کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ "وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ" اعلی حضرت نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا " اور اکیلے ہو تو تم پر انگلیاں چبائیں غصہ سے تم فرمادو کہ مر جائیں اپنی گھٹنوں میں"اس آیت میں کفار کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کا بیان ہے اور خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اس مقام پر حسن ترجمہ کے جس پہلو کی نشاندہی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں لفظ غیظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اعلی حضرت نے اس مقام پر غیظ کا معنی غصہ کیا ہے۔اس لیے کہ عربی زبان میں شدید غصے کو کہتے ہیں۔ امام اصفہانی لکھتے ہیں کہ (الغیظ اشدغضب )غیظ شدید غصے کی حالت کا نام ہے ۔ آیت میں دوسرے مقام پر غیظ کا لفظ اس طرح استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہوا :- قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ"پیارے تم فرمادو کہ مر جائیں اپنے غیظ کے باعث ۔
دیگر مترجمین نے بلا استثناء دوسرے مقام پر بھی غیظ کا معنی غصہ ہی کیا ہے۔ کسی کا ذہن اس حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو سکا پہلے مقام پر لفظ غیظ شدید غضب کی نشاندہی کر رہا ہے۔ جب کہ دوسری جگہ یہی لفظ طبیعت کی اس گھٹن پر دلالت کر رہا ہے۔ جو شدید غصے کی بنا پر پیدا ہو جاتی ہے۔
اعلی حضرت نے موتو بغیظکم کا ترجمہ کیا ہے " مر جائیں اپنی گھٹن میں" مفردات کا مطالعہ کیا گیا تو اس میں غیظ کا ایک معنی تو شدید غضب ہی نظر آیا لیکن دوسرا معنی یہ ملا کہ " امساک النفس عند اعتراء الغیظ" یعنی جب شدت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے نتیجے میں طبیعت میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے ۔اس حال میں کہ انسان نہ کچھ کرسکتا ہے اور نہ خاموش رہ سکتا ہے ۔تو اس ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بھی غیظ ہیں کہتے ہیں۔ پہلا غیظ سبب ہے جبکہ دوسرا اس کا نتیجہ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر اعلی حضرت نے پہلے مقام پر غیظ کا ترجمہ کیا کہ یہ سبب تھا اور دوسرے مقام پر غیظ کو نتیجے سے تعبیر کیا کہ یہ مسبب تھا۔
مترجمین کی پوری صف میں یہ شرف و کمال اور انفرادیت صرف اعلی حضرت فاضل بریلوی کے ترجمے میں نظر آتا ہے۔ آپ نے ایک آیت میں استعمال ہوتےایک ہی لفظ کا دو مختلف مقامات پر اس طرح واضح کیا ہے کہ لغت کی باریکیوں کا لحاظ بھی تمام و کمال ملحوظ رہا اور آیت کا مفہوم واضح ہو گیا۔
اسی طرح اس آیت میں ایک لفظ عضوا استعمال کیا گیا ہے۔یہ لفظ بھی قابل توجہ ہے تمام مترجمین نے عضوا علیکم الانامل" کا معنی "وہ غصے سے انگلیاں کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں" کیا ہے حالانکہ اس کا معنی انگلیاں کاٹ کاٹ کر کھانا نہیں بلکہ انگلیاں چبانا ہے۔ حضرت وہ واحد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے قرآن کے مقصد اور مراد کو کمال خوبی کے ساتھ واضح کرتے ہوئے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے۔" اکیلے ہو تو تم پر انگلیاں چبائیں" ان مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اعلی حضرت کے ترجمہ میں وہ شکوہ بھی دور کر دیا ہے کہ جو لفظی ترجمہ کے اسلوب سے پیدا ہوا تھا کے اس سے لفظوں کے معنی تو سمجھ میں آ جاتے تھے لیکن عبارت کا ربط مضمحل ہو جاتا تھا۔وہ شکایت بھی دور کر دی جو محض بامحاورہ ترجمہ سے پیدا ہوتی تھی ۔اعلی حضرت نے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کے درمیان ایک راہ اعتدال مقرر کردی جس سے نہ لفظی ترجمہ کی انتہا پسندی باقی رہی نہ بامحاورہ ترجمہ کی بلا مقصد لفاظی ۔
جاری۔۔۔۔
0 تبصرے