Header New Widget

قرب قیامت میں علم اٹھا لیا جائے گا"اس حدیث کا کیا مطلب؟

 قرب قیامت میں علم اٹھا لیا جائے گا"اس حدیث کا کیا مطلب؟

از قلم مفتی محمد اورنگزیب عالمگیر سعدی ۔

قیامت کی نشانیوں میں سے سے ایک نشانی یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔ بہت معروف حدیث پاک ہے ۔عن أنس بن مالك لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِن رَسولِ اللهِ ﷺ لا يُحَدِّثُكُمْ به أحَدٌ غيرِي: سَمِعْتُ رَسولَ اللهِ ﷺ يقولُ: إنّ مِن أشْراطِ السّاعَةِ أنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، ويَكْثُرَ الجَهْلُ،  یہ حدیث تقریباً حدیث کی ساری کتابوں میں موجود ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینا قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت کی کثرت ہو جائے گی ۔ مصنف کتب کثیرہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں علم سے مراد "علم دین ہے " کہ وہ قرب قیامت میں اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ روے زمین پر کوئی علم حدیث جاننے والا باقی نہ رہے گا ۔شارح مشکواۃ حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ دنیا سے علم دین کا اٹھ جانا دو طرح سے ہوگا ،

ایک صورت تو یہ ہوگی کہ علمائے دین ایک کے بعد دوسرے دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے اور ان کی جگہ پر کرنے والے علمائے دین پیدا نہ ہوں گے بلکہ روز بروز کم علم والے علماء ہوتے جائیں گے اسی طرح رفتہ رفتہ وہ دور آجائے گا کہ روے زمین عالموں سے خالی ہو جائے گی اور علم دین کا جاننے والا کوئی باقی نہ رہے گا ،

 

دوسری صورت یہ ہوگی کہ علمائے دین ظالم بادشاہوں کے دباؤ یا ان کی چاپلوسی میں گرفتار ہو کر مسلم عوام میں دین کا چرچا کرنا چھوڑ دیں گے اس طرح مسلم عوام علم دین سے بلکل ہی جاہل رہ جائیں گے اور جب رفتہ رفتہ ان سب عالموں کی وفات ہو جائے گی تو اس طرح  دنیا سے علم اٹھ جائے گا اور ہر طرف جہالت ہی جہالت کا دور دورہ ہو جائے گا یہاں تک کہ کوئی شخص ارکان اسلام کا جاننے والا بلکہ قرآن کا پڑھنے والا بھی نہ رہ جائے گا 

 

تبصرہ ۔ معزز علمائے کرام اور پیارے مسلمانوں یہ دونوں نشانیاں اس وقت ہمارے زمانے میں موجود ہے لہذا ہمیں ایسے دور میں اللّٰہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے اور اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے پہلی فرصت میں علمائے کرام کو مسلم عوام میں علم دین کے فروغ کے لیے اعلیٰ پیمانے پر تیاری کرکے انہیں دین کے راستے پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو تو اس دور پر فتن میں خود اور اپنی اولاد کو بھی علمائے کرام سے روابط مضبوط کر کے علم دین سے آراستہ کرنا چاہیے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی زندگی کے شب و روز پر وقت سے پہلے خوب اچھی طرح غور و فکر کر کے خامیوں کو دور کرنے اور غلطیوں کو سدھارلینا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے ۔

فقیر محمد اورنگزیب عالمگیر سعدی آستانہ حضور غوث بنگالہ رانی گنج بنگال ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے