Header New Widget

کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات

"کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات"

              اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن کا نام کنزالایمان ہے۔کنزالایمان کا معنی ہے ایمان کا خزانہ۔کنزالایمان اور دیگر تراجم کا دقت نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد کوئی بھی غیر جانبدار قاری اس امر کا کھلے الفاظ میں اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کے کنزالایمان تمام تراجم میں منفرد ممتاز اور جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔اس امتیاز کو انفرادیت کی متعدد وجوہات ہیں لیکن یہاں کنزالایمان کے امتیاز اور شرف و انفرادیت کے جن پہلوؤں کا ذکر کرنا مقصود ہے،انہیں کچھ اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اسلوب ترجمہ، انداز بیان، معنویت و مقصدیت ۔صوتی حسن،سلاست ترنم اور نغمگی،ادب الوہیت اوراحترام رسالت۔

      اسلوب ترجمہ

- برصغیر ہند وپاک میں ترجمے کے بالعموم دو اسلوب مروج ہیں،ایک اسلوب لفظی ترجمہ کا ہے ۔جبکہ دوسرا بامحاورہ ترجمہ کا ۔لفظی ترجمہ اس ترجمہ کو کہتے ہیں کہ ہر ہر لفظ کے نیچے اس کا ترجمہ ہو ۔اس ترجمے میں عبارت کے تسلسل روانی بیان اور ربط و نظم کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر لفظ کے نیچے اس کا ترجمہ ہوتا ہے اس لئے پڑھنے والا قرآن پاک کے ہر ہر لفظ کے معنی سے تو باخبر ہو جاتا ہے ۔لیکن جب وہ اس ترجمہ کو مسلسل عبارت سمجھ کر پڑھنا چاہتا ہے تو عبارت میں تسلسل روانی اور نظم و ضبط کے فقدان کے باعث اسے تفہیم مطالب میں دقت آتی ہے۔وہ محسوس کرتا ہے کہ نہ پہلی گفتگو کے ساتھ اس مقام کا کوئی ربط ہے اور نہ اگلی عبارت کے ساتھ کوئی تعلق۔

         قرآن کریم کے تراجم کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ترجمے کا آغاز اگر چہ لفظی ترجمہ سے ہوا۔لیکن اس اسلوب ترجمہ میں مذکورہ سقم اور بیانی کمزوریوں کی بنا پر علماء نے بامحاورہ ترجمہ کی طرف زیادہ توجہ دی۔اسی طرح کچھ مترجمین زبان دانی کے جوہر دکھانے پر اکتفا کیا اور ان کی تمام تر کوششیں عبارت آرائی،انشا پردازی پر صرف ہونے لگی۔جس کے نتیجے میں توجہ فہم قرآن سے ہٹ کر زبان دانی پر مرکوز ہو گئی اور جس طرح لفظی ترجمہ پڑھنے والا الفاظ و محاورات اور دور از کار تراکیب کی بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ گیا۔قرآن حکیم کا حقیقی مفہوم نہ تو لفظی ترجمہ کر سکا اور نہ ہی بامحاورہ ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ میں یہ بنیادی کمزوریاں تھیں۔ جو تفہیم القرآن کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھی ۔ 

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے کنزالایمان کے نام سے قرآن حکیم کا ایسا ترجمہ کیا جو لفظی ترجمہ کے نقائص سے مبرا ہے اور بامحاورہ ترجمہ کی کمزوریوں سے بھی پاک۔ ہے ۔ 

                کنزالایمان نے قرآنی عبارت کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری اسے پڑھ کر حتیٰ الوسیع ہر لفظ کا لفظی (ترجمہ )معنی بھی سمجھ سکتا ہے۔ اور قرآن کی حقیقی مراد اور مفہوم تک بھی باآسانی رسائی پا سکتا ہے ۔ کنزالایمان نا تو قدیم اسلوب کے اعتبار سے محض لفظی ترجمہ اور نہ ہی جدید اسلوب کے لحاظ سے فقط با محاورہ ہے۔

 

        کنزالایمان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے لفظی ترجمہ کے محاسن کے حوالے سے جو قرآن کے ہر ہر لفظ کا مفہوم اس طرح واضح کر دیا ہے کہ اسے پڑھ لینے کے بعد کسی لغت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور با محاورہ ترجمہ کے محاسن کو بھی اس خوبی وہ کمال کے ساتھ اپنے اندر سمو لیا ہے کہ عبارت میں کسی قسم کا بوجھ یا ثقل محسوس نہیں ہوتا۔ 

          " یعلمک من تاویل الاحادیث" اس کا محاورہ ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ "اللہ تجھے خوابوں کی تعبیر سکھا دے گا " اسی طرح لفظی ترجمہ کرنے والوں نے بھی تاویل الاحادیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کیا ہے کہ کے بات واضح نہیں ہوتی ۔ اس طرح دونوں طرح کے تراجم سے لفظ تاویل کا معنی واضح نہیں ہوسکا اور یہ پتا نہ چل سکا کہ تاویل کہتے کسے ہیں؟ آئیں اب ذرا اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے ترجمہ پر نظر ڈالتے ہیں ۔وہ اس مقام پر ترجمہ کرتے ہیں " اور (تیرا رب) تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا "۔ اعلیٰ حضرت نے احادیث کا ترجمہ باتوں کیا ہے۔اس لیے کہ حدیث بات کو کہتے ہیں،اسی طرح آپ نے تاویل کا معنی انجام نکالنا کیا ہے۔ قران پاک کے ترجمہ کی پوری تاریخ میں یہ ترجمہ کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔تاویل کا معنی متعین کرنے اور دیکھنے کے لیے کیا یہ معنی فی الواقع عربی قواعد و ضوابط کی رو سے درست ہے؟ کتب لغت کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ لغت کی رو سے تاویل کا لفظ "اول"سے مشتق ہے ۔اور" اول "کا معنی ہے "رد الشئ الی الغایۃ المرادۃ منہ" کسی چیز کا غائب مقصود یعنی انجام کی طرف لوٹ آنا ۔چنانچہ تاویل کا مطلب نکالنا، انجام سے باخبر ہونا ، غایت سے آگاہ ہونا اور اس مقصد اصلی سے مطلع ہونا ہے ۔جو کسی کلام کی تہہ میں مخفی ہو ۔علماء تفسیر اور علماء لغت نے اس کا یہی معنی متعین کیا ہے۔چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کا یہ ترجمہ کہ وہ تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھا دے گا " قواعد عربی کے عین مطابق ہے۔مذکورہ ترجمہ لفظی بھی اور با محاورہ بھی ہے ۔بامحاورہ اس طرح کے اس میں لفظی ترجمہ کاجھول باقی نہیں رہا ۔اس ترجمے سے نہ تو عبارت کی رونق متاثر ہوئی ہے اور نہ تسلسل ٹوٹا ہے نہ کہیں عبارت میں سقم پیدا ہوا ہے ۔ اس ترجمے میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کا اس کمال خوبی کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے۔اس ترجمے میں غیر ضروری عبارت آرائی سے گریز کے ساتھ لفظ تاویل کا معنی تلاش کرنے کی حاجت بھی نہیں رہی۔

(جاری)  


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے