Header New Widget

عزت اور ذلت کس کو ملتی ہے ؟

 عزت اور ذلت کس کے لیئے؟

آج ہم فتنوں سے بھر پور زمانے میں سانس لے رہے ہیں ۔مادہ پرستی نے ایک انسان کو دوسرے انسان کا دشمن بنا دیا ہے حرص و ہوس اور زرطلبی کو اس اشرف المخلوقات نے اپنا مقصد زیست بنا لیا ہے دین گریزی نے اس کے جسد و جاں اور عقل و خرد کو ہی نہیں بلکہ قلب و روح کو بھی مکدر کر دیا ہے ، وہی انسان جو کبھی رشک ملائکہ تھا آج قصرذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں بھٹک رہا ہے ۔جسے مخلوق کی رسد و ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا آج اسی کی رسوائی کے چرچےہیں۔

        ان تمام خرابیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے لکہ انسان نے اپنے رب سے تعلق کم زور کر لیا ہے۔اسی سبب اس کا اپنے خالق پر یقین متزلزل ہوچکا ہے۔ اس نے اپنے حقیقی پرودگار کو بھلا کر سیم و زر کو اپنا خدا بنا لیا ہے اللہ رب العزت پر بے یقینی اس قدر غلبہ پاچکی ہے  کہ اس کی جانب سے رزق کی فراہمی اور قیامتکے روز اس کی عدالت میں حاضر ہونے کا خیال ہی دل سے محو ہوگیا ہے۔اس نے محض نفسانی خواہشات اور شہوانی لذات ہی کو اپنا مطمع نظر بنا رکھا ہے ۔ ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال نے انسان کی اسی خدا گریزی اور طاغوت پرستی کو کتنے عبرت انگیز اسلوب میں بیان کیا ہے:

بتوں سے تجھ کو امیدیں ،خدا سے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ  میں شوخی تو دلبری کیا!

دراصل ہم نے اپنے ایمان کی حفاظت کو اپنی تجیحات سے خارج کردیا ہے۔ ہمارے ہاں اخلاق نام کی کوئی عمدہ خصلت باقی نہیں رہی جو ہمارے وجود ار معاشرے کی بقا کا جواز بن سکے۔ قلوب پر پژمردگی اور یاس و ناامیدی دبیزپردے پڑچکےہیں۔اور ایسے مردہ دلوں سے کسی حیات بخش اور فیض رسنی کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔بقول علامہ اقبال :

دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک

نہ تیری ضرب ہے کاری ، نہ میری ضرب ٓہے کاری

اللہ رب العزت نے انسان کو تین اعضائے رئیسہ یعنی دل ، دماغ اور جگر تفویض کیے ہیں تاکہ اس کے جسم کا نظم بہترین انداز سے دل سکے۔ پھر ان میں بھی دل کو ان سب کا سردار بنایا ہے ،گویا دل کے پاس سارے جسم کا کمانڈاینڈ کنٹرول ہے۔ اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ دل کیا ہے؟ دل جسمانی گور پر گوشت سے بنا ہوا ایک عضو ہے  جو تمام جسم کو خون کی فراہمی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔اس طرح یہ انسانی وجود کی بقا کا ضامن ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا دھڑکنا حیات انسانی کی علامت ہے۔

        دل کی حرکت بن ہونے سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ لیکن رب کائنات نے جس زندگی اور موت کا راز ہم پر آشکار کیا ہے ، وہ در حقیقت یہ زندگی اور موت نہیں بلکہ وہ روحانی حیات اور ممات ہے ۔اس کا تعلق دل سے نہیں بلکہ قلب سے ہے۔کیونکہ دل اور قلب میں فرق ہے دل کا تعلق جسم سے نجب کہ قلب کا تعلق روح وسے ہے۔اگر انسان کا قلب زندہ ہو تو ہو مر کر بھی زندہ ہی رہتا ہے اوسر اگر قلب مردہ ہوجائے تو وہ بظآہر زندہ ہو کر بھی مردہ ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قلبی زندگی کیسے حاصل کی جائے؟ اس کے بارے میں پرودرگار جہاں اپنے لاریب کلام میں سورۃ الانفال کی آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتا ہے:

        (یایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعا کم لما یحییکم)اے ایمان والو! جب رسول ﷺ تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں ، جو تمہیں (جاودانی)زندگی عطا کرتا ہے ، تو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف فرماں بردار کے ساتھ جواب دیتے ہوئے حاضر ہوجایا کرو۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیسی زندگی ہے جو زندوں کو ہی تفویض کی جارہی ہے ۔ یہ وہی زندگی ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی مین مضمر ہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے احکامات کی بجا آوری اور رسول اللہ ﷺ کی سنت مطہرہ کی اتباع ہی حیات قلبی ہے ۔ جسے یہ نصیب ہوگی اسے قیقت میں حیات جاودانی مل گئی۔

        دل بینا بھی کر خدا سے طلب

        آنکھ کا نور دل کا نور نہیں 

حیات قلبی اور حضوری قلب

ہماری ظاہری زندگی کے جملہ معاملات کی انجام دہی اور ہمارے جسم کے جملہ اعضاء کی حرکات اس بات کی علامت ہیں کہ جسم کو زندہ رکھنے والا سب سے اہم عضو یعنی دل حرکت کررہا ہے، اندہ ہے اور پورے جسم کو خون پہنچارہا ہے ۔ ہمیں آکسیجن مل رہی ہے جس سے پورے جسم کے اندر زندگی کی علامات موجود ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی تب ہی ممکن ہے جب انسان کا دل زندہ ہو اور اگرن انسان کا دل ہی زندہ نہیں ہے تو پھر حقیقتا وہ مردہ ہے۔

حیات قلبی سے کیا مراد ہے؟

اس ظاہری حیات و ممات کے علاوہ جس حیات وممات کے تصور کو قرآن نے بیان کیا ہے وہ روحانی زندگی اور موت ہے ۔ اگر انسان کا دل روحانی طور پر زندہ ہو جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اب اسے حیات قلبی نصیب ہوگئی ہے اور وہ نادھیرے سے نکل کر اجالے میں آگیا ہے ۔اسے زندگی کا ایک اونچا درجہ مل گیا ہے۔قرآن مجید میں حیات قلبی کا نہایت جامع تصور بیان کیا گیا ہے۔ قرآن نے دل کی زندگی کو نور کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :

(اومن کان میتا فاحییناہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلۃ فی الظلمات لیس بخارج منہا کذلک زین للکافرین ماکانوا یعملون)

بھلا وہ چخص جو مردہ (یعنی ایمان سے محروم)تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت)زندہ کیا اور ہم نے اس کے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرمادیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے)چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے ) اندھیروں میں (اس طرح گھرا ) پڑا ہے کہ اس نکل ہی نہیں سکتا ۔ اسی طرح کافوں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں ) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے