پل بھر میں کیسے بدلتے ہیں رشتے
انسان اپنی زندگی میں بے شمار رشتے نبھاتا ہے، کچھ رشتے خونی ہوتے ہیں، کچھ علاقائی رشتے، ان تمام رشتوں میں ایک بہت ہی اہم رشتہ ہے وہ ہے والدین کا، انسان اگر اپنی پوری زندگی بھی اس رشتے کو نبھانے کے لیے وقف کر دے تو کما حقہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے. اس رشتے میں دراڑ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک بندہ کسی خاندان کے چشم و چراغ، والدین کی آنکھوں کا تارا، ایک بھائی کے دل کی دھڑکن، نوجوان لڑکی کو عاقدین کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرکے اپنے گھر لاتا ہے، اگر یہ لڑکی ساس کی مزاج کے موافق نہیں اتری تب رشتے کے درمیان دراڑ کی آمد شروع ہوتی ہے، نوجوان یا تو والدین کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی شریک حیات پر ظلم و زیادتی کرتا ہے، اگر لڑکی تیز طرار ہے تو پھر لڑکا اس کی میٹھی باتوں پر عمل کرتے ہوئے والدین کے لیے عرصہ حیات تنگ کرتا ہوا نظر آتا ہے، اگر مرد اس حالت میں اعتدال پسندی کو اپنائے تو آگے کی زندگی کا سفر بآسانی طے کر سکتا ہے، کچھ لوگ معاشرے میں ایسے بھی ہیں کہ شادی کے بعد والدین کے ساتھ بات چیت کرنا بند کر دیتے ہیں، مارتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، زندگی گزارنے کے لیے اخراجات دینا بند کر دیتے ہیں، ایسے رویے معاشرے کا وہ بدنما داغ بن گئے ہیں جنھیں آئے دن ہم اخباروں کی زینت بنتے ہوئے دیکھتے ہیں، ہمیں اس رشتے کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے.
آج کل کی نئی اور پڑھی لکھی نسل میں ایک بڑی خرابی خود غرضی ہے۔ خود غرض لوگ اکثر زندگی کی لمبی دوڑ میں ہار جاتے ہیں۔ سسرال میں ساس نندوں یا گھر کے دوسرے لوگوں سے خود غرضی برتنا اپنی جڑیں آپ کھونا ہے۔ اس عادت کو ہر لڑکی کو بدلنا چاہتے، ورنہ بعد میں یہ باتیں آنے والی نسلوں میں بھی پیدا ہوں گی۔ ظاہر ہےکہ وہ جیسا دیکھیں گے ویسا ہی سلوک اپنے ماں باپ کے ساتھ بھی کریں گے۔ ہر عورت خواہ وہ کتنی ہی پڑھی لکھی، خوب صورت، اعلی عہدے پر فائز یا امیر ہو، گھر کے کام کاج تو اسے کرنے ہی پڑتے ہیں۔ کسی بھی کام کو اپنی انا کے خلاف سمجھنا سراسر غلط ہے ۔ اکثر عورتوں کو کو یہ یہ کہتے سنا گیا ہے کہ میں نے تو یہ کام کبھی کیا ہی نہیں، بھلا یہ کام میں کیسے کروں ؟ یا پھر میں کوئی نوکر ہوں جویہ کام کروں ؟ اس طرح کی باتیں ان کی جہالت کی نشانی ہیں۔ ہر شوہر اور بیوی کے لئے یہ جاننا ضروری ہے ان کی اور ان کے گھر والوں کی بنیادی ضرورتیں کیا ہے اور وہ حالات سے کس طرح سمجھوتا کرکے ایک اچھا اور خوشگوار ماحول پیدا کر سکتے ہیں.
وہی گھر ہمیشہ پرسکون ہوتا ہے جہاں عورت میں سوجھ بوجھ اور قربانی کا جذبہ ہوتا ہے. یہ نکتہ صرف بہو کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ گھر کے دوسرے افراد کو بھی اعتدال پسند ہونا چاہیے، ایسی صورت میں ایک خوشگوار ماحول پیدا ہو سکتا ہے، اچھے پڑھے لکھے گھرانوں میں بہو کا جاہل ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے ، کیوں کہ وہ جاہل ہونے کے ساتھ تنگ نظر بھی ہوتی ہے ۔ وہ گھر کی چھوٹی موٹی غیر ضروری باتوں پر بھی ہنگامہ کھڑا کر سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر والے بہو پر اعتماد اور بھروسا نہیں کریں گے۔ اس سے معمولی باتیں بھی چھپائی جائیں گی ۔انجام کار وہ سرال میں اپنے آپ کو اجنبی اور غیر محفوظ محسوس کرنے لگے گی اور اس سے کشیدگی اور بھی بڑھ جائے گی.
ایک اچھی بہو کی خاصیت گوند کی سی ہوئی چاہئے جو گھر کو اتنی مضبوطی سے جوڑ دے کہ وہ ٹوٹ نہ سکے ۔ بظاہر اپنی شخصیت کو بدلنا مشکل ہوتا ہے ، مگر ہر کام جو شروع کیا جائے ابتدا میں مشکل ہی لگتا ہے تاہم جس کام کا عزم کر لیا جائے وہ آسان ہو ہی جاتا ہے، مضبوط قوت ارادی کی عورت زندگی کی حقیقتوں کو جانتے ہوئے رحم دلی، نرمی، ایثار و پیار سے پیش آئے تو اپنی زندگی کو، اپنے سارے گھر کو خوشی اور خوش حالی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ۔ اگر وہ یہ عزم مصمم کرلے کہ ایک دن اپنی شخصیت کو منوا کر رہے گی، اس کی گھریلو زندگی خوش حال ہو گی، وہ گھر کو بگاڑنے کی بجائے بنانے میں کامیاب ہو گی اور اس کا مستقبل تاب ناک ہوگا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے سارے خواب پورے نہ ہوں۔
موجودہ دور میں معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے دن والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے جسے مسلمان آج فراموش کرچکے ہیں۔ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ حقوق العباد کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً والدین کے مقام و مرتبے کے متعلق جو احکامات ہیں ، اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کریں اور معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ اس معاملے میں اہم کردار اداکریں تاکہ مسلم معاشرے میں والدین اور بزرگوں کو ان کا مقام مل سکے۔ والدین ایک ایسا سایہ ہیں جن کے جانے کے بعد انسان بالکل تن تنہا ہو جاتا ہے پھر احساس ہوتا ہے اور جب والدین حیات سے ہوتے ہیں تو ان کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا، رب کریم ہمیں والدین اور بڑوں کے مکمل حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
غریب نواز مصباحی
البرکات
0 تبصرے