اعلامیہ
من جانب صاحب سجادہ وقار ملت سید سبطین حیدر زیدی چشتی قادری
سجادہ نشین بڑی سرکار خانقاہ برکاتیہ مارہرہ
باسمہ تعالیٰ وتقدس
خانقاہ عالیہ چشتیہ ، قادریہ ،برکاتیہ بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ کا
اعلامیہ
چند اہم دینی، ملی، مسلکی،مشربی اور سماجی مسائل سے متعلق
۱-فقیر قادری چشتی برکاتی مذہباًحنفی اور مسلکاً سنی اشعری ماتریدی ہے۔ تمام اہل اسلام سے گزارش کرتا ہے کہ موجودہ تعصب اور بےدینی کے عہد میں اپنی جان ومال سے بڑھ کر اسلام وایمان اور عقیدہ ومسلک کی حفاظت کریں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جس کی حفاظت ہر فرض سے بڑھ کر ہے۔
۲-علمائے کرام سے گزارش ہے کہ مسلک سواد اعظم پر سختی سے قائم رہیں۔ اشاعرہ وماتریدیہ، احناف وشوافع، مالکیہ وحنابلہ اور مشائخ چشتیہ، قادریہ، نقش بندیہ وسہروردیہ کےکھینچے ہوئے خطوط سے سرمو انحراف نہ کریں۔ عقیدہ وفقہ اور تصوف کے ان دبستانوں میں سے جس دبستان سے بھی وہ وابستہ رہیں گے، سلامت رہیں گے۔
۳-عوام اہل سنت سے گزارش ہے کہ وہ اہل سنت کے تمام علما ومشائخ کا کلی احترام کریں، جن علما ومشائخ کے باہمی فروعی اختلافات ہوں، وہاں وہ اپنے قریبی علما ومشائخ کا اتباع کریں، جن سے ان کا تعلق ہے، البتہ دیگر علما ومشائخ پر کوئی طعن وتشنیع نہیں کریں ۔
۴-ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت پر سختی سے قائم رہیں، البتہ جو مسائل خوداہل سنت کے بیچ مختلف فیہ ہیں، ان میںاپنے اپنےمعتمد علما ومشائخ کے مسلک پررہیں، البتہ شخصیت پرستی میں ایسے اندھے نہ ہوجائیں کہ اپنے محبوب نظر کی رائے کو مسلک اہل سنت بنادیںاور اس کی وجہ سے اہل سنت کے بیچ افتراق وانتشار کا سبب بنیں۔
۵- میں فقیر قادری چشتی خود اپنے خاندان برکاتیہ کے مشائخ کرام کے مسلک پر قائم ہوں۔میں اپنے محبین سے بھی اسی کی امید رکھتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ فروعی مسائل میں دوسروں کو مشائخ برکاتیہ کے مسلک کا پابند نہ بنائیں ۔
۶-ہمارے مشائخ برکات نور اللہ قبورھم ،محسن اسلام ،عم رسول مقبول، جد حسنین کریمین ،سیدنا ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان کے قائل رہے ہیں۔ ہمارے مشائخ مارہرہ کے جدکریم حضرت میرسید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے اور ان کے دادا پیر مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہ بھی اسی کے قائل تھے۔ تفصیل کے لیے سبع سنابل اور مجمع السلوک شریف دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ فقیر قادری چشتی بھی اس مسئلے میں اپنے ان بزرگوں کے مسلک کا پابند ہے۔ البتہ جن مسائل میں ہمارے بزرگوں کا سکوت ہے، ہمارا بھی وہی ہے۔
۷-حضرت ابوطالب کے کفر پر اہل سنت کا اجماع سمجھنا سخت نادانی ہے۔یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے جس میں ایمان اور سکوت کے دومعتبر اقوال ہیں، اس مسئلے میں میرا موقف میرے مشائخ واجداد کی طرح ایمان کا ہے ۔
۸- تر تیب خلافت برحق ہے اور عام اہل سنت کے نزدیک ترتیب خلافت ہی ترتیب فضیلت کی بنیاد ہے، فقیر قادری کی تحقیق اور مشرب اپنے جد اعلیٰ امام زید کے مطابق ہے۔ آپ کے نزدیک شیخین کی خلافت برحق ہے، لیکن افضل حضرت مولائے کائنات علی المرتضیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔
۹-اہل بیت سے محبت اور صحابہ کا احترام اہل سنت کا شعار ہے، لیکن اس کے باوجود صحابہ معصوم نہ تھے، ان سےمختلف مواقع پر خطائیں ہوئیں، ان پر حدود بھی جاری کی گئیں، لیکن اس کے باوجود ان کا احترام ضروری ہے اورعیب جوئی یا لعن و طعن کی غرض سے ان کی خطاؤںکا ذکر نا جائز ہے،البتہ بیان واقعہ اور تحقیق کے لیے ان کا ذکر کرنا گستاخی نہیں ہے۔
۱۰-صحابہ میں بعض دفعہ اختلافات اور مشاجرات بھی ہوئے۔ ان مشاجرات میں زبان کھولنے سے حتی الامکان روکنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے مشاجرات یا خطاؤں کا انکار کردیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور بوقت ضرورت، ادب واحترام کے ساتھ حقیقت کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
۱۱-حضرت علی خلیفۂ راشد ہیں، امیر معاویہ صحابی ہیں، مگر انہوں نے حضرت علی سے جنگ کی، حضرت امام حسن کے اوپر جنگ مسلط کی، جس کے بعد امام حسن نے حالات کے پیش نظر صلح کرکے اقتدار امیر معاویہ کے حوالے کردیا، پھر بعد میں امیر معاویہ نے اپنے نا اہل بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنا دیا۔ ان معاملات میں حضرت علی اور امام حسن حق پر تھے اور امیر معاویہ خطا پر تھے، اس پر اہل سنت کا اتفاق ہے، امیرمعاویہ کو بےخطا کہنا یا اس کی تائید کرناناصبیت ہے، ہاں! اہل سنت کا اس میںاختلاف ہے کہ امیر معاویہ کی خطا اجتہادی تھی یا منکر، فقیر اس سلسلے میں حضرت جامی کے مسلک پر ہے۔ حضرت جامی فرماتے ہیں:
حق بہ آں جا بدست حیدر بود
جنگ باوے خطاے منکر بود
۱۲- صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم میںجن کی صحابیت اور ایمان پرخاتمہ ثابت ہے، اپنے ظن وتخمین سےان میں سے کسی کی تکفیرجائز نہیں۔
۱۳-اہل سنت وجماعت کی سبھی صحیح العقیدہ خانقاہیں اور درسگاہیں،قابل احترام ہیں۔اپنی انا کی تسکین کی خاطر کسی کے خلاف فتویٰ بازی، بیان بازی اور بائیکاٹ بازی کی پالیسی اپنانا یا ایسی پالیسیوں کی تائید کرنا، ایک مذموم عمل ہے۔
۱۴-عقیدۂ اہل سنت پر تصلب ضروری ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل سنت کو کسی ایک عالم، شیخ ، مدرسہ یا خانقاہ پر موقوف کردیا جائے، تمام گمراہیوں کے ساتھ اس گمراہی کی تردید بھی ضروری ہے۔
۱۵-ذات رسالت مآب ایمان کا مرکزومحور ہے۔آپ ﷺ کا ادب واحترام ہرفرض سے بڑھ کر فرض ہے۔ اسی طرح محبت کے ساتھ اطاعت رسول بھی ضروری ہے، تاکہ اہل سنت کو حتی الامکان فسق وفجور سے پاک کیا جائے۔
۱۶-حب رسول اور اطاعت رسول کے ساتھ اہل قبلہ کا احترام بھی از حد ضروری ہے، جہاں تک ممکن ہو ان کے اقوال واعمال کی تاویل کی جائے اور جب خود سے تاویل نہ بن پائے تو مسئلہ کو اکابر مفتیان کرام کے حوالے کیا جائے۔ تکفیروتضلیل کے باب میں ہر مفتی اظہار رائے سے اجتناب کرے، اس سے اصلاح کے بجائے، افساد ہوگا۔
۱۷-حق وباطل میں عدم امتیاز اور سب کو صحیح ودرست کہنا صلح کلیت ہے، جو باطل مذہب ہے، لیکن دین اور مسلک کو کسی ایک عالم یا ادارے پر منحصر کرنا اور اس سے ہر اختلاف کو صلح کلی کہنا خود امت کا ایک بڑا فساد ہے، جس سے اعراض واجتناب ضروری ہے۔
۱۸-ہم وطناً ہندوستانی، ملۃً مسلم اور مسلکاً سنی ہیں۔ اس لیے قومی مسائل میں تمام برادران وطن کے ساتھ تعلق واشتراک ضروری ہے، اسی طرح خالص ملی مسائل میں تمام مسالک کے ساتھ اشتراک واتحاد ضروری ہے۔
از
سید شاہ سبطین حیدر زیدی چشتی قادری برکاتی
سجادہ نشین: خانقاہ عالیہ چشتیہ ، قادریہ ،برکاتیہ بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ
بتاریخ:-------بروز-----بمقام------
26/فروری 2023
درگاہ شریف مارہرہ ضلع ایٹہ اتر پردیش
0 تبصرے