Header New Widget

حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ

سلسلہ اشرفیہ کے بانی حضرت قطب الاقطاب غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم سید اوحد الدین سلطان اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات گرامی گرچہ کسی رسمی تعار ف کی محتاج نہیں ہے ۔تاہم ان کے عرس سراپا قدس کے موقع پر زیر تحریر کو ہم ان کے ذکر خیر سے مشرف کرتےہیں۔

حضرت سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ کا شمار اپنے وقت کے ان ممتاز صوفیا اور اولیائے کرام میں ہوتا ہے،جنہوں نے اپنی فکری ، روحانی اور صوفیانہ تعلیمات سے اسلام و سنّیت کو بے پناہ فروغ دیا اور کفر و شرک میں مبتلا افراد کو تصوف و روحانیت کے ذریعہ جادۂ حق پر گامزن کیا۔آپ اپنے عہد کے ایک متبحرعالم ، مثالی صوفی ، درویش کامل اور ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ آپ ایک شاہانہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور خود خراسان کے شہر سمنان کے حکمراں تھے ، لیکن دنیاوی تخت و تاج کو ٹھوکر مار کر درویشانہ اورفقیرانہ زندگی اختیار فرمائی اور تا عمر اسلام و سنّیت کی نشر و اشاعت اور قوم و ملت کی گراں بہاخدمات کا اہم فریضہ سر انجام دیتے رہے۔آپ کی حیاتِ مبارکہ کے روشن و تابناک پہلووں سے ظاہر ہے کہ آپ نے علم و تحقیق ، وعظ و نصیحت اور تصوف و طریقت کے میدانوں میں ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں،جس سے آپ کی ہمہ جہت اور بلند قامت شخصیت کا خوب سے خوب تراندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت محبوب یزدانی کے والد محترم حضرت سید محمد ابراہیم سمنانی (خراسان )کے حاکم تھے۔جن کا شجرہ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے واسطے حضرت علی مشکل کشا کرم اللہ وجہ سے ملتا ہے جبکہ آپ کے والد ہ محترمہ کا اسم گرامی خدیجہ تھا،جو معرف صوفی بزرگ خواجہ احمد یسوی کی اولاد سے تھیں۔

ولادت باسعادت

آپ کی ولادت باسعادت آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں سمنان میں ہوئی۔آپ کی ولادت کی خوشخبری آپ کے والدین کو سمنان کے حضرت ابراہیم شاہ نامی ایک مجذوب نے دی تھی۔چونکہ آپ کو والدین کے ہاں دو تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں اور پھر آٹھ یا بارہ برس تک کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی،جس کے باعث دونوں متفکر رہتے تھے۔کہ ایک روز مذکورہ بزرگ آپ کے گھر تشریف لائے۔آپ والدین متعجب ہوئے کہ محل میں اتنا سخت چوکی اور پہرہ ہے پھر یہ کیسے اندر تشریف لے آئے؟تاہم آپ کی خدمت میں بجالائے ، اور اللہ کے بندے نے آپ کو بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا مبارک فرزند عطاکرےگا جس نقش مقدس سے ایک عالم فیض ہوگا۔

تعلیم و تربیت

جب آپ چار سال ، چار ماہ اور چار دن کے ہوئے تو خاندانی روایات کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز کیا گیا۔اس روز دربارشاہی میں جلسہ شادی  وشادمانی منعقد ہوا، تمام شہر اور چار باغ سلطانی میں آیئنہ بندی کی گئی۔

طرح  طرح کے عمدہ فرش اور قالین بچھائے گئے اور مسند شاہانہ بچھا ئی گئی ، حضرت مولانا عماد الدین تبریزی نے بسم اللہ کرائی اور ابجد پڑھائی۔

آپ چودہ سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم معقول منقول سے فراغت حاصل کرلی۔قرآن کریم کی ساتوں قراءتوں کو کے حافظ تھے لیکن تصوف و عرفان سے انہیں قلبی و روحانی ارتباط تھا ، یہی ذوق انہیں کشاں کشاں حضرت خواجہ علاوالدولہ سمنانی کی خدمت میں لے گیاجواپنے دور کے معروف صوفی تھے،آپ اکثر ان کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔

تخت و حکومت

اپنے والد محترم سید محمد ابراہیم کے اس دارفانی سے رحلت کے بعد سترہ سال کی عمر میں ریاست سمنان کے وارث بنے اور تخت حکومت پر متمکن ہوئے مگر چونکہ ان کا طبعی میلان فقر و درویشی کی طرف تھا ،اس لئےتھوڑے ہی عرصے کے بعد حضرت خضر علیہ السلام کی ترغیب سے اپنے بھائی اعرف محمد کو تخت حکومت سپرد کر کے سلطنت سے دستبردار ہوگئے۔

مسافرت ہندوستان

تخت سے دستبرداری کے بعد آپ ہندوستان کی طرف چل پڑے۔گھڑ سوار اور پیادہ فوج کچھ دور ت آپ کے ہمرکاب تھی ، لیکن آپ نے انہیں بالآخر واپس لوٹا دیا۔اور تنہا سفر اختیار کیا ، یہاں تک کہ ایک موقع پر اپنا گھوڑا بھی کسی ضرورت مند کو دے دیا اور پیدل سفر جاری رکھا۔ملتان کے راستے اچ شریف پہنچے ۔حضرت سید جلال الدین بخاری المعروف مخدوم جہانیاں جہانگشت سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے فرمایا'' ایک مدت کے بعد خوشبوئے طالب صادق میرے دماغ میں پہنچی ہے اور ایک زمانے کے بعد گلزار سیادت سے نسیم تازہ چلی ہے ۔فرزند مردانہ راہ میں نکلے ہو،مبارک ہو''۔

حضرت جہانیاں جہاں گشت نے آپ کو مقامات فقر سے بہت کچھ عطاکیا اور فرمایا''جلد پورب ملک بنگال کی طرف جائیے کہ برادم علاؤالدین گنج بنات قدس سرہ آپ کے منتظر ہیں ، خبردار ! خبردار!کہیں راستے میں زیادہ نہ ٹھہریئے''۔جب آپ سلاؤسے بہار شریف کی طرف گئے وہاں آپ نے حضرت شیخ یحیٰ منیری قدس سرہ کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہوں نے جو تبرکات چھوڑے تھے وہ لے لئے۔

بیعت طریقت

حضرت خضر علیہ السلام کی ترغیب سے تخت و حکومت کوچھوڑ ا ۔آپ کی روحانی تربیت شروع سے ہی حضرت خضر علیہ السلام نے اور بعد ازاں روحانی پاک اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے آپ کو اذکاراویسیہ سے مشرف فرمایا۔اور پھر جب حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی قدس سرہ اچ شریف سے دہلی اور بہار کا سفر طے کرتے ہوئے مقام جنت آباد پنڈہ شریف پہنچے تو آپ کے مرشد کریم حضرت شیخ علاؤالدین گنج نبات مع خلفاء و مریدین آپ کے استقبال لے لئے شہر سے چار کوس باہر تشریف لائے ہوئے تھے۔اور حضرت محبوب یزدانی کو اپنی پالکی میں سوار کر کے اپنی قیام گاہ تک لے گئے اور فرمایا:"اے فرزند ! جس دن سے تم تارک السلطنت ہوکر گھر سے نکلے ہو ہر منزل میں تمہارا نگراں تھا ، اور مواصلت ملاقات ظاہری کی تمنا رکھتا تھا ۔ الحمدللہ کہ جدائی مواصلت سے بدل گئی "۔

جب علاؤالدین گنج بنات نے آپ کو بیعت فرمای اور سلسلہ طریقت چشتیہ نظامیہ میں داخل کر لیا اور اپنے حجرہ خاص میں لے جاکے ایک پہر کامل تنہائی میں تمام اسرار و رموز سے مالا مال کردیا۔

حضرت محبوب یزدانی کا سلسلہ طریقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے اس طرح ملتاہے:۔

حضرت خواجہ محبوب یزدانی سید اشرف جہاں گیر سمنانی قدس سرہ(م808ھ)

حضرت خواجہ شیخ علاؤالدین گنج نبات قدس سرہ(م800ھ)

حضرت خواجہ عثمان اخی سراج الحق آئینہ ہند قدس سرہ(م858ھ)

حضرت خواجہ سلطان امشائخ نظام الدین اولیاء محبوب الہی قدس سرہ(م725ھ)

مسافرت جہان و حج بیت اللہ شریف

آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان "سیروا فی الارض"کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔ آپ نے ہندوستان ، ایران،روم، عراق، ترکی، دمشق اور ممالک عرب کے تمام شہروں کا سفر کیا اور دو باہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔ ہندوستان کے طول عرض میں گھومے اور راہ گم کردہ لوگوں کر صراط مستقیم دکھا تے رہے۔ تبلیغ دین اور اصلاح و فلاح انسانیت کا فریضہ آپ نے بطریق احسن ادا کیا ۔ بالآ خر فیض آبادسے 35 میل کے فاصلے پر روح آباد (کچھو چھہ شریف) میں آکر مقیم ہوگئے۔

تصانیف

حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی تصانیف علم و عرفان کا خزینہ ہیں ان میں تین کتابیں خاص طور پر معروف ہیں ۔لطائف اشرفی ،بشارت المریدین (رسالہ قبریہ)،اور مکتوبات اشرفی۔

مکتوبات اشرفی :حضرت عبدالرزاق نور العین  رحمۃ اللہ علیہ 869ھ/ 1465 ء میں جمع کی ان مکتوبات کاایک قلمی نسخہ مسلم یونیور سیٹی علی گڑھ لائبریری میں موجود ہے ۔ایک اور نسخہ پاکستان میں شہداد پورمیں مدرسہ ضعیف الفیض کے کتاب خانے میں محفوظ ہے ۔

بشارت المریدین (رسالہ قبریہ)

یہ رسالہ حضرت یزدانی نے وصال سے دودن پہلے اپنی قبر مبارک میں بیٹھکر مریدین و معتقدین کی بشارت کے لئے تحریر فرمایا تھا۔اس کا اردو ترجمہ جناب سید تجمل حسین صاحب نے کیا ہے ۔جوکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں شائع ہوچکا ہے۔

لطائف اشرفی

لطائف اشرفی نہایت ہی علمی ، تحقیقی اور مستند کتاف ہے ۔یہ کتاب حضرت محبوب یزدانی کے ملفوظات اور ارشادات و کمالات وفضائل پر مبنی ہے ، جسے ان کے مرید خاص حضرت نظام الدین یمنی المعروف نظام حاجی غریب یمنی نے مرتب کیا۔وہ آپ کی خدمت میں مسلسل تیس سال تک رہے۔اور آپ کے سنہری اقوال و ارشادات کو جمع و ترتیب دین کے بعد آپ کی  خدمت اقدس میں پیش کیا ، جس کی آپ نے ؔاصلاح تصحیح فرمائی بعد ازاں یہ مستقل طور پر کتابی شکل میں منصہ شہود پر جلوہ بار ہوئی یہ کتاب دو بار طبع ہوچکی ہے ، پہلے بار مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی علیہ الرحمہ نے 1295ھ میں نصرت المطابع دہلی سے طبع فرمائی جوکہ  900 صفحات پر محیط ہے۔یہ حضرت کی سوانح عمری بھی ہے اور ان کی تعلیمات کا آئینہ بھی۔اس میں کہیں تصوف کی اصطلاحات ہیں کہیں ذکر و فکر کی تفصیلات ہیں، کہیں صوفیانہ غوامض پر مباحث ہیں ،کہیں صوفائے کرام کے مختلف خانوادوں کی مختصر تاریخ ، کہیں نبی کریم ﷺ ، آل نبی ﷺ ،خلفائے راشدین ،ائمہ کبار اور صوفیہ کے حالات ہیں اور کہیں صوفی شعراءن پر دلچسپ تبصرہ ہے۔غرض کے اسے تصوف کی ایک قاموس کہا جائے تو بے جانہیں ہوگا۔یہ اس عہدکی علمی ، دینی اور عرفانی تاریخ بھی ہے اور بزرگان دین کا تذکرہ بھی ہے ۔بہر حال اپنے موضوع کی منفرد اور لاجواب کتاب ہے۔ بقیہ تصانیف کے لئے ملاحظہ ہو صحائف اشرفی مصنف محمد علی حسین اشرفی میاں ۔

مرتبۂ ولایت

حضرت غوث العالم صوفیائے کرام میں امام السالکین، برہان العاشقین، قطب الربانی، غوث الانام اورمحی الاسلام کے القاب سے یاد کئے جاتے ہیں۔”لطائف اشرفی“ کے مؤلف حضرت نظام الدین یمنی رحمتہ اللہ علیہ نے”قدوۃ الکبریٰ“ کا لقب استعمال کیا ہے۔صاحب”اخبار الاخیار“ رقم طرازہیں:۔”از کامان است صاحب کرامات وتصرفات“یعنی وہ صاحب کشف وکرامات اور اولیائے کاملین میں سے تھے۔خزینۃ الاصفیاء میں ہے:۔”از عظمائے اولیائے وکبریٰ اتقیائے خطّۂ ہندوستان است“یعنی ہندوستان کے بزرگ ترین اولیائے کرام اوربڑے متقیوں میں آپ کا شمار ہوتاہے۔”مرأۃ الاسرار“ کے مصنف لکھتے ہیں:۔
”آن سلطان مملکت الدنیا و الدین آں سرحلقۂ عارفانِ اربابِ علم و یقين آں محب و محبوبِ خاص ربانی غوث الوقت حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ از بینظیرانِ روزگاربود وشان بغایت رفیع وہمتے بلند وکرامت وافر داشت“

ترجمہ: آپ دین دنیا کے تاجدار اربا بِ علم ویقین و صوفیائے کرام کے سردار اور اللہ کے محبوبِ خاص غوثِ وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدّس سرہ النورانی یکتائے روزگار اور عالی ہمت اور بلندمرتبہ بزرگ تھے۔ اور بے شمار کرامات آپ سے ظاہر ہوئیں۔

مرأۃ الاسرار گلزار ابرار“ کے مصنف محمدغوثی نظامی تحریر فرماتے ہیں

کشف و کرامات اور منازل و مقامات کے آپ مالک تھے۔ آپ کے بیان سے عرفان کا آبِ حیات بہتاتھا اور آپ کے دل سے شوق و محبت کے آگ کے شعلے اٹھتے تھے۔آپ سمنان کے تاجدار تھے؛ لیکن عشق الٰہی سے سرشار ہوکر اشاعت اسلام اورتبلیغ دین کی خاطر آپ نے تاج شاہی کو اتار دیا۔ اورتخت وسلطنت کو ٹھوکر مار دیا۔یہ ترکِ سلطنت بھی ایک کرامت ہے۔ چنانچہ مخدوم الملت حضرت محدثِ اعظم ہند کچھوچھوی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:۔

ترکِ سلطنت ایک خرقِ عادت اور کرامت ہے اور بشریت کی قوت سے بالاتر ہے اس کے لیے اس بر گزیدہ ہستی کی ہمّت درکار ہے جس کی جہانگیری کا آوازہ ملاء اعلی میں بلند ہو چکا ہو اور جس کاطائر ہمّت عرش پر پرواز کر رہا ہو اور افواج قدس جس کی نگہبانی کر رہی ہو اورقلعۂ ولایت جس کی حفاظت کے لیے ہو،قصر قطبیت اس کامسکن ہو اورخزانۂ کرامت پراس کا اقتدارہو، تخت اقتدار جس کا پامال ہو، اورتاج غوثیت جس کے سر پر جگمگا رہا ہواور محبوبیت کاجامہ جس کے بدن پر زیب دیتاہو“۔

اوراسی کرامت کی تو ضیح ملک محمد جائسی کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:۔
درصدیقین امت محمدیہﷺ دو کس بسبب ترکِ سلطنت بر جمیع اولیاء اللہ فضیلت دارند اول سلطان التارکین خواجہ ابراہیم ادھم رضی اللہ عنہ دوم سلطان سیّد اشرف جہانگیرسمنانی یعنی امت محمدیہ ﷺ میں دو بزرگ ترک سلطنت کی وجہ سے تمام اولیاء الله پر فضیلت رکھتے ہیں ایک سلطان التارکین حضرت خواجہ ادھم رضی اللہ عنہ دوسرے سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی رحمتہ اللہ علیہ۔
آپ نے ترک سلطنت فرماکر اور اپنے رب کریم کی بارگاہ میں قربت حاصل کر کے وہ شہنشاہی حاصل فرمائی جس کی حیرت انگیز حکمرانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ آپ نے ایک ملک ظاہر کی سلطنت ترک فرمائی تو پرور دگار عالم نے سلطنت ظاہری اور باطنی دونوں کاتاجدار بنادیا۔ اور تمام عالم کو آپ کے قبضے اور تصر ف میں دیدیا، اب سلاطین زمانہ آپ کے خادم ہو گئے اور آپ سے طالب امداد ہوئے ؎
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کے ٹھوکرمیں زمانہ ہے
آپ کے روحانیت کی بشارت خود حضور سیّد عالم ﷺ نے آپ کے والد کودی۔ ابراہیم مجذوب نے آپ کی بزرگی و عظمت کا مژدہ سنایا۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے آپ کو راہِ سلوک کی تعلیم دی اور رہنمائی فرمائی۔ سلطان المرشدین حضرت شیخ علاء الحق رحمتہ اللہ علیہ آپ کے استقبال کے لیے پنڈوہ سے باہر آئے اور اپنے ہمراہ سواری پر خانقاہ میں لائے اور مرید کیا، اور اسی وقت خرقۂ خلافت عطاکردیا اور فرمایا کہ فرزنداشرف! تمہارے آنے کی خوشخبری حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے ستر باردی تھی اورسفرکی ہر منزل پرمیری روحانیت تمہارے ساتھ تھی۔
شیخ کبیرعباسی، شیخ صفی الدین ردولوی، مولانا اعلام الدین جائسی اور بہت سے لوگوں کو آپ کی ولایت کی خبر خواب میں ملی۔ اور بیداری کے بعد حاضر خدمت ہو کر
مرید ہوئے۔

جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت

آپ نے ایک سو نوّے (۱۹۰) اولیائے کرام سے شرف ملاقات اورنعمتیں حاصل فرمائیں اور اس کے علاوہ بیشمار اولیائے روز گار اور مشائخ کبارسے ملاقات فرمائی۔ آپ نے جملہ مقامات مقدسہ کی زیارت فرمائی،اور مختلف ممالک میں مزارات مشائخ اولیاء پرحاضری دی اور ان سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ آپ نے اجلۂ مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضری دی اور خرقہ و دیگر تبرکات حاصل کیے۔ اوربعض مشائخ کی خدمت میں چند دنوں رہے۔ اگر چہ آپ کو سلسلہ چشتیہ بہشتیہ میں بیعت خاص تھی؛ لیکن آپ نے جملہ سلاسل میں بیعت عامہ حاصل کی۔ اور ہر سلسلہ کے برکات سے مستفید ہوئے، سلسلۂ نقشبندیہ کی بیعت ونعمت تو خود صاحب سلسلہ شیخ الشیوخ خواجۂ خواجگان حضرت بہاء الدین نقش بند رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کوملی، سلسلۂ قادریہ وسہروردیہ کی بیعت ونعمت آپ کو حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرّہ العزیز سے حاصل ہوئی، آپ دوسری بار جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس مرتبہ آپ کو چودہ خانوادوں کی اجازت و خلافت عطافرمائی، اور جتنے مشائخ سے جوبقیدحیات تھے یا واصلِ بحق ہو چکے تھے ان کی روحانیت سے حضرت مخدوم جہانیاں کو جو نعمتیں حاصل ہوئی تھیں وہ سب آپ نے حضرت غوث العالم کو عنایت فرمادیں،یہی وجہ ہے کہ آپ نے جملہ سلاسل میں جس کو جہاں چاہا مرید فرمایا اور جوشخص سلسلۂ اشرفیہ میں مرید ہوا گویاوہ جملہ سلاسل میں مرید ہے

منصب غوثیت ومحبوبیت

آپ کے روحانی مقام کا یہ عالم ہے کہ صوفیائے کرام میں صرف تین ہستیاں ایسی گذری ہیں جو مقام محبوبیت سے سرفراز ہوئیں۔ اول محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ دوم حضرت شیخ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہ سوم محبوب یزدانی حضرت شیخ سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللہ علیہ۔ یہ ولایت کا ایک بلند مقام ہے، آپ محبوب یزدانی کے منصب بلند پر فائز ہوئے۔
لیکن منصب ولایت میں بلند ترین منصب مقام غوثیت ہوتا ہے، غوث ساری دنیا میں ایک وقت میں صرف ایک ہی ہوتاہے۔ اس سے پہلے جو غوث تھے وہ جبل فتح میں مقیم تھے۔ اور آپ نے جب جبل فتح کا سفر کیا تھاتوان سے ملاقات بھی فرمائی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ولایت کے اس بلند ترین مقام پرحضرت غوث العالم کا انتخاب ہوا۔ اور آپ”غوث زمانہ“ اور”غوث العالم“ ہو گئے۔

عام طور پرغوث پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی قبر بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ صرف چند ایسے غوث ہوئے ہیں جن کو خدا نے اپنی مرضی سے شہرتِ دوام عنایت فرمائی۔ انھیں میں ایک غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیّد اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی ذات گرامی بھی ہے۔ سچ ہے کہ یہ مرتبہ بلند ملاجس کو مل گیا

حضرت مخدوم اشرف سمنانی کی سادگی

حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ نے نہایت ہی سادہ، درویشانہ اور فقیرانہ زندگی گزاری اور خانقاہ میں بیٹھ کر لوگوں کے ظاہری و باطنی مسائل و معاملات کو حل کرتے رہے۔اس کے علاوہ فقیروں، محتاجوں، یتیموں اور تمام لوگوں کے حقوق و فرائض کا یکسر طور پر خیال رکھا کرتے تھے۔ اگر کوئی تہی دامن آپ کی خدمتِ با برکت میں چلا آتا تو وہ آپ کی بارگاہِ کرم نوازی سے اپنے دامن کو گوہرِ مراد سے بھر کر واپس لوٹتا۔ کوئی کیسا بھی حاجت مند آپ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوجاتا ، آپ اس کی تمام تر ضرورتوں کو پورا فرمادیا کرتے تھے۔ جب آپ با حیات تھے تو سائلین کی تمام تر حاجتیں اور ضرورتیں پوری فرمایا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام و انصرام فرمایا کرتے تھے۔ اور جب دنیا سے چلے گئے تو بھی قبرِ انور سے سائلین کی منہ مانگی مرادوں کو پورا کررہے ہیں۔آج بھی آپ کا آستانۂ عالیہ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی کے لیے کھلا ہوا ہے، جہاں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں اور اپنی آرزوئیں و تمنائیں بر لاتے ہیں۔یوپی کے معروف علاقہ کچھوچھہ شریف میں آپ کا مزارِ پْر انوار مرجعِ خلائقِ خاص و عام ہے۔

از قلم :۔ محمد معظم قادری جامعی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے