Header New Widget

ہندوستانی مسلمانوں میں حصول تعلیم :پس منظر و پیش منظر

 ہندوستانی مسلمانوں میں حصول تعلیم :پس منظر و پیش منظر 

وطن عزیز میں آج تعلیمی اداروں کی اتنی ہی سطحیں بن چکی ہیں جتنی سطحیں لوگوں کی آمدنیوں میں پائی جاتی ہیں ۔۔

علم اور حصول علم کے محاذ پر گزشتہ صرف دو صدیوں تک ہماری قوم پر جمود چھایا رہا۔اس سے قبل ہم ان اداروں کے تمام رائج علوم، معیشت،تکنالوجی،انتظامیہ وغیرہ میں بلاشرکت غیرے امام رہے۔ پھر مغریبی استعمار کی یلغار کے سامنے یہ قوم کیوں کر سپر انداز ہوتی گئی۔وہ اب بھی تحقیق کا موضوع ہے۔ بہت غور و فکر کرنے کے بعد ہم صرف اس نتیجے پر پہنچے کہ شاید ظل الہی اور مہابلی کا خمار ہمارے دماغ سے اترا نہیں تھا لیہذا حصول علم کے ضمن میں جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں ان پر ہمیں رسوائی ہی نصیب ہورہی ہے کہ (الف)سے جس امت کو سب سے اول اقراء کا حکم دیا گیا اس مو تو خوندگی کی شرح صد فی صد ہونی چاہیے۔(ب)دو صدیوں کا جمود؟جدید علوم کے محاذ پر اس قدر طویل خاموشی؟وجہ کیا اس کی جبکہ اپنی آخری کتاب ہدایت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ کردیا تھا۔کہ علم والے اور بغیر علم والے برابر نہیں ہوسکتے۔

اس خطے کے مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت کے پس منظر کا جائزہ لیتے وقت میں دو مفکرین کے بڑے احسانات امت مسلمہ پر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تھے سر سید جنہوں نے قوم کو جدید علوم کے ہتھیار سے لیس ہونے کی ترجیح دینے کی صلاح دی ان کا خیال تھا کہ فرنگیوں نے جدید علوم کی طاقت سے مسلمانوں کے ۰۰۷ / سالہ دور کا خاتمہ کیا۔دوسرے تھے شاعر مشرق علامہ اقبال جنہوں نے  ضرب کلیم،زبور عجم اور پیام مشرق کے ذریعے مغرب کے نظریہئ علم اور تصورات تعلیم سے قوم کو ایک صدی پہلے آگاہ کیا تھا کہ علم کا اخلاق واقدار سے غیر متعلق ہوجانا صرف عذاب ہے۔

نصاب کے ارد گرد گھومتا نفسیاتی کا شکار ہمارا موجودہ تعلیمی نظام اسلاف کے اذکار سے خالی ہے ورنہ ہمار استاد نے اپنے طالب علم کو بتایا ہوتا کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے لکھا کہ اسے محمد بن تغلق کے دربار میں کئی مہینے رہنے کا اتفاق ہوا تو اس  نے دیکھا کہ تو اس نے دیکھا کہ محمد بن تغلق دستر خوان پر اس وقت تک نہیں بیٹھتا جب تک کم از کم چار سوعلماء وفقہا اس کے دسترخوان پر موجود نہ ہوں یعنی بادشاہ کے دربار میں ہمہ وقت یم و بیش چار سو علامی موجود رہتے تھے۔ نواب سعد اللہ خان ایک مدرسے سے فارغ تھے اور وہ شاہ جہاں کے دور میں ۸۴/سال تک اس بر صغیر کے وزیر اعظم تھے۔اس ملک کے مسلم دور کی ساری عمارات کے مہندس (عینی انجینئر و آرکیٹیکٹ)ہامے دینے مدارس کی چٹائیوں پر بیٹھ کر ریاضی و ہندسہ سیکھنے والے طلباء تھے۔بڑا احسان رہا اس قوم پر امام  غزالی رحمۃ اللہ (کے احیاء العلوم)کا جنہوں نے طب و ہندسہ سمیت سارے جدید علوم نافع کا حصول مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ قرار دیا تاکہ اس قوم کا احتیاج ختم ہوجایئے۔

حصول علم کے محاذ پر پھر آخر معاملہ بگڑا کہاں؟ جب ملت اسلامیہ کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے واویلا مچانا شروع کیا گیا کون سی تعلیم دینی تعلیم یا دنیوی تعلیم؟دیکھتے ہی دیکھتے آر پار کی جنگ کے لیے صفیں بچھ گئیں،کچھ اس حد تک کہ ایک آدھ ہزار سال قبل جب یونانیوں کے علوم و فنون وطب کا ترجمہ عربی زبان میں شروع ہوا تو شور و غل مچا کہ یہ یونانی مسلمان علما و فضلا کے دریافت کردہ نہیں ہیں۔ ارسطو اور افلاطون مسلمان نہیں تھے اور ان کا تیار کرد ہ علم منطق و طب مسلمانوں میں مقبول ہوتے دیکھ کر کچھ افرد تو اس درجہ تلملائے کہ فتاویٰ جاری کیے کہ یونانی علوم سیکھنا حرام ہے۔آج ان مضامین کی جگہ سائنس تکنالوجی اور انگریزی زبان نے لے رکھی ہے۔حالانکہ علم کے گمشدہ میراث ہونے کے تعلق سے عالمی سطح پر عربی قول ہی خوب خوب مقبول ہے۔خذما صفا ودع ما کدر:جو صاف اور اچھا اسے لے لو اور جو گندہ،غلط اور مکدر ہے اس کو نظر انداز اور مسترد کردو۔البتہ 

 جاری۔۔۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے