حضرت علامہ اشتیاق ضیا شہبازی اپنے وقت کے خطیب اعظم
دنیائے انسانیت میں کچھ انمول شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں زمانہ کبھی ان کے علمی کارناموں سے یاد کرتا ہے تو کبھی مبلغ دین کی حیثیت سے یاد کرتا ہے، کبھی دنیا انہیں تصنیفاتی خدمات کے سبب یاد کرتی ہے تو کبھی اخلاق و کردار کے حوالے سے دنیا انہیں یاد کرتی ہے، کبھی تصوف و روحانیت کے نام سے دنیا انہیں یاد کرتی ہے تو کبھی شعر و شاعری کے ذریعے اہل زمانہ انہیں یاد کرتے ہیں الغرض کہ باکمال شخص اپنی صفات حمیدہ سے ممیز ہوتی ہے لیکن بلا مبالغہ یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ ان تمام صفات حمیدہ کو اگر ایک جگہ سمیٹ دیا جائے تو ایک ذات شہباز خطابت علامہ اشتیاق ضیاء شہبازی علیہ الرحمہ کی تیار ہوتی ہے ـ
یوں تو علامہ اشتیاق ضیاء شہبازی علیہ الرحمہ کی شخصیات سے متعلق سینکڑوں عناوین ہیں جس پر شرح و بسط کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے اس لیے کہ ان کے سر میں جو دماغ تھا وہ عالمانہ تھا سینے میں جو دل تھا وہ صوفیانہ تھا ہاتھوں میں جو قلم تھا وہ ادیبانہ اور محققانہ تھا لیکن راقم کے مضمون کا عوان صرف ان کی خطابت ہے ـ
شہبــاز خطابت نے اپنی خطابت سے انقلابات کی نئی نئی سرخیاں رقم کی ہیں آپ نے علماء و مشائخ کی موجودگی میں ۹ سال کی عمر میں اپنی زندگی پہلا خطاب کیا ۱۱ سال کی عمر میں دوسرا خطاب کیا اس خطاب کو سن کر علامہ فصیحی غازی پوری نے کہا تھا
یہ مری روح مری زیست کا حاصل ہوگا
یہ مہہ نو کبھی بڑھ کے مہہ کامل ہوگا
واقعی آگے بڑھ کر یہ شہبازی دولہا منصب سجادگی سے قبل اپنی ۳۵ سالہ زندگی میں افق خطابت پر ایسا سورج بن کر طلوع ہوا جس کی واعظانہ روشنی سے ایک زمانہ منور ہوا"شہباز خطابت ایک عہد ساز شخصیت" اس کتاب کے صفحہ 75 پر مذکور ہے کہ آپ کی خطابت سن کر علامہ ظفر ادیبی مبارکپوری صاحب نے "خطیب اعظم" کا لقب دیا اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری صاحب قبلہ نے شہنشاہ فن کا خطاب دیا ـ
آپ نے منصب سجادگی پر فائز ہونے سے قبل پورے ہندوستان سے خطـاب کیا، کلکتہ میں غوث الوری کانفرنس ہو یا وارث عالم پناہ کانفرنس یا جمال طیبہ کانفرنس یا پھر دیار حبیب کانفرنس سب کانفرنسیں تاریخی ہوا کرتی تھیں اور آپ ہمیشہ ان کانفرنسوں کی صدارت کیـا کرتے اور خطاب سے بھی سب کو مالا مال کرتے عوام کا عالم یہ تھا کہ ان کانفرنسوں میں آنے والی عوام جب تک حضرت کا خطاب نہیں سنتی اپنی جـگہ سے ہلتی تک نہیں ـ
آپ کی خطابت کا حیدرآبادی اسفار بھی بہــت مشہور ہے یوں تو حیـدرآباد کی کئی خانقاہ میں آپ نے خطاب کیا لیکن سب سے زیادہ حیدرآباد کی تاریخی مسجد مکہ مسجد اور حیدرآباد دارالسلام کا خطاب اہل حیدرآباد کی زبان پر ہے موجودہ صاحب سجادہ کی تصنیف کردہ "شہباز خطابت ایک عہد ساز شخصیت" اس میں رقم ہے کہ سلطان صلاح الدین اویسی کے دار السلام میں ربیع النور کے موقع سے ہونے والی سیرت کانفرنس میں جو خطیب باہر سے ایک بار آجاتا اسے دوبارا مدعو نہیں کیا جاتا مگر شہباز خطابت نے 6 بار اس کانفرنفس سے خطاب کیا اور کئی بار مصروفیت کہ وجہ دعوت نہیں لے سکے ــ
آپ کی خطابت اس قدر فصاحت و بلاغت سے لبریز اپنے پورے موضوع کا حق ادا کیا کرتی تھی کہ علمــاء مشائخ جھوم جایا کرتے تھے اسکول و کالج کے دانشوران حیران و ششدر رہ جایا کرتے تھے راقم کو روبرو سننے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ریکارڈ سن کر یہ اندازہ ہوا کہ آپ واقعی فن خطابت میں مہارت تامہ رکھ تھے ـ
اجمیر شریف سرکار غریب نواز کے خدام اور سجادگان کے بھی آپ محبوب خطیب تھے عرس غریب نواز میں آپ ہمیشہ شرکت کرتے اور وہاں کی اکثر محفلوں کے خصوصی خطیب رہتے اسی بارگاہ کے شاہجہانی مسجد میں حضرت پیر ضامن نظامی کی صدارت میں تین ۳ روزہ جشن صوفیہ کا انعقاد ہوتا تھا جس میں ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے بڑے بڑے علماء و مشائخ کی شرکت ہوا کرتی تھی مگر اس میں خصوصی خطاب حضرت شہباز خطابت ہی کیا کرتے تھے ـ
کچھوچھہ شریف دنیاء اسلام کی ایک بڑی مشہور و معروف خانقاہ ہے جس کے صاحب سجادہ حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ بھی تھے حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ نے حضور شہباز خطابت کو اجمیر شریف میں خلافت و اجازت سے نوازا اور خانقاہ میں خطـاب کی دعوت بھی دی حضرت شہباز خطابت عرس مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کے موقع سے تشریف لاتے اور آپ کا خصوصی خطـاب ہوتا حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ کے بعد حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ــ
حضــور شیخ الاسلام علامہ سید مدنی اشرف اشرفی جیلانی صاحب قبلہ بھی حضور شہباز خطابت کی خطابت کو بہت پسند فرماتے اور بہت شوق سے سماعت کرتے عرس محدث اعظم میں بھی حضور شہباز خطابت کا خطاب ہوتا اسی عرس میں ماہریرا شریف کے صاحب سجادہ حضرت ڈاکٹر امین اشرف صاحب قبلہ نے حضور شہباز خطابت کا خطاب سماعت کیا تو بر ملا بول اٹھے "واللہ کیا زور خطابت ہے بولتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جمنا بہہ رہا ہو" ( بحوالہ شہباز خطابت ایک عہد ساز شخصیت)
یقینا شہباز خطابت خطیب اعظم تھے آپ کی خطابت سے ہزاروں بیقرار دل کو قرار مل گیا تھا، بے چینوں کو چین مل گیا تھا، ہزاروں لوگ چغلی و غیبت سے توبہ کرچکے تھے، ہزاروں آنکھیں خوف الہی سے آنسو بہانے لگی تھیں اور ہزاروں کا سینہ عشق رسول کا مدینہ بن گیا تھا، راقم چاہتا تھا کہ ذرا اور تفصیل سے اس عنوان پر قلم بند کروں لیکن کار دگر کی مصروفیت اور تنگیِ وقت نے لکھنے نہ دیا ــ
0 تبصرے