شب برات عظمت و رفعت والی رات
اللہ رب العزت اپنے بندوں پر کس طرح اور کیسی کیسی نوازشات عنایات فرماتا اس کا اظہار قرآن پاک کی اس آیت سے بھی ہوتا ہے"بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) ایک بابرکت رات میں اتارا ہے" اللہ رب العزت نے اپنے بندے کی مغفرت اور بلند درجات کے لئے کتنا اہتمام کیا ہے؟اور کیسی عنایات اور نوازشات عطافرمایا ہے۔اسی نوازشات اور عنایات کی صورت میں ایک رات شب برات کی بھی رات ہے۔ اس رات کی اہمیت اور فضیلت کا قدرے جائزہ یہاں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رجب بیج بونے کا مہینہ ہے، شعبان آبیاری جبکہ رمضان اس کا پھل کھانے کا مہینہ ہے۔
شب برات کے کچھ نام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مکاشفہ القلوب میں اس طرح درج فرمائے ہیں۔لیلۃ التکفیر (گناہوں کی معافی کی رات)شب حیات ،شب مغفرت ، شب آزادی، لیلۃ الشفاعۃ،لیلۃ القسمہ و التقدیر (تقسیم اور تقدیر کی رات)اسی طرح صاحب کشاف نے بھی ذکر کیا ہے۔یہ رات اس اعتبار سے بھی عظیم المرتبت ہے ۔
جسار کہ ارشاد ربانی ہے"بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) ایک بابرکت رات مں اتارا ہے۔"
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں لیلۃالمبارکۃ (بابرکت رات) سے مراد کون سی رات ہے۔ اس بارے علماء کرام کے دو اقوال ہیں۔ صاحب ضاء القرآن نے دو اقوال اسی آیت کے تحت نقل کئے ہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، قتادہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃالقدر ہے کونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔حضرت عکرمہ اور ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ پندرہ شعبان کی رات تھی۔
اسی طرح صاحب خزائن العرفان رقمطراز ہیں:اس رات سے مراد شب قدر مراد ہے یا شب برات۔ اس شب میں قرآن پاک بتمام لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گار۔ پھر وہاں سے حضرت جبرائل علیہ السلام تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑاتھوڑا لے کر نازل ہوئے۔ اس شب کو شب مبارکہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس مں قرآن پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔
شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمامِ عبادت پر احادیثِ مبارکہ نقل کررہے ہیں۔ جو اس رات کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں ، بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ان میں حضرت سدنا ابو بکر صدیق، سدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم کے نام شامل ہں ۔ سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا
’’جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے توﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس دن روزہ رکھا کرو، بے شکﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیاپر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں ( اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافت دوں؟ کوئی ایسا نہیں؟ کوئی ویسا نہیں ؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات مں نے رسول اللہ صلی اللہ علہا وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) نہ پایا پس میں آپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقع میں تشریف فرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کا : یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے سوائے دو لوگوں کے سخت کینہ رکھنے والا اور قاتل۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ مشرک اور بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہواکہ شب برات کی رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کس طرح رحم و کرم اور مغفرت و عنایات کی بارش فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت کی خاطر اپنے رحم و کرم کا دروازہ کیسے کھولتا ہے۔ اورﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیاپر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ مں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں ؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔
شب برات یقینا اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم رات ہے ۔بندے کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان نوازشات کی برسات میں اپنے تمام صغائر و کبائر گناہوں کو دھل لے ۔ اورانسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے۔ اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوش پر ہوتی ہے اور اپنے گناہگار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لے بے قرار ہوتی ہے لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
0 تبصرے