Header New Widget

ائمہ کے قتل کی بڑھتی وارداتیں اور قوم مسلم

 ائمہ کے قتل کی بڑھتی وارداتیں اور قوم مسلم



محمد زاہد علی مرکزی 

چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ 


پچھلے چند سالوں سے مساجد کے اماموں پر ہوتے جان لیوا حملے ہمیں بار بار جگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری قوم کو نہ جانے کون سا نشہ ہے کہ اس کی توجہ اس طرف مبذول ہی نہیں ہوتی، میری یادداشت میں ایسے کم از کم دس ائمہ ہیں جنھیں قتل کیا گیا ہے، سانپ کے ڈسنے، مساجد کے حجرے ڈھہنے اور مسجد میں ہی کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کی تعداد الگ ہے، پچھلے سال اس موضوع پر لکھا تھا لیکن پھر وہ مضمون نہ جانے کہاں غائب ہوا، شائع نہیں ہو سکا -

ابھی ایک واٹس ایپ گروپ میں یہ میسج ملا تو پھر دل کا درد جاگ اٹھا، چند سطور یہاں لکھ رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ شاید ہماری عوام، مساجد کے متولیان اور کرسی صدارت سنبھالنے والوں کی آنکھوں اور کانوں تک پہنچ سکیں، یہ انھیں کی کرم فرمائیاں ہیں جو ائمہ اس حال کو پہنچتے ہیں، گاؤں، دیہات کی مساجد چھوڑ دیں تو اکثر مساجد کے پاس فنڈ کی کمی نہیں رہتی، لیکن یہ کرم فرما اس پیسے کو ائمہ کی تنخواہ اور انکے رہنے سہنے کے انتظام پر خرچ نہیں کرنا چاہتے، یہ غیر ارادی قاتل بھلے ہی یہاں بچ جائیں لیکن میدان محشر میں ان کا حساب ضرور ہوگا -


ہر مجلس میں صدر صاحب کا رتبہ اسی مسجد کی صدارت کی بنا پر الگ ہوتا ہے، لوگ عزت کرتے ہیں، ہر جگہ آگے رکھتے ہیں لیکن ان کی بے حسی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ امام کسی کام کو دس بار کہے تب بھی وہ کام ہونا مشکل ہوتا ہے - 

واٹس ایپ پر موصول یہ میسج آپ بھی پڑھیں "حضرت 

 علامہ ،مولانا تہذیب الاسلام( پوکھریا، بائسی، بہار) کے رہنے والے تھے، موصوف "تن سوکھیا" آسام میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، آج فجر کے وقت آپ کا بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا" -(قتل کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ ابھی تفصیلات نہیں -) 


ائمہ کا قتل آسان کیوں؟


وجہ اول :گاؤں دیہات کی ہماری قدیم  مساجد اکثر بستی سے الگ ہوتی ہیں، مسجد میں امام کے علاوہ جوان تو چھوڑیے ایک بوڑھا شخص بھی نہیں رہتا، بستی سے دور ہونے کی بنا پر آسانی کے ساتھ واردات ہوجاتی ہیں، اب اگر امام حملے میں کسی طرح تھوڑا بہت بچ بھی جائے تو فوراً علاج نہ ملنے کی بنا پر مر جاتا ہے، کیونکہ مسجد میں تو لوگ نماز کے وقت ہی آئیں گے -


وجہ دوم :امام حضرات رات ہو یا دن کسی بھی وقت، ہر ایک کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں اس میں احتیاط برتیں، جب تک کوئی معتبر شخصیت آپ کے پاس نہ آئے ہرگز دروازہ نہ کھولیں، حالات زمانہ کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی خاص مجبوری نہ ہو تو رات میں کہیں بھی جانے سے بچیں، خاص لوگ ہوں یا عام کسی کے ساتھ نہ جائیں - (کیوں کہ یہی خاص لوگ آپ کے بعد چار دن بھی پولیس اسٹیشن یا کورٹ میں نہ دکھیں گے) بلکہ اگر کسی خاص آدمی کے ساتھ بھی جا رہے ہیں تو بھی چند دوسرے افراد کو فون کرکے بتائیں کہ فلاں کے ساتھ فلاں جگہ جا رہے ہیں - دعا تعویذ کرتے ہیں تو بہت سنبھل کر کام کریں، غیر مسلموں سے اس قسم کے معاملات میں دور رہیں تو زیاد بہتر - 

وجہ سوم :اس وقت مساجد اور اس کے اطراف میں سی سی ٹی وی کیمروں کا نہ ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے، اگر کیمرے ہوں تو اس سے ایک طرح کا خوف بنا رہتا ہے، اگر کوئی قریبی ہے تو لوگ چال ڈھال، کپڑوں یا جسم کی ساخت سے بھی پہچان جائیں گے اور غیر معروف لوگ ہیں تو اندھا قتل نہیں ہوگا ، ملزمین کا کچھ نہ کچھ پتہ چل ہی جاتا ہے بھلے ہی چہرہ چھپا ہو، کیمروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ امام صاحب حجرے کے اندر سے ہی دیکھ سکتے ہیں کہ کون ہے؟


وجہ چہارم : ائمہ دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں جہاں ان کی پہچان یا رشتہ داری نہیں ہوتی، ایسے میں قاتل بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا یہاں کوئی نہیں ہے، اگر پھنس بھی گیے تو چند سالوں میں باہر آ جائیں گے، ان کا کیس لڑنے والا کون ہے؟ اور جو کیس لڑے گا اس کو بھی خبر ہے کہ انجان علاقے میں وہ تنہا کیا کر سکتا ہے ؟ اگر اہل خانہ ہمت باندھ بھی لیں تو یہی متولی اور صدر دو بار سے تیسری بار اس کے ساتھ کورٹ میں نہیں دکھائی دیں گے - 

ایسی کسی واردات کے وقت تو لوگ جوش میں کافی مشتعل ہوتے ہیں، اس اشتعال کا بس اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ مرحوم کو گاؤں یا علاقے سے فوری طور پر مالی امداد ہوجاتی ہے، لیکن چند ایام کے بعد جب معاملہ پولیس اسٹیشن اور کورٹ تک پہنچتا ہے تو اس وقت ہر ایک خاموش ہوکر بیٹھ رہتا ہے - ظاہر ہے امام نہ کسی کا بھائی ہے نہ بیٹا، نہ باپ، بھتیجا، چچا کہ لوگ اپنے آدمی کے لئے جان لگا کر کیس لڑیں، بمشکل سال بھر بعد کیس ختم ہوجاتا ہے، مقتول کے اہل خانہ کے پاس خود اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ مقتول کا کیس لڑیں، مزید اس کی بیوی اور بچوں کا خرچ بھی اہل خانہ کے ذمہ ہوتا ہے ایسے میں کیس لڑنا ناممکن سا ہوتا ہے -


ہم کیا کریں؟


(1) آپ امام کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتے اور آپ کی مسجد آبادی سے دور ہے تو امام کو آبادی میں ایک کمرہ جس میں ہر قسم کی ضروری سہولیات موجود ہوں مہیا کرائیں، بہتر ہوگا کہ امام شادی شدہ رکھیں اس کی فیملی کا بھی انتظام کریں، اگر وہ یا آپ فیملی نہیں رکھنا چاہتے تو انھیں ہر ماہ ڈیڑھ ماہ میں ایک ہفتے کی چھٹی دیں، اگر آپ کے پاس مسجد ہے لیکن امام کے لیے کمرہ نہیں ہے تو چندہ کریں یا کچھ بھی کریں یا امام دو سال بعد رکھیں لیکن جب بھی رکھیں انتظام پہلے کرلیں کہ "جان ہے تو جہان ہے" - فجر اور عشا کے وقت چند مقتدی امام کو ساتھ لے کر مسجد آئیں، جائیں -


(2) امام قابل عالم رکھیں اور اچھی تنخواہ پر رکھیں،عزت دیں، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سمجھائیں، آپ اپنے بچوں کے سات خون معاف کرتے ہیں اور امام کی چھوٹی سی غلطی آپ کو پہاڑ لگتی ہے، اگر وہاں سات خون معاف ہیں تو یہ بھی انسان ہے اس کا ہلکا پھلکا فیکچر تو قبول ہونا ہی چاہیے - اکثر سستے کے چکر میں ہر ایرے غیرے کو امام رکھ لیتے ہیں بعد میں جب وہ غلطیاں کرتے ہیں تو پھر سارا علاقہ مل کر روتا ہے کہ ایسا ہوا ویسا ہوا -


(3) ممکن ہو تو گاؤں یا علاقے کے ائمہ رکھیں کہ وہ ہر طرح کے حالات سے واقف ہوتے ہیں، ہر آدمی گھر کا غصہ امام پر نہیں نکال پائے گا اور بے جا رعب بھی نہیں ڈال پائے گا، امام پر بھی اہل خانہ کا دباؤ رہے گا، اور آپ بھی رہنے، کھانے وغیرہ کی ٹینشن سے بچے رہیں گے -


(4) مساجد اگر شہری ہیں تو پیسے کی کمی نہیں ہوتی اس لیے خادم یا مؤذن تھوڑے طاقت ور رکھیں، دو تین لوگ اگر مسجد میں ہونگے تو ایسے حادثات کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے، اس لیے ذمہ داران کو چاہیے کہ امام  کی جان کا بھی خیال رکھیں وہ آپ کے یہاں ہے اس لیے ہر چیز کی ذمہ داری آپ کی ہی بنتی ہے - 


(5) ہماری قوم قوالی، جلوسوں، جلسوں میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتی ہے مگر اپنے امام کو رہنے کا انتظام تک نہیں کر سکتی، تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب چھوٹا سا گاؤں پانچ لاکھ کا جلسہ کر لیتا ہے لیکن اسی گاؤں کے امام کو ضروری سہولیات نہیں دے سکتا، افسوس ہے ہمارے رویے پر یقینا اس کا بھی حساب ہوگا، رب کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں - 

5/11/ 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے