*امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی فقہی بصیرت*
*خامہ فرسائی:* محمد شاداب رضا عؔروج مصباحی
*جنرل سکریٹری:* تحریک دعوت و اصلاح،پورنیہ
*رابطہ نمبر:* 8953908662
خلاق کائنات نے مسائل شرعیہ کی عقدہ کشائی کے لیے اس خاکدان گیتی پر ائمۂ کرام کی مقدس جماعت کو وجود بخشا ۔ اس مقدس گروہ نے امت کی رشد و ہدایت میں کوئی کمی نہیں رکھی۔صبح قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل دینیہ کے حل کے لیے ایسے ضابطے بیان فرما دیے جن کی روشنی میں بعد کے علمائے ذوی الاحترام نوپید مسئلوں کی وضاحت فرما کر امت مسلمہ کو کلفت سے نجات دلا سکتے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ دِلا رہے ہیں۔
مجتہدین ائمۂ کرام جن کی امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ و السلام تقلید کرتی ہے وہ کل چار ہیں: (١) کاشف الغمہ، سراج الامۃ،امام الائمہ، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت(٢)امام محمد بن ادریس شافعی(٣)امام مالک بن انس (٤)امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ۔ امام اعظم کی تقلید کرنے والے اپنے آپ کو'' حنفی'' امام محمد بن ادریس شافعی کی تقلید کرنے والے ''شافعی'' امام مالک بن انس کی تقلید کرنے والے'' مالکی'' اور امام احمد بن حنبل کی تقلید کرنے والے خود کو '' حنبلی'' کہلاتے ہیں۔
اس مختصر سی تحریر میں'' امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کی فقہی بصیرت'' پر خامہ فرسائی کی کوشش ہوگی۔ ان شاء اللہ المولیٰ تعالیٰ
کاشف الغمہ، سراج الامہ،امام الائمہ، رئیس المحدثین امام اعظم ابو حنیفہ کا اسم گرامی"نعمان'' والد بزرگوار کا اسم مبارک '' ثابت'' ہے ۔ آپ شہر کوفہ میں ٨٠ ھ میں اس دار فانی پر جلوہ فگن ہوئے۔ آپ فارسی النسل ہیں، آپ کی کنیت'' ابو حنیفہ'' ہے۔ ابو حنیفہ کنیت ہونے کی علما و محققین نے مختلف وجوہات بیان فرمایا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ عنہ نے بڑی نفیس توجیہ بیان فرمائی ہے ارشاد فرماتے ہیں: حنیف اوراق کو کہتے ہیں چوں کہ سراج الائمہ سیدنا امام اعظم علیہ الرحمہ کو شروع ہی سے لکھنے کا بہت شوق تھا لہذا آپ کو ابو حنیفہ یعنی اوراق والے کہا گیا ۔
*امام اعظم کی ذہانت:* خدائے بزرگ و برتر نے امام اعظم علیہ الرحمہ کو ذہن ثاقب سے نوازا تھا آپ ذہین و فطین ہونے کے ساتھ ساتھ مستحکم حافظہ کے مالک تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ سے بطور آزمائش کسی شخص نے سوال کیا: کہ ایک ایسا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے جنت کی کوئی امید نہیں، میں مردار کھاتا ہوں، نماز میں رکوع و سجدہ نہیں کرتا، میں اس چیز کی گواہی دیتا ہوں جسے آج تک میں نے دیکھا ہی نہیں، حق سے نفرت کرتا ہوں اور فتنے سے محبت کرتا ہوں۔ امام اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اس کا کیا جواب ہے؟ استفسار کرنے پر بعض شاگرد نے کہا: وہ تو کافر ہوگیا، بعض نے سکوت اختیار کیا پھر آپ نے اس گفتگو کو حسین پیرائے میں سلجھایا اور فرمایا: یہ شخص جنت کی امید نہیں رکھتا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر امید رکھتا ہے، اور جنت سے اللہ کی محبت اور امید بڑھ کر ہے، وہ مردار کھاتا ہے یعنی مچھلی ذبح کیے بغیر کھاتا ہے، اور بغیر رکوع و سجدہ کے نماز پڑھتا ہے یعنی نماز جنازہ ادا کرتا ہے، جس میں رکوع و سجدہ نہیں ہوتا، وہ بنا دیکھے گواہی دیتا یعنی اس نے اللہ رب العزت کو نہیں دیکھا مگر پھر بھی اس کی گواہی دیتا ہے_ یا اس سے اس کی مراد قیامت ہے جسے بغیر دیکھے وہ اس کی گواہی دیتا ہے، وہ حق سے نفرت کرتا ہے یعنی وہ موت سے نفرت کرتا ہے کیوں کہ موت حق ہے، وہ فتنہ سے محبت سے کرتا ہے یعنی مال اور اولاد سے محبت کرتا ہے جسے قرآن نے فتنہ کہا ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کر وہ سائل جس نے بغرض امتحان سوال کیا تھا لاجواب ہو کر کھڑا ہوگیا اور آپ کے سر اقدس کو چوم کر گویا ہوا: حضور آپ واقعی علم کے سمندر، بڑے ذہین و فطین اور ہوشیار ہیں۔ میں آپ کے متعلق جو خیالات و رجحانات رکھتا تھا آپ کے روبرو ان تمام چیزوں سے آپ کی بارگاہ میں رجوع لاتا ہوں۔
*امام کا تقویٰ:* امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ علم و فضل میں بے مثال، وحید دہر اور یکتائے روزگار ہونے کے ساتھ زہد و ورع، تقویٰ و پرہیزگاری اور عبادت و ریاضت وغیرہ میں بھی اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔ آپ ہر مشکوک چیز سے اجتناب فرماتے تھے، اماموں کا سردار ہو کر بھی رزق حلال کی خاطر کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے، دین کے معاملہ میں آپ کافی محتاط تھے۔ ایک بار کوفہ میں کسی کی بکری گُم ہوگئی تو امام اعظم علیہ الرحمہ نے کمال تقویٰ کے سبب سات سالوں تک بکری کا گوشت نہیں کھایا کہ کھیں اس بکری کی کوئی بوٹی حلق کے اندر نہ چلا جائے۔ سات برس کی تقئید کا لحاظ اس لیے فرمایا کہ ایک روایت کے مطابق بکری کی عُمر طبعی سات برس ہے۔
*فقہی بصیرت:* امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مختلف علوم و فنون بالخصوص فقہ و اجتہاد میں کامل دسترس رکھنے کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں فائق و ممتاز تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے خدا داد صلاحیتوں سے ایسے پیچیدہ اور لا ینحل مسائل کی عقدہ کشائی فرمائی جن پر کچھ کلام کرنے سے ائمۂ مجتہدین عاجز و قاصر تھے۔
امام ابن حجر مکی نے اپنی تصنیف'' الخیرات الحسان'' :ایک واقعہ قلم بند کیا ہے جس سے بآسانی امام اعظم کی فقہی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابن حجر مکی فرماتے ہیں: ایک دفعہ امام اعمش اپنی زوجہ سے ناراضگی کی حالت میں یہ کہہ بیٹھے کہ تمہاری طرف سے قولی یا تحریری طور پر آٹا ختم ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تو تجھے طلاق۔ امام اعمش کی اہلیہ کافی پریشان ہوگئی کہ امام نے یہ کیا کہہ دیا؟ اب کیا ہوگا؟ اسی اثنا کسی نے ان کی رہنمائی امام اعظم علیہ الرحمہ کی طرف کی، پھر کیا تھا وہ چار و ناچار بارگاہ امام میں پہنچی اور سارا قصہ سُنا ڈالا۔ کاشف الغمہ، سراج الامہ نے فرمایا: اس کا حل تو بہت آسان ہے۔وہ عرض کرنے لگی حضور! وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: جب آٹا ختم ہوجائے تم ان کے ازار کے ساتھ آٹا کا خالی تھیلہ باندھ دینا وہ از خود محسوس کرلیں گے کہ آٹا ختم ہوگیا ہے۔ چناں چہ صبح تڑکے جب امام اعمش شلوار پہننے لگے تو انھیں ازار سے لپٹی ہوئی کوئی چیز محسوس ہوئی، جب دیکھا تو آٹا کا خالی تھیلہ تھا، انھیں معلوم ہوگیا کہ گھر میں آٹا ختم ہوگیا ہے۔ یہ کیفیت دیکھ کر امام اعمش نے ساختہ پکار اٹھے کہ باخدا یہ ترکیب امام اعظم کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی۔ وہ جب تک رہیں گے ہمیں یونہی شرمندہ کرتے رہیں گے۔ یہ تھی امام اعظم کی فقہی بصیرت کہ بڑے بڑے ائمہ بھی ان کی عظمت اور شان فُقاہت کا کُھلے دل سے معترف تھے۔
علما فرماتے ہیں"جو مسئلہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور طے نہ ہو لیا قیامت تک مضطرب ہی رہے گا"۔
(فتاویٰ رضویہ قدیم جلد: ٥،صفحہ: ٤٧٤)
خدا ہی جانے تمھارا رتبہ ہے کتنا اونچا امام اعظم
سبھی اماموں نے تم کو اپنا، امام مانا امام اعظم
اگر ثریا پہ علم ہوتا، اسے بھی پالیتا ابن فارس
تمھی ہو مصداق اس بشارت کے، میرے آقا امام اعظم (مولانا محمد قاسم ادروی)
0 تبصرے