عصری تعلیم اور ہندوستانی مسلمان
اسلام مکمل ضابطہ حیات اور دین فطرت ہے، جو اپنے صاف اور صریح احکام قوانین کی بے پناہ دلکشی اور کشش کی وجہ سے انسانی قلوب و اذہان میں گھر کرتا چلا جاتا ہے،اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جو تہذیب اخلاق بھی سکھاتا ہے اور سیاست مدن بھی، اسلام ہی ہے جو تدبیر منزل کے اصولوں سے واقف کراتا ہے اور انسانی فطرت کی تجزیہ کاری کرتے ہوئے اس سے متعلق گوناگوں علوم و معارف کی تصدیق کرتا ہے،دراصل اسلام ہی وہ واحد اور کامل دین ہے جو انسان کو کائنات کے رازہائے سربستہ معلوم کرنے کی بار بار دعوت دیتا ہے تاکہ اہل اسلام صرف نام کے مسلمان نہ کہلائیں بلکہ خلاق کائنات کی طرف سے ودیعت کردہ اپنے قلب و ذہن کی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اللہ کی وحدانیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و عظمت پر ایمان لانے والے ہونے کے ساتھ ساتھ علوم و معارف کا سرچشمہ بھی بن جائیں اور سر تا پا دینی و عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ و مزین ہو کر کار جہاں بانی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
انسان کی زندگی میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت ایک ایسی مسلمہ سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن اور مہذب معاشرہ نے تعلیم کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے تحصیل علم کی طرف توجہ مرکوز رکھی، تعلیم کی تکمیل کے لیے بھی ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے اسلام نے بھی انسانی فطرت کے مطابق علم حاصل کرنے کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی فرمائی پہلی وحی کا نور بھی علم کی تلقین کرتا ہوا تشریف لایا، اقرا پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، قرآن کریم میں جا بجا تعلیم کی اہمیت بیان کی گئی ہے تعلیم کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی بعثت کا مقصد بتایا، بہ کثرت احادیث سے تعلیم کی اہمیت وضرورت کو محسوس کیا جا سکتا ہے گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرنے کا تصور بھی اسلام ہی نے دیا مرد و عورت کو بقدر ضرورت تعلیم حاصل کرنا اسلام نے ہی فرض قرار دیا.
تعلیم کی دو قسمیں ہیں ایک عصری تعلیم جس کو دنیاوی تعلیم اور جدید تعلیم بھی کہا جاتا ہے جس کے ماہرین سیکولر انداز پر زور دیتے ہیں اس سے صرف عصری یا دنیاوی ضروریات پوری ہوتی ہے، دوسرا دینی تعلیم جس کو مذہبی تعلیم بھی کہتے ہیں اس تعلیم سے دو فائدے ہیں دنیاوی اور اخروی یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا کے تمام تر علوم و معارف کا سرچشمہ اور منبع ہے۔دنیا کے تمام علوم اسی کے مرہون منت ہیں تعلیم اور مسلمانوں کا ہر دور میں چولی دامن کا ساتھ رہا کیوں کہ تعلیم ہی کسی قوم کے لیے ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے جو قوم علم حاصل کرنے میں آگے بڑھتی ہیں اور اس کی روشنی سے استفادہ کرتی ہے وہی قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر کے دنیا پر حکمرانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
وطن عزیز ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی کیفیت ناگفتہ بہ اور تشویش ناک ہے، مسلمانوں کی زندگی کے جملہ شعبہ جات سے متعلق تحقیقی جائزہ لینے کے لیے حکومت ہند نے 2004 میں جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی سے ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی،اقتصادی،سماجی اور دیگر شعبوں کے متعلق جو رپورٹ پیش کی وہ نہایت ہی چشم کشا اور حیرت انگیز ہے،سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان ہندوستان میں نہایت ہی پسماندہ ہیں، نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر، رہا تعلیم کا مسئلہ تو تعلیم کے علم بردار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی نہایت درجہ تشویش ناک ہے، مسلمانوں کے بارے میں عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم زیادہ دلواتے ہیں لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف مسلمانوں کے چار یا پانچ فیصد بچے ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں،یہ اعداد و شمار مسلمانوں کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں کہ صرف چار اور پانچ فیصد بچے ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ آبادی کے اعتبار سے 50 فیصد یہ تناسب ہونا چاہیے لیکن مسلمان صرف دینی تعلیم میں ہی پسماندہ نہیں بلکہ عصری تعلیم میں بھی ان کی حالت ناقابل رحم ہے۔
١٨٥٧ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں کی زندگی کا کارواں ایک دم لٹ پٹ گیا اور حالات یکسر تبدیل ہو گئے، اب نہ زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہیں اور نہ ریاستیں اور جاگیریں، اردو اور فارسی کے بجائے انگریزی رابطے کی زبان ہو گئی،معاشی خوشحالی اور اعلیٰ مناصب کے لیے تعلیمی
لیاقت اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی اولین شرطیں مان لی گئیں اور عصری تعلیم کے لیے بڑے پیمانے پر اسکول اور کالجیں کھول دیے گئے، ان بدلتے ہوئے حالات میں مسلمانوں نے مواقع سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہیں تلاش کرنے کے بجائے صرف شکوے اور شکایت اور احتجاج کرتے رہے، انگریزوں کی مخالفت کے ساتھ انگریزی زبان کی مخالفت پر اتر آئے،عصری تعلیم سے نابلد رہے، تعلیم سے یہی بے اعتنائی ان کی ذلت و رسوائی کا سبب بن گی، ہندوؤں نے خود کو حالات کے تقاضے کے مطابق ڈھال کر زندگی کی دوڑ میں مسلمانوں سے آگے نکلتے ہوئے نظر آئے اور آج بھی وہ تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہیں موجودہ دور میں اگر مسلمان ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو عصری تعلیم سے آراستہ ہونا پڑے گا تب ہی جا کے وہ دنیا کے تیز رو قافلے کا ساتھ پکڑ سکتے ہیں اگر ہم ابھی بھی نہیں جاگے اور شکوہ اور شکایت کرنے میں اپنے وقت کو گزار دیے تو ہم قافلہ سے سینکڑوں سال پیچھے چلے جائیں گے اور کوئی ہمارا پرسان حال نہیں ہوگا۔
دور حاضر میں عصری تعلیم کے بے پناہ فوائد ہیں:زندگی کے ہر شعبوں میں آج عصری تعلیم کی رنگا رنگی نظر آتی ہے قوموں کی قیادت،سیاست مدن اور تدبیر منزل جیسے اوصاف عصری تعلیم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے،سائنس اور ٹیکنالوجی کے برق رفتار عہد میں عصری تعلیم کے بغیر باوقار زندگی گزارنے کا تصور محال سا نظر آتا ہے۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جب ہمارا نوجوان عصری تعلیم سے بھی آراستہ ہوگا تو وہ دور حاضر کے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا نہ صرف سامنا کرے گا بلکہ سختی سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرے گا،عصری تعلیم سے روزگار اور آمدنی کے ذرائع بھی کشادہ ہوں گے جس سے غربت، افلاس اور تنگ دستی جیسے مسلم معاشرے کے مسائل کا خاتمہ ہونے میں بھی مدد ملے گی، آج ہمارے سماج میں عالم باعمل اور مفتیان کرام کے ساتھ ساتھ اچھے ڈاکٹروں، انجینیروں، قانون دانوں، محققوں، اور سائنس دانوں کی بھی اشد ضرورت ہے اور یہ سب عصری تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔
دور حاضر کے تقاضوں سے آگاہی کے بغیر ہم اپنا کاروان حیات کامیابی و کامرانی کے ساتھ آگے نہیں بڑھا سکتے اور اس کا شعور و ادراک دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے حصول سے ہی ممکن ہوگا، اس بات کو بھی ذہن نشیں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ عصری تعلیم کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہی بہت سے نقصانات بھی ہیں اسی بنیاد پر مسلمانوں میں عصری تعلیم کو لے کر ہمیشہ بحث و تمحیص کا موضوع بنی رہی ہے اس کے بارے مثبت اور منفی دونوں نظریات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جہاں ایک طبقہ عصری تعلیم کا زبردست حامی رہا ہے، وہیں وہ طبقہ جس میں ہمارے بعض علماے کرام بھی شامل ہیں جدید اور عصری تعلیم کا مکمل طور پر انکار نہ کرتے ہوئے بھی حتی الامکان عصری تعلیم سے دوری بنائے رکھنے کے قائل نظر آتے ہیں، لیکن دونوں طبقے اس بات کو ضرور مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی ڈاکٹر، سائنسداں، قانون داں اور ماہر ریاضی و فلسفہ بننے کی سخت ضرورت ہے۔ اسلام کی حقیقت پسندانہ اور روشن و منور فکر کے باوجود دور حاضر کا یہ المیہ ہے کہ مسلمانوں کے علمی عروج و اقبال کا آفتاب جس طرح اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر کئی صدیوں تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا آج اسی قدر انحطاط و تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے عصری تعلیم کی فقدان کی وجہ سے ہم زندگی کے اہم شعبہ جات میں اہل مغرب کی خیر محسوس غلامی کر رہے ہیں، معاشرت معیشت، ثقافت،سیاست،تجارت اور دیگر معاملات میں مسلمان اغیار کے غلام بن کر رہ گئے، مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی قیادت و رہنمائی کے لیے کی گئی ہے اور جس کے سر پر خلافت کا تاج زرین سجایا گیا ہے وہ آج خود نشان منزل کھو بیٹھا ہے اور سراب سفر کو مقصود حقیقی سمجھ کر اسی پر قانع و شاکر ہے، اسی لیے ذلت و نکبت کے دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے. ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم شاندار ماضی اور عبرت ناک حال کو دیکھ کر روشن مستقبل کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کریں اور یہ دور حاضر میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دور حاضر میں سائنس کی جتنی بھی ایجادات اور انکشافات ہیں یہ سب مسلم سائنس دانوں کی مرہون منت ہیں۔ بہت سارے مسلمان سائنسدان جدید علوم و فنون کی آبیاری اور ارتقاء میں نمایاں کردار ادا کیا۔جب یورپ جہالت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ غاروں میں محصور تھا،اس وقت بغداد، مراکش اور دیگر اسلامی ملکوں میں علوم و فنون کی قندیلیں روشن تھیں،ہمارے علما صرف دینی تعلیم ہی میں آگے نہیں تھے بلکہ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے شاگردوں کو عصری تعلیم سے بھی آراستہ کر رہے تھے اہل یورپ اپنے بچوں کو ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے،اہل یورپ مسلمانوں سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر کے آج وہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں بن گئیں
جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور جاپان کے درمیان قتل و غارت گری کی ایک طویل داستان ہے 1945ء میں امریکہ نے بمباری کر کے جاپانی قوم کے بہت سے علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا، بالآخر جاپان کی شکست پر جنگ ختم ہوئی، عناد کی آگ ان کے دلوں میں بھڑک تو رہی تھی لیکن جاپانی حکومت نے بدلا لینے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ تعلیم اور ٹیکنالوجی پر دی آج اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو ملک دوسری عالمی جنگ میں شکست کھا کر نکلا تھا وہ دنیا کے سامنے فاتح بن کر کھڑا ہے،جاپانیوں نے ٹیکنالوجی میں آج اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ صنعتی میدان میں سب کو شکست دے دی ہے، ہم مسلمانوں کے لیے یہ ایک بہت ہی عمدہ مثال ہے کہ مسلسل شکست و ریخت سے ابھی تک سبق حاصل کریں، اور اپنے زوال کے بنیادی سبب کو تلاش کر کے اس پر عمل درآ۶۴مد شروع کریں ہمیں درج ذیل تجاویز پر فوری طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.
(ا) مسلمانوں میں تعلیمی شعور کو پیدا کرنا، تعلیم کے فائدوں اور ترک تعلیم کے نقصانات سے ان کو آگاہ کرنا(۲) تعلیم کے مواقع فراہم کرنا، مسلمان بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد غربت و افلاس اور معاشی تنگیوں کے باعث اپنا تعلیمی سفر یا تو شروع نہیں کر پاتی یا اس کو جاری نہیں رکھ سکتی ایسے بچوں کا محلہ جاتی سطح پر سروے کر کے ان کی تعلیمی کفالت کا بندوبست کرنا،اس سے بھی منظم صورت یہ ہے کہ ہر محلہ یا علاقے میں ایسے اسکول قائم کرنا جہاں مفت یا رعایتی فیس پر معیاری تعلیم کا انتظام ہو اہل ثروت اور اصحاب خیر حضرات اس کے لیے سبقت کریں اور آگے آئیں تو امت مسلمہ پر ان کی طرف سے بڑا احسان ہوگا اور ان کے لیے دارین کی سعادتوں اور برکتوں کا ذریعہ ہوگا(۳) گورنمنٹ کی طرف سے بہت ساری تعلیمی اسکیمیں اور طلباکے لیے رعایتیں، وقفہ وقفہ سے جاری ہوتی رہتی ہیں،عام طور سے مسلمان قوم ان سے واقف نہیں رہتی یا اس کے سلسلے کی صحیح معلومات اور فائدہ اٹھانے کے طریقوں سے ان کو واقفیت نہیں ہوتی اس پس منظر میں شخصی طور پر بھی اور تنظیمی طور پر بھی اس سے صلاحیت مند افراد کو آگے آنا چاہیے اور رعایتوں سے ضرورت مندوں کو متعارف کروانا چاہیے.
یہ بڑے افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس وقت امت مسلمہ کے کم سن نو عمر لڑکے اور لڑکیاں دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنا ان کا مزاج بن چکا ہے 99 فیصد لڑکے انٹرنیٹ اور یوٹیوب کی غلازتوں اور گندگیوں کا مشاہدہ کر کے اپنی جوانی،صحت اور اپنے دل و دماغ کی کسوٹی کو تیزی کے ساتھ کھو رہے ہیں،اگر ان کو تعلیمی میدان میں لانا اور آگے بڑھانا ہے تو ان کی اخلاقی اور نفسیاتی تربیت بھی بہت ضروری ہے اس کے لیے علما اور مبلغین کی ایک جماعت کو بھی سرگرم عمل رہنے کی ضرورت ہے اگر ہم ان تجاویز پر عمل در آمد کریں تو کم وقت میں امت مسلمہ کی تعلیمی زبوں حالی دور ہو سکتی ہے اور ان کے شاندار ماضی کی طرح تابناک مستقبل کا سورج بھی بہت جلد طلوع ہو سکتا ہے۔
غریب نواز مصباحی
البرکات
0 تبصرے