Header New Widget

آہ_حضرت_رئیس_التحریر ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

 آہ_حضرت_رئیس_التحریر

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


 

انتہائی رنج و الم کے ساتھ یہ سطریں رقم ہو رہیں کہ رئیس التحریر، حضرت علامہ یٰسین اختر صاحب قبلہ مصباحی، ابھی کچھ دیر قبل، اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ إنا لله و إنا إليه راجعون.


حضرت موصوف کی رحلت، بالعموم اسلامیان ہند اور بالخصوص مسلمانان دہلی کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے۔ دہلی کے ذاکر نگر جیسے علاقے میں 'دار القلم' اور 'قادری مسجد' کا قیام آپ کی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ عوام و خواص اہل سنت اس کے لیے ہمیشہ ان کے مقروض رہیں گے۔ اور شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج ذاکر نگر کے مسلمان یتیم ہو گئے۔ 

 

علامہ یاسین صاحب نہ صرف ممتاز محقق اور مصنف تھے، بلکہ دور اندیش مدبر اور سیاسی مفکر بھی۔ 'مسلم پرسنل لا کا تحفظ' اور 'آر ایس ایس کے ایجنڈے' جیسی کتابیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  یہاں اس کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا کہ ١٩٨٥ء میں جب شاہ بانو کیس موضوع بحث بنا ہوا تھا، آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر کے عہدے پر فایز ہوے تھے۔


معاصر علما کے درمیان، تصنیف و تحقیق اور تاریخ نگاری میں، رئیس التحریر نمایاں مقام رکھتے تھے۔ مختلف موضوعات پر درجنوں تصنیفات اس پر شاہد عدل ہیں۔ جن میں قابل ذکر حسب ذیل ہیں:

١- ممتاز علماے انقلاب ١٨٥٧ء

٢- آیات جہاد کا قرآنی کا مفہوم

٣-خاک حجاز

٤- گنبد خضرا

٥- امام احمد رضا کی فقہی بصیرت

٦- امام احمد رضا کی محدثانہ عظمت

٧- جشن میلاد النبی

٨- فضائل موے مبارک

٩- معارف کنزالایمان

١٠- پیغام عمل

١١- امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات

١٢- سواد اعظم

١٣- شارح بخاری

١٤- تعارف الجامعۃ الاشرفیہ 

١٥- تعارف اہل سنت 

١٦- انگریز نوازی کی حقیقت 

١٧- امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں

١٨- ١٨٥٧ء: پس منظر و پیش منظر

١٩- علامہ فضل حق اور انقلاب ١٨٥٧ء


راقم کی نظر میں، ان کی یہ دو کتابیں بڑی معرکتہ الآراء ہیں: پہلی، تاریخ کے موضوع پر 'ممتاز علماے انقلاب ١٨٥٧ء'۔ جنگ آزادی کی تاریخ سے مسلمانوں کو بالعموم اور علماے اہل سنت کو بالخصوص مٹایا جاتا رہا ہے یا ان کے کردار کو کم سے کم میں سمیٹنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔‌ اس کتاب کے ذریعے، فاضل مصنف نے تاریخی شواہد اور پختہ دلائل و براہین سے مزین کر، علما کی خدمات کو اجاگر کیا، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔ اور دوسری کتاب، دفاع کے موضوع پر 'امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات' ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے حوالے سے بہت ہی منظم انداز میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے بر صغیر میں بدعات و خرافات یہاں تک کہ شرکیہ مراسم کو بڑھاوا دیا۔ اس کتاب میں خود اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تصنیفات سے وافر مقدار میں اس کے شواہد پیش کیے گئے کہ یہ سب حضرت امام پر بہتان ہیں۔ مروجہ بدعات و خرافات پر اعلی حضرت کے مستقل رسالے ہیں۔ چناں چہ جہاں انہوں ںے مزارات پر عورتوں کی حاضری کے‌ ممنوع ہونے پر 'جمل النور في نهي النساء عن زيارة القبور' تصنیف فرمائی؛ وہیں بزرگوں کے مزارات پر سجدے کی حرمت کے سلسلے میں 'الزبدة الزكية لتحريم سجدة التحية' جیسا عمدہ رسالہ قلم بند کیا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی رایج خرافات تھے جن پر مجدد وقت نے مستقل رسالے تصنیف فرماے۔ مصباحی صاحب نے مذکورہ کتاب میں اس کے درجنوں شواہد اعلی حضرت کی کتابوں سے پیش کر دیے ہیں۔ اس کے مطالعے کے بعد، کوئی بھی انصاف پسند آدمی اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ امام احمد رضا نے بدعات و خرافات کو فروغ نہیں دیا؛ بلکہ اپنی شان مجددی کے عین مطابق، ان کا قلع قمع فرمایا۔


ایسا نہیں کہ رئیس التحریر نے صرف اردو میں خامہ فرسائی کی۔ مدارس اہل سنت کے عربی ادب کے نصاب میں شامل 'المدیح النبوی' کی جمع و تدوین کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔ اگر کوئی ان کی عربی دانی اور زبان پر گرفت کا اندازہ لگانا چاہے تو وہ اس کتاب کا مبسوط مقدمہ پڑھ سکتا ہے۔ اس میں نہ صرف زبان و بیان کے جوہر پارے ہیں، بلکہ فکر و فن کے موتی بھی جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔


دعا ہے کہ مولی تعالیٰ حضرت موصوف کا نعم البدل عطا فرما کر اس عظیم خلا کو پر کرے۔ انہیں غریق رحمت فرماے۔ اور اہل خانہ، محبین و متوسلین کو صبر جمیل دے۔

 

ابر رحمت تری مرقد پر گہر باری کرے

حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے


سراپا سوگوار:

✍️ #محمدحیدررضا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے