فہم و تدبر
کنزالایمان کا ایک امتیازی پہلو فہم و تدبر ہے ۔ اہل علم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کتبِ لغت قرآن حکیم کے الفاظ کے معنی سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ان سے مختلف الفاظ مادہ ہائے اشتقاق کا پتہ چلتا ہے اور ان کے اطلاعات کی خبر ملتی ہے۔ کتب فقہ سے مسائل فقہ پر آگہی ملتی ہے۔ اسی طرح کتب تفاسیر قرآن علوم معارف اور اسرار و غوامض کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ غرض کے انسان کو مختلف مسائل میں مختلف کتب سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اعلی حضرت کے ترجمہ کنزالایمان میں فہم و تدبر کا وہ عالم ہے کہ وہ علوم و معارف اور مطالب و معانی جو تفسیر کے ان گنت اوراق پر بکھرے پڑے ہیں کنزالایمان کے ایک ایک لفظ میں سمو دئیے گئے ہیں۔ وہ فقہی مسائل جن کے لیے بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اعلی حضرت کے ترجمہ نے کمال اختصار کے ساتھ انہیں اپنے اندر سمولیا ہے۔کسی طرح وہ لغوی مباحث اور مختلف اشتقاقات جن کے لیے لغت کی کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے کنزالایمان کا ایک ایک ان بحثوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کنزالایمان پڑھنے کے بعد نہ تو قاری کو متعلقہ مسائل میں کتب فقہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی لغت یا کتب تفسیر کی حاجت۔
کنزالایمان میں فہم و تدبر کے پہلو کا مشاہدہ کرنے کے لیے قرآن حکیم کی ان آیتوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔" یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا " اس آیت میں دو لفظ لغوی اعتبار سے وضاحت طلب ہے ایک نبی اور دوسرا شاہد ، لفظ نبی کا اصطلاحی مفہوم بھی معروف و معلوم ہے اور لفظ شاہد کا اصطلاحی معنی بھی عیاں ہے۔ یعنی نبی خدا کے فرستادہ پیغمبر کو کہتے ہیں اور شاہد گواہ کو کہتے ہیں۔ لیکن نبی کو نبی کہتے کیوں ہیں؟لفظ نبی کا مادہ کیا ہے؟ اور اس کے معنی کا اطلاق نبی پر کیوں کر ہوتا ہے؟اسی طرح شاہد گواہ کہلاتا ہے کس لیے ہے؟ یہ تفصیلات وضاحت طلب تھی۔
اعلی حضرت نے نبی کا معنی" اے غیب بتانے والے( نبی)"۔اورشاہد کا معنی "حاضر و ناظر" کیا ہے۔ آپ نے دونوں لفظوں کا ترجمہ اس انداز سے کیا ہے کہ ان کی لغوی اعتبار سے وضاحت بھی ہوگی اور اصطلاحی معنی بھی سمجھ میں آ گیا۔ "نبی" کا معنی غیب بتانے والا نبی کرکے آپ نے وضاحت کر دی کہ نبی کو نبی کہا کس لئے جاتا ہے۔یہ وضاحت کسی اور مترجم نے نہیں کی تھی اور کسی مترجم کا ذہن ترجمہ کرتے وقت بطور خاص اس لفظ کے لغوی پہلو کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ نبی "نبا" سے مشتق ہے جس کا معنی خبر ہے اور نبی فعیل کے وزن پر صفت مشبہ ہے جس کا معنی ہے ہمیشہ خبر دینے والا۔ خبر تو ٹیلی ویژن بھی دیتا ہے اخبار اور رسالہ بھی دیتا ہے ویسے بھی مختلف ذرائع سے خبریں انسان کو ملتی رہتی ہیں لیکن ان ذرائع پر لفظ نبی کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ جو خبریں نبی دیتا ہے وہ دیگر ذرائع نہیں دے سکتا۔ نبی علم غیب کی خبریں دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا ہوگا۔ " ذلک من انباء الغیب نوحیھا الیک"یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔
گویا نبی کو نبی کہا اس لئے جاتا ہے کہ اس کے پاس غیب سے خبر آتی ہیں پھر یہی نہیں کہ کہ غیب کی خبریں دیتا ہے بلکہ فرمایا گیا "وما ھوا علی الغیب بضنین" یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ یعنی اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حقیقت دریافت کی جاتی ہے بے نقاب کر کے رکھ دیتا ہے۔ اور کبھی بخل سے کام نہیں لیتا بلکہ اس کا تو اعلان ہے کہ" سلونی عما شئتم" پوچھ کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ غرض کہ اس بارگاہ سے کسی کا سوال تشنہ جواب نہیں رہتا ۔کیونکہ دونوں عالم کے غیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آشکار تھےاس لئے فرمایا گیا "یاایھا النبی" غیب بتانے والے نبی۔
اسی طرح لفظ شاہد کا معنی عام طور پر گواہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی درست ہے لیکن محض مرادی معنی ہے حقیقی نہیں۔ اس کا مصدر شہود ہے۔امام راغب اصفہانی شہوت کا معنی بیان کرتے ہیں کہ "الحضور مع المشاھدۃ اما بالبصر او بالبصرۃ"حاضر ہونا مشاہدہ کے ساتھ خواہ ظاہری آنکھ سے خواہ دل کی آنکھ سے۔
گویا شاہد کا اطلاق ایسے شخص پر ہوتا ہے جو بربنائے مشاہدہ کسی مقام پر حاضر موجود پایا جائے۔ مثلا ایک مقرر جو وجود کے اعتبار سے اسٹیج پر حاضر ہوتا ہے لیکن مجمع کی آخری صف کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے مشاہدے کی بنا پر وہاں تک حکما حاضر تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایک نابینا شخص جو کسی واقع کو دیکھ نہیں سکتا جسمانی اعتبار سے حاضر و موجود ہونے کے باوجود حکما غیر حاضر ہی تصور ہوگا۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص موجود تو ہے بے شک کچھ فاصلے پر ہو لیکن واقعے کا مشاہدہ کر رہا ہو تو جہاں جہاں وہ ناظر ہوگا ۔ وہاں وہاں تک حکما حاضر ہوگا۔
محبوب خدا صلی اللہ علیہ و سلم وجودا بیشک گنبد خضرہ میں تشریف فرما ہیں لیکن مشاہدہ پوری کائنات کا فرما رہے ہیں۔ لہذا جہاں جہاں تک آپ ناظر ہیں وہاں آپ حاضر بھی ہیں اسی لئے تو فرمایا " انا ارسلناک شاھدا"کہا کہ پوری کائنات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر مشاہدہ وہ مطالعہ ہے۔
0 تبصرے