اجراے قواعد پر بے لاگ جامع تبصرہ
ازقلم: فضیلۃ الشیخ علامہ نوشاد عالم اشرفی جامعی، کچھوچھہ شریف
بنام جہاں دار جاں آفریں حکیمے سخن در زباں آفریں
کیفیت ترتیب
کتاب کی ترتیب درج ذیل خطوط و نشانات کے مطابق ہے
١* - سب سے پہلے پانچ پانچ چھ چھ سطر پر مشتمل نحومیر کی عبارت نقل کی گئی ہے -
٢* - پھر فارسی عبارت کا ترجمہ کیے بغیر اردو میں اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے -
٣* - پھر اس کے تحت تدریبات و تمرینات ہیں -
٤* - پوری کتاب کو 52 / دروس پر منقسم کیا گیا ہے جن میں سے 50 / دروس نحومیر کی شرح و توضیح پر اور 2/ درس ایک اضافہ کردہ بحث کی تشریح و توضیح پر مشتمل ہے -
٥* - دروس میں ملاحظہ یا ملاحظات کا عنوان قائم کرکے درس کے مرکزی نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے، پوری کتاب میں کل ملاحظات کی تعداد 43 / ہے -
٦* - دوران تشریح بیچ بیچ میں فائدہ یا فوائد کا عنوان قائم کرکے اضافی مفید باتیں بیان کی گئی ہیں، پوری کتاب میں کل فوائد کی تعداد 198 / ہے -
٧* - جہاں جہاں درس طویل ہوگیا ہے وہاں اکثر مقامات پر " تلخیص درس " کا عنوان قائم کر کے درس کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے -
٨* - نحومیر کی تمام مثالوں کی ترکیب بیان کی گئی ہے بلکہ کہیں کچھ جدید مثالوں کی بھی تراکیب ذکر کی گئی ہیں -
٩* - اقسام اور جزئیات کی تفہیم و تذکیر میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کہیں کہیں جدول اور نقشوں سے بھی مدد لی گئی ہے -
١٠* - سب سے آخر میں تدریبات و تمرینات ہیں جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں - کل تدریبات کی تعداد 61 / ہے -
١١* - جس طرح نحومیر میں مستثنیٰ کی بحث نہیں تھی بعد میں برائے فائدہ طلاب اسلاف میں سے کسی نے اس کا اضافہ کیا ہے - اسی طرح اس مطبوعہ کتاب کے اندر متن نحومیر میں کتاب ہی کی زبان فارسی میں برائے فائدہ طلاب ایک اور بحث کا اضافہ کیا گیا ہے اور وہ ہے عدد معدود کی بحث - اس بحث کا اضافہ کرنے والے جناب مولانا نور سعید اشرفی مرکزی کٹیہاری استاذ دارالعلوم انوار رضا نوساری گجرات ہیں - مولانا نے متن کے مقصود ( حفظ میں آسانی کے لیے اختصار ) کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختصر عبارت میں طلبہ کو عدد کے اقسام اور تذکیر و تانیث کے اعتبار سے عدد اور صیغہ و اعراب کے اعتبار سے معدود کے استعمال کا طریقہ بتایا ہے -
جس پر شرح میں مؤلف اجرائے قواعد نے شرح و بسط کے ساتھ کلام کر کے باب اعداد کے تمام جزئیات اور باریکیوں کو واضح کیا ہے - اہل علم کو مولانا نور سعید صاحب کی اس کوشش کو سراہنا چاہیے اور زبان و بیان میں اگر کوئی سقم نظر آئے تو انہیں اس سے آگاہ بھی کردینا چاہیے تاکہ اگلے ایڈیشن میں وہ اس کی اصلاح کر لیں -
اوپر کے خطوط اور نشانات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کتاب " نحومیر مع اجرائے قواعد " خوبیوں سے پر اور اپنے موضوع پر نہایت عمدہ اور نفیس ہے -
بلاشبہ جب قاری کتاب کا مطالعہ کرے گا تو غالب کا یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہوگا :
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
کتاب کے مطالعہ کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ یہ کتاب جہاں طلبہ کے ذہن کی گرہوں اور بندشوں کو کھولنے میں معاون ہے وہیں نو آموز اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہے -
مؤلف کتاب کی کسرنفسی
کتاب کی خوبیاں آپ نے اوپر ملاحظہ کرلیں مؤلف کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مؤلف نہایت متواضع النفس اور منکسر المزاج ہیں یہ مولانا موصوف کی کسرنفسی ہی ہے کہ کتاب کے فرنٹ پیج پر کتاب کا نام نحومیر مع اجرائے قواعد لکھنے کے بعد نحومیر لکھ کر صاحب نحومیر کا نام اور مؤلف اجرائے قواعد لکھ کر اپنا نام تحریر کرنے کے ساتھ دونوں کے بیچ میں منتخب حواشی لکھ کر علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ کا نام تحریر کیا ہے - نقشہ تحریر اس طرح ہے :
نحومیر مع اجرائے قواعد
نحومیر
از حضرت علامہ سید شریف علی بن محمد جرجانی قدس سرہ العزیز
منتخب حواشی
از حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری برکاتی نوراللہ مرقدہ
مؤلف اجرائے قواعد
شیخ الادب فاضل جلیل حضرت مولانا الحاج ابو عائشہ غلام یزدانی رضوی سعدی کٹیہاری حفظہ اللہ الباری -
جبکہ اگر فرنٹ پیج پر صرف صاحب نحومیر اور اپنا نام تحریر کردیتے ( اور نقشہ تحریر یوں ہوتا :
نحومیر مع اجرائے قواعد
نحومیر از حضرت علامہ سید شریف علی بن محمد جرجانی قدس سرہ العزیز
مؤلف اجرائے قواعد شیخ الادب فاضل جلیل حضرت مولانا الحاج ابو عائشہ الخ -) جب بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا -
کیونکہ کتاب کے مطالعہ سے میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق موصوف نے حاشیہ نحومیر سے استفادہ تو ضرور کیا ہے لیکن اس کی تشریحات و توضیحات کو کہیں بھی من و عن نقل نہیں کیا جو کچھ بھی بیان کیا ہے اپنے الفاظ اور اپنی ترتیب و سیٹنگ کے ساتھ بیان کیا ہے - اور اس کے لیے مولانا موصوف کا اپنے مضمون میں یہ کہہ دینا ہی کافی ہوتا کہ میں نے اس کتاب کی ترتیب میں حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ کے حاشیہ نحومیر سے استفادہ کیا ہے یا اس کی ترتیب میں حضرت علامہ کا حاشیہ نحومیر میرے پیش نظر رہا ہے -
آج کل تو لوگ انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھاتے ہیں مگر مولانا کا معاملہ اس کے برعکس ہے - مولانا مکمل طور پر شہید ہوکر بھی شہادت کا سہرا دوسرے ہی کے سر باندھنا چاہ رہے ہیں - صرف اس بنا پر کہ ان سے شہادت کی تلقین ملی ہے - یہ احسان شناسی کے ساتھ اسلاف شناسی کی عمدہ ترین مثال ہے-
اور اسی کے ساتھ ان سرقہ بازوں کے مونہہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو بغیر کسی اضافہ اور ترتیب جدید کے کچھ الفاظ کو حذف کردیتے ہیں اور محض اس حذف کی بنیاد پر دوسرے کی کتاب کو نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرلیتے ہیں اور اس کے اصل مصنف کا مطلق ذکر نہیں کرتے، میں نے ایسا اس لیے کہا کہ فرنٹ پیج کی تحریر سے اور اسی طرح کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے ایک قاری کے ذہن میں جو تصویر ابھر رہی ہے وہ یہی ہے کہ شارح کتاب در اصل علامہ عبد الحکیم شرف قادری ہیں نہ کہ مولانا غلام یزدانی، ہاں جگہ جگہ مشق و ممارست کے لیے جو عربی جملے دئیے گئے ہیں وہ مولانا کے اضافہ کردہ ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے -شارح کتاب مکمل طور پر مولانا غلام یزدانی ہی ہیں - ہاں یہ ان کی کسرنفسی ہے کہ انہوں نے خود کو ہائی لائٹ نہیں کیا بلکہ اپنے کارنامہ کو حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ کی جانب منسوب کردیا - صرف اس بنا پر کہ ان کے حاشیہ سے جزوی استفادہ کیا ہے - موصوف کی شخصیت شاعر کے اس شعر کے عین مطابق ہے :
شعر :
تواضع کاطریقہ صاحبو! سیکھوصراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہےاورجھکی جاتی ہےگردن بھی
ع / مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں محب گرامی مولانا غلام یزدانی رضوی سعدی کٹیہاری شیخ الادب نوساری گجرات جنہوں نے انتہائی محنت و مشقت اور جانفشانی و عرق ریزی سے نحومیر کی ایسی مفید و بصیرت افروز شرح کو منظر عام پر لا کر طالبان علوم نحو یہ پر احسان عظیم کیا اور نحومیر کی تدریس کو جدید اسلوب و منہج پر ڈھال کر ہند و پاک کے سنی حنفی علماء کو بھی ایک فرض کفایہ کی ادائیگی سے سبکدوش کیا - موصوف کو اس انحطاط علمی کے زمانے میں اس عظیم علمی خدمت اور عظیم کارنامہ پر جتنا سراہا جائے کم ہے -موصوف کے اس کارنامہ کو دیکھ کر شاعر کا یہ شعر ذہن میں گردش کر رہا ہے :
شعر : لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
میں مدارس اسلامیہ کے باذوق طلبہ اور میدان تدریس میں نو وارد اساتذہ سے خیر خواہانہ گزارش کروں گا کہ وہ اس کتاب سے استفادہ کر کے اپنی نحوی لیاقت و صلاحیت کو مضبوط کریں اور اس میں نکھار پیدا کریں
( مولانا، الحاج )
نوشاد عالم اشرفی جامعی کشن گنجوی استاذ جامع اشرف کچھوچھہ شریف
بتاريخ 5 / فروری 2024 ء مطابق 23 رجب 1445 ھ بروز پیر -
0 تبصرے