مفتی ”جامع اشرف“ ہزاروں میں ایک تھے
____________________________________
لیل و نہار کی گردش ، موسموں کی تبدیلیاں، زمانے کی رفتار ، پانی کا بہاؤ، ہواؤں کا چلنا پھر رک جانا، ٹھنڈی کے بعد گرمی کا آجانا اور ٹھنڈی کا ختم ہو جانا، روشنی کے بعد ظلمت کا چھٹ جانا ، تحت الارض بیج کا اپنا وجود کھو دینا، پھر کونپلوں کا لہلہاتے ہوے زمین کے سینے کو چیر کر نکلنا، پیڑ پودے کا پھل پھول کر سڑ گل جانا یہ سب اس بات کی طرف غماز ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے ، اور یہ مال و متاع ،دولت و ثروت سراب و دھوکہ ہے، قرآن فرماتا ہے: ”کل من علیھا فان و یبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام“
اللہ جل مجدہ الکریم کی ذات کے ماسوا کائنات کی ساری چیزیں ، اس رنگین و دلفریب دنیا کا ذرہ ذرہ فانی ہے کسی بھی چیز کو بقا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت کو دنیا کے حادث ہونے کا عقیدہ کسی اور نے نہیں دیا بلکہ قرآن مجید نے دیا ہے ، منطقی اصطلاح کی رو سے بھی دیکھیں (العالم متغیرٌ، و کل متغیرٍ حادثٌ) تو صغریٰ اور کبریٰ کے حد اوسط کو ساقط کرنے کے بعد یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور اسی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ (العالم حادثٌ) دنیا فانی ہے ہر چھوٹی بڑی، معمولی غیر معمولی شئ کو زوال و فنا لازم ہے ، فنا و بقا میں عرب کو عجم پر ، گورے کو کالے پر ، نیک و صالح کو بدکار و گناہگار پر ہرگز فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے بلکہ رب لم یزل کے ما سوا کو زوال و انحطاط اور حدوث اس کا فطری حصہ ہے_
اسی قانون وقضاء الہی کے مطابق ایک جلیل القدر عالم دین ، مایہ ناز فقیہ ، جہان فقہ و افتا کے عظیم محقق ، علوم مروجہ پر درک و کمال رکھنے والا ، پچیدہ مسائل کی عقدہ کشائی کرنے والا، فقہ کے زلف برہم کو سنوارنے والا، فقہ و حدیث کی کی گتھیوں کو سلجھانے والا، میدان تحقیق و تدقیق میں اپنی ایک الگ شناخت اور اثر چھوڑنے والا، اپنی علمی سطوت اور اثر و رسوخ سے ہزاروں کو موہ لینے والا ، بے جان پتھر کو تراش کر زندگی عطا کرنے والا ، علمی کہکشاں میں انفرادیت و امتیازی شان کا حامل ستارہ آج مورخہ 7 ستمبر 2023ء کو ہماری نظروں سے رو پوش ہوگیا، یعنی نمونہ اسلاف استاد العلماء رئیس الفقہاء عمدۃ المحققین فقیہ عصر حضرت علامہ مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے اور ہاتف غیبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس آباد خرابے کو خیر آباد کہہ گئے ، آج ان کا ہمارے درمیان سے اس طرح رخصت کر جانا سواد اعظم کے لیے ناقابل تدارک نقصان ہے ، ان کی رحلت سے علمی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کو پر کرنا انتہائی مشکل امر ہے،بلا کسی مبالغہ اور زیادتی کے حضرت علیہ الرحمہ کی ذات ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت تھی ، مسند درس و تدریس کے بے مثال مدرس تھے، منصب فقہ و افتا کے بے عدیل معلم تھے ، فقہی جزئیات کے ماہر تھے ، فقہ کے ساتھ حدیث و تفسیر پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ، محض گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی تھے ، حق اور دین و سنیت کے علمبردار تھے ، پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ تمام اساتذہ و تلامذہ سے والہانہ محبت کے ساتھ پیش آتے تھے ، بے ہنگم و غیر موزوں باتوں سے اعراض و احتیاط کرتے تھے ، مطالعہ میں شغف رکھتے تھے،چھوٹوں پر شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے، لبوں پر مسکراہٹ رہتی تھی ،حضرت کی مایہ ناز اور پر وقار و پر شکوہ شخصیت نے ہزاروں کو سنوارا اور نکھارا ہے ، ہزاروں کو تراش خراش کر قیمتی اور نمول بنایا اپنی خدا داد صلاحیت سے بے شمار لعل و گوہر پیدا کر کے قوم کو عنایت کیا ان کا تربیت یافتہ آج ملک و بیرون ملک میں کوئی تصنیف و تالیف اور صحافت کے میدان میں اپنے قلم کی تمازت بکھیر رہا ہے، تو کوئی درس و تدریس کے میدان میں اپنا علمی جواہر پارے لٹا رہا ہے ، تو کوئی تقریر و خطابت کا عظیم شہسوار بن کر لوگوں کو رشد و ہدایت اور راہ راست و صراطِ مستقیم کی دعوت دے رہا ہے ، گرچہ صحرائے علم و حکمت کے اس عظیم درویش صفت ، سادگی و تواضع پسند مسافر سے ہر کس و ناکس کو تو واقفیت نہیں تاہم جس نے شناسائی حاصل کرنے کی سعی کی اچھی طرح پہچان لیا کہ متحرک و فعال ذمہ دار استاد تھے، اخلاص پسند اور منکسر المزاج تھے، ملنسار، تقوی و طہارت حلم و بردباری ان کی طبیعت کا جزوِ لاینفک تھا ، اخلاق کے دھنی تھے، کم سخن و کم گو تھے ، لیکن حق گوئی و راست گوئی میں بے باک و بے خوف تھے، ظاہر و باطن میں یکساں تھے ، دنیا داروں سے بیزار تھے ، محفل صوفیہ میں باصفا صوفی، محفل ادب میں بے نظیر ادیب شہیر نظر آتے تھے ، راقم کو زانوئے ادب تہہ کرنے اور ان کے خرمن علم سے خوشی چینی کرنے کا شرف حاصل ہے ، ہمیشہ عربی کی مستند کتابوں کو پیش نظر رکھتے تھے ، اپنا سارا وقت مطالعہ و کتب بینی میں صرف کرتے تھے بغیر کسی بناوٹ اور تکلف کے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ صرف ایک بالغ نظر اور کہنہ مشق مفتی ہی نہیں بلکہ وہ عظیم نکتہ رس، نکتہ سنج اور نکتہ داں بھی تھے ، آپ کی مختلف خوبیوں، گونا گوں اوصاف و کمالات اور علم و فضل کا اعتراف اکابرین معاصرین کیا ہے ، میں نے بارہا دیکھا ہے کہ بخاری شریف کی پچیدہ احادیث کو طلبہ آپ کی بارگاہ میں لے آتے تو آپ فرماتے ” فتح الباری “ فلاں جلد فلاں صفحہ نکالو، ” عمدۃ القاری “ فلاں جلد فلاں صفحہ نکالو، پوری بخاری شریف کا درس مع اختلاف مذاہب دیا کرتے تھے، احادیث کے ساتھ پورا حاشیہ بھی پڑھا کرتے تھے، طلبہ کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دیا کرتے تھے مسلم شریف میں علامہ نووی کی پوری شرح بھی پڑھا کرتے تھے، حضرت علیہ الرحمہ جامع اشرف درگاہ کچھوچھہ مقدسہ میں تقریباً پچیس سے تیس سالوں تک علمی تحقیقی اور فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دیتے رہے، اگر ان کے فتاوے کو جمع کر کے ترتیب دیا جاے کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں ،ایسا بلند پایہ عالم دین، باریک بیں و دقیقہ رس مفتی اور نکتہ سنج محقق دیا جلا کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ، آج ایسی عالمگیر شخصیت کی رحلت سے ایک علمی جہان مضطرب و افسردہ دل اور ملول خاطر ہے، ہم تمام لوگ دعا گو ہیں کہ اللہ جل شانہ حضرت کی گراں مایہ خدمات کو قبول فرمائے ، درجات بلند فرمائے ، اور خدا حشر تک اس مرد قلندر کی تربت پر رحمت افشانی کرے _ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
رھبر رشیدی جامعی غفرلہ
خادم التدریس دارالعلوم اہلسنت اسلامیہ حنفیہ
(ہنومان گڑھ، راجستھان)
6201517357
0 تبصرے