قرآن میں ہو غوطہ اے مرد مسلماں
قرآن پاک حضورﷺ کا زندہ جاوید معجزہ ہے ۔ یہ
دنیا کی واحد الہامی کتاب ہے کہ چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی اس کے ایک نکتے اور
زیر وزبر میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ ہمارے بزرگ قرآن پاک سے اس قدر رہمائی
لیتے تھے کہ کچھ کا کہنا ہے کہ اگر ان کی سوئی یا اونٹ بھی گم ہوجاتا تو اسے بھی
وہ قرآن کے صفحات میں تلاش کرتے ۔ ہمارے آباؤ اجداد نمے ایک ایک مسئلے کے حل کے
لئے سوسو بار قرآن کا مطالعی کیا اسی قرآن کی بنیاد پر مسلمانوں نے سائنس و
ٹیکنالوجی کو بھی فروغ دیا ۔ ہمارے دین کا کمال ہی ہی یہ ہے کہ یہ دین و دنیا میں
فرق نہیں کرتا ۔چنانچہ علامہ اقبال کہتے ہیں :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
مسلموںوں نے جب بھی قروں اولیٰ اور اس کے بعد
کئے ادوار میں امت مسلمہ کی عزت و آبرو کوا پر چم بلند کیا ، تو اس کے پیچھے مسلمانوں
کی روحانی اساس قرآن پاک ہی تھا ۔ قرآن پاک سے تعلق اور حضورﷺ کا عشق ، ادب اور
احترام ہی وہ بنیادی ستوں تھے کہ جن کی
بنائ پر امت ملسلہ ہمیشہ عزت و ؔآبرو اور فتح حاصل کرتی رہی۔۔آج جب ہم دوجبارہ
عروج کے حصول کی کوششیں کررہے ہیں تو یہ لازم ہے کہ ہم بھی قرآن پاک سے تعلق
جوڑیں۔ قرآن یکی وہ تشریح کریحں کہ نجو ایک عام انسان کو بندہ مومن بناتی ہے۔قرآن
کی وہ تفسیر کریں کہ جس پر عمل کرکے بندہ مومن کی اذاں میں وہ توثیر پیدا ہوتی ہہے
کہ جس شبستان و جوسد لرزتا ہے۔
ہمارے
بزرگوں کو کامل یقین ہتا تھا کہ انہیںان کے مسائل کا حل صرف قرآن میں ہی ملے گا ۔
جب وہ روحانی اساس قائم تھی کہ جس کی بنیاد قرآن اور حضورﷺ کی سیرت مبارکہ پر تھی
، تو یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلمان دنیا کے ہر کنے میں اللہ کے پیغام کی اذانیں دے
رہے تھے۔چین سے لیکے یورپ تک مسلمانوں کی سلطنت قائم تھی ۔ یہ سب قرآن سے فیض لینے
کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔
اسی
قرآن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں نے معاشرتی علوم میں ترقی کی ، سیاسی ، معاشی ،
معاشرتی اور عدالتی نظام قائم کیے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی نمایا کارنامے
سر انجام دیئے۔ہمارے مذہب کا کمال ہی یہ ہے کہ یہ دین اور دینا کو الگ الگ
نہیں کرتا ۔ دین الک اور دنیا الگ ،
عیسائیوں کا نظریہ ہے۔ جبکہ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا گزارنے کا نام ہی دین ہے
۔۔ انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے اس کا اٹھانا ، بیٹھنا سونا، جاگنا،سب کچھ
اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے قل ان صلوتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین(مسلماںوں
کا ہر وہ عمل کہ جو وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اور اسلام کی بہتری کے لئے
کرتے ہیں ، وہ سب دین اور عبادت ہے)قرآن ایک زندہ طاقت ہے۔ یہ کوئی ایسکی کتاب
نہیں کہ ہم اسے بیٹیوں کی تخصتی کرتے وقت فقط ان کے سروں پر رکھ دیں یا برکت کے
لئے چند الفاظ پڑھ لیں، اگر چہ قرآن کو چھونا اور الطاظ کو پڑھنا بھی باعث خیر و
برکت ہے ۔ اگر اللہ نے یہ برکت بھی نہ رکھی ہوتی تو شاید آج ہم اس قرآن کو پڑھنے
اور ہاتھ لگانے کی زحمت بھی نہ گوار کرتے ۔مگر قرآن ہدایت اور عمل دونوں کی کتاب
ہے۔۔اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے۔
حضور
ﷺ نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی مہم پر روانہ فرمایا تو پوچھا
:معاذ!فیصلے کیسے کروگے ؟حضرت معاذبن جبل نے جواب
دیا یا رسول اللہ ﷺ قرآن کی مدد سے ۔پھر حضور ﷺ نے دریافت فرمای : اگر
تمہیں قرآن میں کسی مسئلے کا حل نہ ملے تو؟ حضرت معاذ بن جبل نے جواب دیا سیدی آپ
کی سنت میں ان کا حؒ ڈھونڈوگا ۔رسول اللہ ﷺ نے پھر سوال کیا اگرم میری سنت میں بھی
تم کو نہ ملھے تو؟ تو پھرحضرت معاذ نے جواب دیا تو پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد
کروںگا ۔حضور ﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ یہی صحیح طریقہ ہے ماور پھر آنے
والے وقتوں کے لئے قانون سازی کے لئے اسی قائدے کو اصول بنایا گیا ۔
قرآن
میں تو سب مسائل کا حل ہے یہ انسان کی کمزوری ہوگی کہ اگر اسے وہ حؒ نمہ مل
پائے۔قرآن ایک بحر بیکراں کی مانند ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا ، انسان اس میں
سے جتنا بھی پانی نکالتا ہے ، اپنے ظرف کے مطابق ہی نکالتا ہے ۔حضورﷺ کے سوال سے
بھی یہ بات ثابت ہو جاتی کہ کائنات کا ہر راز اس قرآن میں موجود ہے ، صرف انسان کو
وہ معرفت اور فراست چاہیئے کہ ان رازوں کو تلاش کرسکے۔
قرآن
کی بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کو چاہئے کہ قرآن پاک روزانہ پڑھنھے کا معمول
بنایا جائے ۔ یہ قرآن ہمارے لئے ایسے جزو ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے قرآن کے
ذریعے مخاطب ہوتا ہے ،اور اسی طرح مخلوق کے ذریعے اپنے رب سے ہم کلام ہوسکتی ہے
۔آج ہماری نوجوان نسل کئی طرح کے فتنوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ان تمام فتنوں سے
نمٹنے کے لئے ضرور ہے کہ ہم قرآن پاک سے اپنا روحانی تعلق قائم کریں ۔ ہماری
نوجوان نسل کو قرآن سے رجوع کرنا ہوگا آج کل بچے قرآن پڑھنے سے گھبراتے ہیں ۔ قرآن
پاک پڑھ بھی لیں تو ہو قرآن کا انگیزی یا اردو ترجمہ یا تفسیر پڑھتے ہیں۔ اللہ اس
سے بھی ہدایت دے سکتا ہے۔لیکن جو الفاظ اللہ نے نازل کیا ہے وہ عربی میں اور ان کو
ویسے ہی پڑھنا چاہیئے۔اسی میں خیر ہے۔ اگر قرآن پورے ادب ،ایمان اور تکیم کے ساتھ
پڑھا جائے تو وہ انسان کے قلب پر نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے چاہے آپ کو عرطی آتی ہو
یا نہ آتی ہو۔ جب آپ قرآن سے مانوس ہوجایئں گے ،تو عربی بھی سمجھ میں آنا شروع
ہوجائےگی ، کیونکہ قرآن کے 50 فیصد الفاظ وہ ہیں جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔اب
ایسے بھی قرآن پاک کے تر جمے ہیں جن کے ہر ہر الفاظ کا اردو میں الگ الگ ترجمہ کیا
گیا ہے۔ان عربی الفاظ کو باربار دیکھنے وہ الفاظ یاد ہوجاتے ہیں۔پھر انسان جب براہ
راست عربی میں قرآن پڑھتا ہے تو پھر ترجمے دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی، قرآن براہ
راست عقل و قلب پر نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے زندگی
میں بہت سی کتابیں پڑھی ہیں ، مگر زندگی کے آخر میں، میں نے سب کتابیں پرے کردیں
اور اب سب کچھ صرف قرآن سے لیتا ہوں۔علامہ اقبال کا فلسفہ خودی ، کہ جو ان کے کلام
کی معراج ہے،قرآن کی آیتوں ہی کی تشریح ہے ۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کو قرؔآن کا
یہ فہم اور حضور ﷺ کی سنت سمجھنے کی اہلیت کیسے عطا ہوئی،کس سے سیکھی؟تو آپ نے
جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ پر ایک
کروڑ درود بھیجا تھا۔
قرآن
پاک خود بندہ مومن کی صفگات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ایسے وجود ہوتے ہیں کہ
جو ہر حال میں ، ہر وقت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ،چاہے اٹھے ہوں ،
بیٹھے ہوں،لیٹے ہوں، اور ساتھ ہی اس قدر عقل و دانش و معرفت کے پیکر ہوتے کہ ان کی
فکرسوچ زمین اور آسمانوں کی تخلیق پر تفکر اور تدبر میں غرق ہوتی ہے ۔یعنی وہ پوری
کائنات کے نظام پر غورو فکر کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کاتنات
کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی کاریگری کا ہی کمال ہے،اور اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی بیکار
پیدا نہیں کیا!یعنی قرآن بندہ مومن کی ایسی حیرت انگیز تصویر کھینچتاہے کہ جو اللہ
کے رازوں کے سمجھتے ہیں، خودی کے ترجمان ہوتے ہیں اور خدا کے رازدارہوتے ہیں۔
اگر
انسان کا لاالہ الا اللہ درست ہو اور اس کا تعلق حضورﷺ سے مضبوط ہو، تو قرآن اس پر
اپنے راز کھولنا شروع کردیتا ہے ۔ پھر وہ فساد نہیں پھیلاتا،خیر پھیلاتا ہے۔ اگر
ہم آنےوالے ادوار میں عروج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا اور ہماری بنیاد قرآن پاک
پر ہونی چاہیے۔
آج
کل کے دوم میں قرآن کے احکام کو نافذ کیسے کرنا ہے؟ اس کی مثال ہیمیں سیرت مبارکہ
سے ملتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضرت عائشہ سے پوچھا : حضورﷺ کے اخلاق کسیے
تھے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑؔھی؟یعنی حضورﷺ کے اعمال اور
اخلاق بالکل قرآن کے مطابق تھے۔حضورﷺ کی سنت قرآن کی تشریح اور عملی نمونہ ہے۔
لہذا قرآن و سنت ہی ہمارا آئین اور قانون ہیں۔چنانچہ قرآن سے ایک ذاتی روحانی تعلق
قائم کرنا ہم پر واجب ہے۔قرآن اورسنت آپس میں لازم اور ملزوم ہیں۔کسی ایک کو ترک
کریں گے یا اس کی حکمت کو نہ پائیں گے تو دوسرے کی روح سے بھی محؐروم ہوجائیں گھے۔
آپ
کو قرآن سے تعلق قائم کرنا ہے۔لاالہ الا اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہے ۔ الہ کے
رسولﷺ سے محبت کرنی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے درود شریف کی کثرت سے،
اور اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اللہ کے ذکر کی کثرت سے ۔ رسول ﷺ کی سنت کی حکمت
تبھی ملتی ہے کہ جب انسان اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ
سے شرح صدر طلب کریں اور ایسا مرشد تلاش کریں کہ جو اپنی نگاہ سے آپ کی تقدیر بدل
دے ، کہ تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں!
0 تبصرے