میں کافیہ یا حسامی جیسی کتابوں میں بھی کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ بھول رہے ہوں کہ آگے کیا اعتراض و جواب ہے، یا آگے لائن کچھ اور ہے اور وہ کسی اور لائن پر چل رہے ہیں -
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے حسامی کا نام لیا، ملاحسن کا نہیں لیا، تو آپ کو بتادوں کہ ملاحسن تو ان کے لئے مرقات جیسی تھی، خود راقم الحروف ملاحسن یا منطق کی چھوٹی بڑی کسی کتاب کو مشکل ترین کتابوں میں نہیں گنتا، ہاں حکمت و فلسفہ البتہ ایک نہایت دشوار فن ہے مگر مفتی صاحب فلسفہ و حکمت کی ادق کتاب ہدیہ سعیدیہ کو نہ صرف بہتر پڑھاتے تھے بلکہ میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اس زمانے میں خیر الاذکیاء خواجہ مظفر حسین اور شمس العلماء مفتی غلام مجتبی صاحب جیسے لوگوں کے گزرجانے کے بعد پورے ملک میں علم حکمت و فلسفہ کے چند ہی وارثین ماہرین رہ گئے ہوں گے، انہیں میں مفتی صاحب قبلہ بھی ہیں، اے کاش کہ یہ حضرات اس فن کے اصطلاحات کو توضیح و تشریح کے ساتھ اسی طرح ترتیب دے دئے ہوتے جس طرح پڑھاتے تھے تو یہ علم بھی دوسرے علوم کی طرح زندہ ہوتا اور اس کا گلا نہ گھونٹا جاتا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ -
یہ تو ان کی تدریسی مہارت تھی، تدریس کے ساتھ انہیں تقریر میں بھی مہارت حاصل تھی، وہ فی البدیہہ بولتے تھے اور ہر موضوع پر بول لیتے تھے، ہمارے پڑھنے کے زمانے میں بھی پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کے موقع پر اکثر ان کی تقریر ہوتی تھی، طلبہ ان کی تقریر سے بہت محظوظ ہوتے تھے اور اس کے مشتاق رہتے تھے -
دوہزار دو تک وہ فقط ایک مدرس تھے، دوہزار تین سے ان پر تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی کی ذمہ داری بھی آئی، کچھ دنوں بعد حضور قائد ملت نے انہیں نائب صدر بنایا، پھر کچھ دنوں بعد صدر مفتی ہوئے اور پھر کچھ دنوں بعد شیخ الحدیث کے منصب پر فائض ہوئے تمام عہدے اور منصب کی ذمہ داریوں کو انہوں نے بحسن و خوبی نبھایا - ان کی خوبیاں وقت کی پابندی، وسعت مطالعہ، تدریسی مہارت، بڑے بڑے مجمع میں اسپیچ دینے کی صلاحیت، ادارہ سے وفاداری، مشائخ سلسلہ سے عقیدت و وابستگی، فضولیات و لغویات سے کنارہ کشی، وضعداری اور خودداری کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات علمی دنیا کے لیے ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی بآسانی ممکن نہیں، ان کی وفات سے اسلامی دنیا ایک بڑے فلسفی، ایک بڑے فقیہ اور ایک بڑے شیخ الحدیث سے محروم ہو گئی -
یادیں تو بہت ہیں مگر ایک تو یہ کہ مجھے ان یاد داشتوں کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے کا سلیقہ نہیں، دوسرا یہ کہ میں کوئی ایسی یاد داشت شیئر نہیں کرنا چاہتا جس میں خودستائی کا پہلو برآمد ہو اس لیے یہ کہہ کر اپنے قلم کو روکتا ہوں کہ وہ ہمارے ایک عظیم استاد تھے، ہمیں ان کی شاگردی پر فخر ہے، ایسے ماہر فن اور ہر فن مولیٰ استاد کم پائے جاتے ہیں،
اللہ رب العزت اہل سنت میں ان کے امثال پیدا فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں کو درگذر فرمائے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم شاگردوں کو ہرسال ایصال ثواب کی توفیق ملتی رہے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم -
0 تبصرے