کالجوں کے شہر دھارواڑ میں ایک دن
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
____________اکیس ستمبر 2024 کی ٹھنڈی صبح میں نبیرہ صدرالافاضل حضرت مولانا سید انعام الدین منعم نعیمی صاحب کی معیت میں ہمارا دو رکنی قافلہ دہلی ائیر پورٹ کے ٹرمنل نمبر دو سے ہبلی دھارواڑ کے لیے روانہ ہوا۔جہاں ہمارے عزیز دوست مولانا اقبال مانک نعیمی کے ادارے مدرسہ خواجہ بندہ نواز کا جلسہ میلاد النبی وردا پوشی ہونا تھا۔دو گھنٹے پانچ منٹ کا دورانیہ تھا، ہم تو عادت کے مطابق بیٹھتے ہی سو گیے لیکن مخدوم گرامی سید انعام میاں صاحب بیدار ہی رہے۔ویسے بھی اچھا میر کارواں منزل تک پہنچے بغیر کہاں آرام کرتا ہے، سو حضرت نے اپنا حق ادا کیا اور ہم ان کی موجودگی میں نیند کا تھوڑا بہت حصہ پانے میں کامیاب رہے۔تقریباً سوا آٹھ بجے ہم لوگ ہبلی ائیر پورٹ پر اتر چکے تھے۔چھوٹا سا ائیر پورٹ ہے اس لیے بیلٹ سے سامان لینے اور باہر آنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔باہر نکلے تو مولانا اقبال صاحب ہاتھوں میں ہار پھول لیے منتظر تھے۔چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہبلی ائیر پورٹ ہرا بھرا اور خوب صورت نظر آتا ہے، خصوصاً بارش کے دنوں میں تو اس کی ہریالی دیدنی ہوتی ہے۔میں تو بارہا اس ائیر پورٹ پر آچکا ہوں پہلی بار یہاں پہنچے سید انعام میاں صاحب نے بھی اس کی خوب صورتی کا اعتراف کیا۔
*کالجوں کا شہر ہے دھارواڑ _______*
پچیس تیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہمارا قافلہ دھارواڑ کے اشوکا ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ہبلی اور دھارواڑ کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے دونوں کے درمیان تقریباً بیس کلومیڑ کا فاصلہ ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے کہ ایک شہر ختم ہوا نہیں کہ دوسرا آگیا۔دھارواڑ کئی جہتوں سے تاریخی شہر ہے۔14 ویں صدی میں یہ شہر دکن کی مشہور بہمنی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔بعد میں وجے نگر کے ہندو راجا اس شہر پر قابض ہوگیے۔سن 1573ء میں بیجا پور کے سلطان عادل شاہ نے اس شہر کو فتح کرکے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔عادل شاہ نے فتح یابی کے بعد اس علاقے میں ایک قلعہ بھی تعمیر کرایا جسے نضرت آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس قلعے کی تعمیر سے دھارواڑ کی اسٹریجک اہمیت اور بڑھ گئی۔سن 1685 میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے دکن کی فتوحاتی مہم کے تحت دھارواڑ کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنایا۔سن 1707 میں ان کے انتقال کے بعد مغل سلطنت روز بروز کمزور پڑتی گئی اس طرح زوال مغل کے بعد اس شہر پر مراٹھا قابض ہوگیے۔مراٹھوں کے قبضے کو 1764 میں میسور کے حاکم حیدر علی نے چیلنج کیا اور انہیں شکست دے کر سلطنت میسور کا جھنڈا لہرایا۔1791 میں مراٹھا پھر سے دھارواڑ پر قابض ہوئے، اخیر میں 1818ء میں مراٹھا پیشوا کی شکست کے ساتھ ہی انگریز بہادر یہاں قابض ہوگیے۔اس طرح مختلف سلطنتوں کے قبضوں اور عروج وزوال کا گواہ رہا یہ شہر ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں آگیا۔سن 1856 میں انگریزوں نے اس شہر کو نگر پالیکا کا درجہ دیا۔آزادی کے بعد 1962 میں ہبلی اور دھارواڑ کو ملا کر نگر نگم بنا دیا گیا۔
دھارواڑ کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہاں اعلی تعلیم کے دس بیس نہیں بل کہ 148 کالج ہیں۔جہاں آرٹ، سائنس، تکنیک، زراعت، میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے۔کالجوں کی بنا پر اس شہر کو کرناٹک کا تعلیمی مرکز بھی کہا جاتا ہے، چند نمایاں کالجوں کے نام اس طرح ہیں:
1۔کرناٹکا یونیورسٹی دھارواڑ
2۔کرناٹکا آرٹس کالج
3۔یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائنس
4۔کرناٹکا سائنس کالج
5۔انجمن آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کالج
6۔ایس ڈی ایم کالج آف ڈینٹل سائنس
7۔انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی
8۔انجمن انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن
9۔یونیورسٹی کالج آف لا
10۔کے ایل ای ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی
11۔ٹیپو شہید انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی
12۔فاطمہ کالج آف کامرس
اس طرح پورا شہر کالجوں سے گلزار ہے۔اس لیے شہر میں تقریباً 86 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں حکومتی ملازمت میں بھی نمائندگی رکھتے ہیں۔
*__________وقت کا پابند جلسہ*
ہوٹل میں ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد قدرے لیٹ جانا ہی مناسب لگا سو لائٹیں آف کیں، پردے کھینچے اور بستر پر دراز ہوگیے۔تقریباً بارہ بجے بیدار ہوئے۔اس درمیان ممبئی سے سلسلہ نعیمیہ کے کچھ مریدین بھی آچکے تھے جو قبلہ سید انعام میاں سے ملنے کے لیے پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے آئے تھے۔ان میں محمد رضوان نعیمی، محمد اجمل خان، شوکت نعیمی، شہباز نعیمی، شہنواز نعیمی اور کمال الدین نعیمی وغیرہ شامل تھے۔سب نے مل کر کھانا تناول کیا، بعدہ نماز ظہر ادا کی۔اس کے بعد مختلف علما آتے رہے، محفل چلتی رہی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔نماز عصر ادا کی کہ بلگام کرناٹک کی سرزمین سے مولانا سردار احمد نعیمی تشریف لائے جو اتفاق سے جلسے کے ناظم بھی تھے اور زمانہ طالب علمی کے لحاظ سے ہم سے ایک سال سینئر بھی! آپ نے کرناٹک کی مقامی روایت کے مطابق شال، ہار پہنا کر صاحب سجادہ اور فقیر کو استقبالیہ دیا، نذر پیش کی اور بڑی محبتوں کا اظہار کیا۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے۔
شام کی چائے میں کب وقت گزر گیا پتا ہی نہیں چلا، بعد مغرب جلسہ اور ٹھیک آٹھ بجے ہماری تقریر شروع ہوگئی۔بنیادی عنوان تعلیم دین کی مذہبی اور سماجی انفرادیت تھا۔یہ جلسہ منگل گٹی پلاٹ سادھن کیری میں منعقد ہوتا آیا ہے۔یہاں بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ خصوصاً پولیس میں سروس کرنے والے افراد آباد ہیں۔خود مولانا اقبال کی فیملی میں ان کے والد، چچا، بھائی، بہنوئی وغیرہ بھی اسی محکمہ میں ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ابتدا ہی سے یہ طبقہ بڑی دل جمعی سے شریک ہوتا آیا ہے۔جس کی بڑی وجہ جلسے کا وقت پر شروع اور ختم ہونا ہے۔سنجیدہ اور باشعور خطبا کا انتخاب بھی ایک اہم سبب ہے۔مغرب کے فوراً بعد جلسہ شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک ہر حال میں ختم کر دیا جاتا ہے۔اختتام جلسہ پر ہی نماز عشا ادا کی جاتی ہے۔انہیں وجوہات کی بنیاد پر سامعین اخیر تک موجود رہتے ہیں۔فقیر تقریر کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
1۔علم دین کا بنیادی مقصد لوگوں کو نفع پہنچانا ہے، نہ کہ فائدہ اٹھانا، جیسا کہ علم دنیا کے جانکار پہنچاتے کم اور اٹھاتے زیادہ ہیں۔
2۔ریکارڈ کے مطابق کیرل بھارت کا سب سے تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جہاں تقریباً 97 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اس کے باوجود وہاں بوڑھے لوگوں کی انتہائی ناقدری ہے جس کی وجہ سے وہاں سب سے زیادہ اولڈ ایج ہوم(old age home) پائے جاتے ہیں، سب سے تعلیم یافتہ صوبے میں بوڑھوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں؟ شاید اس لیے کہ ان کی تعلیم نے انہیں نام، پیسہ اور شہرت کمانا تو سکھایا لیکن احترام انسانیت نہیں، جس کی بنا پر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہاں کے بوڑھے آشرموں میں جینے کو مجبور ہیں۔
3۔تعلیم دین ہی رشتوں کی اہمیت اور حقوق سکھاتی ہے، اس لیے بھی بچوں کو تعلیم دین سکھانا بے حد ضروری ہے۔
4۔تعلیم دین ہی ہماری نسلوں کو با ادب بناتی ہے اس لیے بھی بچوں کی دینی تعلیم بے حد ضروری ہے۔
اخیر میں نبیرہ صدرالافاضل حضرت مولانا سید انعام میاں صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کچھ بنیادی چیزوں پر نصیحت فرمائی،جس کے اہم نکات یہ ہیں:
1۔مومن کا توکل اللہ پر ہونا چاہیے، توکل علی اللہ ہے تو ہر پریشانی آسانی میں بدل سکتی ہے۔
2۔نیت میں اخلاص اور جہد مسلسل انسان کو ہمیشہ کامیابی کی دہلیز تک پہنچاتی ہے۔
3۔جو کریں خالصتاً لوجہ اللہ کریں، اخلاص کا ثمرہ انسان ہی کو نہیں اس کی نسلوں کو بھی ملتا ہے۔ہمارے جد امجد سیدی صدرالافاضل نے علم دین کے لیے جو کیا خالصتاً اللہ کے لیے کیا، اس کا ثمرہ انہیں تو ملا ہی ان کی اولادوں کو بھی ملا، حالانکہ نہ انہوں نے زندگی بھر ادارے سے کوئی تنخواہ لی نہ ان کی اولادیں کچھ لے رہی ہیں مگر پھر بھی پورا گھرانہ دینی ودنیوی اعتبار سے خوش حال ہے، یہ سب ان کے اخلاص ہی کی برکتیں ہیں۔لہذا کوئی بھی عمل ہو اس میں اخلاص ہونا چاہیے۔
امسال ادارے سے ایک بچی نے حفظ قرآن کا اعزاز حاصل کیا تھا، جس کی سند سید صاحب کے دست مبارک سے بچی کے چچا اور ماموں نے حاصل کی۔صلاۃ وسلام کے بعد سید صاحب کی دعا پر جلسے کا اختتام ہو گیا، جب کہ ابھی دس بجنے میں کچھ وقت باقی تھا۔درمیان میں ہلکی پھلکی بوندا باندی بھی ہوئی مگر وہ ایسی نہیں تھی کہ پریشانی ہو، اس لیے اس کا بھی لطف اٹھایا گیا۔اہم شرکا میں مولانا حنیف رضوی، مولانا سردار نعیمی، مولانا ریاض جانی، حافظ ظہیر الدین، مولانا شمیم، مولانا غلام رسول رضوی، مفتی شہباز، مولانا بادشاہ، مولانا سید الطاف حسین سمیت درجن بھر سے زائد علما وائمہ شریک رہے۔
صبح کو ہبلی ائیر پورٹ سے دہلی نکلنا تھا۔میز پر کرناٹک کا روایتی ناشتہ اڈلی سانبھر ہماری راہ دیکھ رہا تھا اور ہم کھوپرا چٹنی پر نگاہ جمائے ہوئے تھے۔ہر دو فریق اپنی اپنی جگہ کامیاب رہے۔یوں تو اڈلی سانبھر اب دہلی سمیت دیگر شہروں میں بھی ملنے لگا ہے مگر جو بات کرناٹک کے ذائقے میں ہے وہ دہلی ویوپی میں کہاں ملتی ہے۔محبتوں کو سمیٹ کر اہل دھارواڑ سے اجازت لی اور کارواں اگلے سفر کی جانب روانہ ہوگیا۔
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
3 ربیع الثانی 1446ھ
7 اکتوبر 2024 بروز پیر
Copy pest
0 تبصرے