حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی جامعِ سلاسلِ طریقت
مولانا نوشاد عالم اشرفی جامعی کشن گنجوی
اپنے عہد کے مشہور و معروف صوفی بزرگ ، مادر زادولی ٬ قدوة الكبریٰ ، تارک السلطنت ٬ محبوب یزدانی ٬ غوث العالم ، حضرت مخدوم سلطان میر سید اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نور بخشی کچھوچھوی قدس سرہ ( متوفیٰ : ۸۰۸ ھ / مطابق ۱۴۰۸ ء ) جن خصائص و کمالات کی بنیاد پر اپنے اقران و معاصرین میں منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں ٬ ان میں ایک اہم خصوصیت آپ کا جامعِ سلاسلِ طریقت ہونا ہے ۔ آپ کے سیرت نگاروں نے اس امر کی صراحت فرمائی ہے کہ آپ کو چہاردہ ( چودہ ) سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت حاصل تھی اور آپ تمام مشائخ وقت سے فیضیاب تھے ۔ ( 1 ) ان چہارده سلاسلِ طریقت کا تعلق گروہِ صوفیا کے مشہور چودہ خانوادوں سے ہے ٬ جن میں سے ہر خانوادہ کا سلسلہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے جو خوانِ مصطفوی کے پروردہ اور دسترخوانِ مرتضوی سے بہرہ مند تھے ۔ یہاں مضمون کی وضاحت کے لیے ان خانوادوں کے تعارف کی تفصیلات میں نہ جا کر ان کے نام ان کے بانیان کے نام کے ساتھ شمار کیے جانے پر اکتفا کیا جاتا ہے :
( 1 ) ان میں سے پہلا خانوادہ " خانوادۂ زیدیاں " ہے جس کا تعلق حضرت خواجہ حسن بصری کے مرید و خلیفۂ اول حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید بصری رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۱۷۱ ھ ) سے ہے ۔
( 2 ) دوسرا خانوادہ " خانوادۂ عیاضیاں " ہے جس کے بانی حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید کے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ فضیل بن عیاض مکی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۱۸۷ ھ ہیں ۔
( 3 ) تیسرا خانوادہ " خانوادهٔ ادہمیاں " ہے جو خواجہ فضیل بن عیاض کے خلیفہ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم بلخی رحمۃ اللہ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۱۶۱ ھ یا ۱۶۶ ھ یا ۱۸۷ ھ ) سے منسوب ہے ۔
( 4 ) چوتھا خانوادہ " خانوادۂ ہبیریاں " ہے جو حضرت خواجہ ابو ہبیرہ امین الدین بصری رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۲۸۷ ھ ) سے منسوب ہے ٬ جو خلیفہ تھے حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 5 ) پانچواں خانوادہ " خانوادۂ چشتیاں " ہے جو حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۳۲۹ ھ ) سے منسوب ہے جو خلیفہ تھے حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 6 ) چھنا خانوادہ " خانوادۂ حبیبیاں یا عجمیاں " ہے جس کا تعلق خواجہ حسن بصری کے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۱۲۰ ھ یا ١٤١ ھ یا ۱۵۶ ھ ) سے ہے ۔
( 7 ) ساتواں خانوادہ " خانوادۂ طیفوریاں " ہے جو سلطان العارفین حضرت خواجہ با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۲۳۴ ھ یا ۲۶۱ ھ ) سے منسوب ہے جو خلیفہ تھے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 8 ) آٹھواں خانوادہ " خانوادۂ کرخیاں " ہے جو حضرت خواجہ معروف کرخی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۲۰۰ ھ ) سے منسوب ہے جو مرید و خلیفہ تھے حضرت خواجہ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 9 ) نواں خانوادہ " خانوادۂ سقطیاں " ہے جو خواجہ معروف کرخی کے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ سری سقطی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ) متوفیٰ : ۲۵۳ ھ ) سے منسوب ہے ۔
( 10 ) دسواں خانوادہ " خانوادۂ جنیدیاں " ہے جو خواجہ سری سقطی کے مرید و خلیفہ طاؤس العلماء ٬ سلطان المحققین ، سید الطائفہ حضرت خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۲۴۹ ھ یا ۲۹۷ ھ یا ۲۹۸ ھ ) سے منسوب ہے ۔
( 11 ) گیارہواں خانوادہ " خانوادهٔ گاذرونیاں " ہے جو حضرت خواجہ ابو اسحاق گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۴۲۶ ھ ) سے منسوب ہے جو مرید اور خلیفہ تھے شیخ الاسلام حضرت خواجہ عبد اللہ خفیف قدس سرہ کے ۔
( 12 ) بارہواں خانوادہ " خانوادۂ طوسیاں " ہے جو حضرت شیخ علاء الدین طوسی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے جو مرید اور خلیفہ تھے حضرت خواجہ و جیہ الدین ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 13 ) تیرھواں خانوادہ " خانوادۂ سہروردیاں " ہے جو حضرت شیخ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ :۵۶۳ ھ ) سے منسوب ہے جو مرید اور خلیفہ تھے حضرت خواجہ وجیہ الدین ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ کے ۔
( 14 ) چودھواں خانوادہ " خانوادهٔ فردوسیاں " ہے جو حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ : ۶۱۸ ھ ) سے منسوب ہے جو حضرت بابا فرخ تبریزی کے فیض یافتہ ، حضرت شیخ اسماعیل قصری کے مرید ، حضرت شیخ عمار یاسر اور حضرت شیخ روز بھان کبیر کے تربیت یافتہ اور حضرت شیخ ابو النجیب سہروردی کے خلیفہ تھے ۔
مذکورہ چودہ خانوادوں میں سے پہلے خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ زیدیہ ، دوسرے خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ عیاضیہ ، تیسرے خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ ادہمیہ، چوتھے خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ ہبیریہ ٬ پانچویں خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ چشتیہ ، چھٹے خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ حبیبیہ یا عجمیہ ، ساتویں خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ طیفوریہ ٬ آٹھویں خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ کرخیہ ، نویں خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ سقطیہ ، دسویں خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ جنیدیہ ، گیارھویں خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ گاذرونیہ ٬بارہویں خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ طوسیہ ، تیرھویں خانوادہ کا سلسلہ ، سلسلہ سہروردیہ اور چودھویں خانوادہ کا سلسلہ ٬ سلسلہ فردوسیہ کہلاتا ہے ۔ ( 2 )
یہی سلاسل مشائخِ روزگار میں مشہور اور طریقت کے باب میں اصل الاصول ہیں ۔ بعد میں جتنے سلاسل وجود میں آئے ہیں وہ یا تو انھیں سے نکلے ہوئے ہیں یا پھر سادات سے مستنبط ہیں یا پھر حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ ہیں ۔ سادات سے مستنبط ہونے والے سلاسل سے مراد بعض وہ سلاسل ہیں جو سادات و ائمۂ اہلِ بیت اطہار سے گزرتے ہوئے حضرت حسن بصری کے واسطہ کے بغیر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتے ہیں اور حضرت اویس قرنی سے فیض یافتہ سلاسل سے مراد ان مشائخ طریقت کے سلاسل ہیں جو خانوادہ اویسیاں سے نسبت رکھتے ہیں ۔ ( 3 )
*خانوادہ اویسیان کا تعارف* :
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے شیخ طریقت حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے " خانوادۂ اویسیان " کے تعارف میں فرمایا ہے کہ اویسیاؔن خدائے بزرگ و برتر کے اولیائے کرام میں ان مقدس شخصیات کو کہا جاتا ہے جن کے لیے عالم ظاہر میں کوئی پیر و مرشد نہیں ہوتے بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کسی واسطے کے بغیر بذات خود اپنے حجرۂ عنایت میں ان کی پرورش فرماتے ہیں ٬ جیسا کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی فرمائی ۔ حضرت مخدوم پاک فرماتے ہیں کہ اسی طرح بعض اولیائے کرام حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اتباع میں بغیر کسی واسطے کے بعض طالبان طریقت کی تربیت اپنی قوتِ روحانیہ سے فرماتے ہیں ۔ یہ جماعت بھی سلسلہ اویسیان میں داخل ہے ۔ ( 4 )
*حضرت مخدوم اشرف سمنانی کو مندرجہ ذیل سلاسل کی خلافت حاصل تھی* :
سلاسلِ طریقت کے بارے میں ان بنیادی معلومات کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے ممدوح غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو کن کن سلاسل کی خلافت و اجازت حاصل تھی ۔
( 1 ) *سلسلۂ سراجیہ کی خلافت* :
حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کو جن سلاسل کی خلافت حاصل تھی ٬ ان میں پہلا سلسلہ " سلسلہ سراجیہ " ہے جو حضرت شیخ اخی سراج الدین آئینِ ہند علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۷۵۸ ھ ) سے منسوب ہے ٬ جن کا مزارِ پُر انوار سعد اللہ پور ، مالدہ ، بنگال میں مرجعِ خلائق ہے ۔ اس سلسلہ کا پورا نام " سلسلۂ چشتیہ نظامیہ سراجیہ " ہے ۔ یہ نام خود ہی بتا رہا ہے کہ یہ سلسلہ سلسلۂ نظامیہ کی شاخ ہے جو سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہٰی علیہ الرحمہ سے منسوب ہے اور سلسلۂ نظامیہ ٬ سلسلۂ چشتیہ کی شاخ ہے جس کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے داعی سر زمینِ ہند میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری علیہ الرحمہ تھے ۔ حضرت مخدوم اشرف کو اس سلسلہ کی خلافت آپ کے پیر و مرشد حضرت مخدوم شیخ علاء الدین علاء الحق پنڈوی قدس سرہ سے حاصل ہوئی تھی ۔ حضرت مخدوم اشرف اس سلسلہ کی خلافت پر فخر و ناز فرمایا کرتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ ہر چند کہ اس فقیر نے بہت سے اکابر و اماثل سے حصہ پایا ہے جس کی صراحت اور توضیح نا ممکن ہے ٬ لیکن حقیقت میں بندہ خاندانِ بہشتی اور دودمانِ چشتی کا پروردہ اور خاک سے اٹھایا ہوا ہے ۔ ( 5 )
*حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی قدس سرہ کا مختصر تعارف* :
حضرت شیخ علاء الحق و الدین پنڈوی قدس سرہ آپ کے پیر و مرشد تھے ٬ جن سے آپ کو اس سلسلہ کی خلافت حاصل تھی - حضرت شیخ اخی سراج کے مرید و خلیفہ تھے اور آپ کے والد عمر بن اسعد لاہوری بنگال میں لاہور سے آ کر مقیم ہوئے تھے اور بادشاہ بنگال کی کُل سلطنت کے وزیر تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کا لقب " علاء الدین گنج نبات " ہے ۔ آپ خدمت شیخ میں لگے رہتے تھے ۔ آپ کے شیخ جب کہیں سفر پر نکلتے ٬ آپ ان کے لیے کھانے کی گرم دیگ اپنے سر پر اٹھائے پھرتے ٬ جس سے آپ کے سر کے بال اڑ گئے تھے ۔ بالآخر شیخ کی تربیت سے آپ بلند مقام پر پہنچے اور آپ کے شیخ نے بوقتِ وصال سلطان المشائخ سے حاصل کردہ تمام فیوض آپ کے سپرد کر کے آپ کو اپنا جانشین بنایا ۔ آپ کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی جیسا مرید آپ کے حصے میں آیا ٬ جب کہ مشائخِ وقت کی ایک جماعت ان کی مشتاق تھی ، وہ مستقبل کے غوث اور وقت کے مجدد تھے ۔ حضرت مخدوم اشرف کو آپ سے جو عقیدت تھی ٬ اس کا اندازہ مخدوم پاک کے اس ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ فرمایا کرتے : مجھے ایک سو چودہ مشائخ سے نعمتِ ارشاد حاصل ہوئی اور دور و نزدیک کے طائفۂ صوفیاء میں سے جس کے بارے میں بھی سنا کہ صاحب بصیرت ہے ٬ اس کی صحبت حاصل کی اور شرفِ دیدار سے مشرف ہوا ۔ لیکن ان تمام فیوض و برکات کو اپنے مخدوم حضرت شیخ علاء الدین گنج نبات قدس سرہ کا صدقہ سمجھا اور ان ہی کی دولت و سعادت کا ایک حصہ جانا ۔ حضرت مخدوم اشرف نے آپ کو ابدالِ وقت بھی قرار دیا ہے ۔ آپ کی خانقاہ کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ بادشاہ وقت بھی دیکھ کر حیرت میں تھا ۔ حضرت مخدوم اشرف کے علاوہ آپ کے دیگر خلفاء میں آپ کے فرزندِ ارجمند آپ کے صاحب سجادہ حضرت شیخ نور قطب عالم پنڈوی اور حضرت شیخ نصیر الدین مانکپوری وغیرھم تھے ۔ آپ کی وفات ۱ / رجب ۸۰۰ ھ کو ہوئی ۔ آپ کا آستانہ پنڈوہ شریف ٬ ضلع مالدہ ، بنگال میں زیارت گاہِ خلائق ہے ۔ ( 6 )
( 2 ) *سلسلۂ قادریہ کی خلافت* :
دوسر اسلسلہ جس کی آپ کو خلافت حاصل تھی ٬ سلسلہ قادریہ ہے جو حضرت غوث الثقلین محبوب سبحانی حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۵۶۱ ھ ) سے منسوب ہے ۔ اس سلسلہ کی خلافت آپ کو شیخ حامہ شریف حضرت سید عبد الغفور حسن جیلانی قدس سرہ سے حاصل ہوئی ۔ ( 7 )
*شیخ عبد الغفور حسن جیلانی کا تعارف* :
حضرت سید عبد الغفور حسن جیلانی ٬ حضرت غوث الثقلین کی اولاد سے تھے ۔ ۹ / واسطوں سے آپ کا نسب حضرت غوث الثقلین تک پہنچ جاتا ہے ، آپ کی سکونت حامہ شریف میں تھی ، آپ حضرت مخدوم اشرف کے رشتہ دار بھی تھے ، حضرت مخدوم کی خالہ زاد بہن آپ کے نکاح میں تھیں ۔ آپ کی انھیں بہن کے بطن سے حضرت سید عبد الرازق نور العین تھے جنھیں حضرت مخدوم نے اپنی تربیت میں لے کر صاحب کمال بنایا ، ان کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دیا اور حیات و ممات میں خود کو ان کا ساتھ بتایا اور حضرت عبد الرازق کو آپ نے اپنا خلیفۂ مطلق بنا کر صاحبِ سجادہ کا منصب عطا فرمایا ۔ اب حضرت عبد الرازق عبد الرازق سے ترقی کر کے حاجی الحرمین ٬ مخدوم الآفاق ، شیخ الاسلام حضرت سید ابو الحسن عبد الرازق نور العین بن گئے - رحمه الله رحمة واسعة - ( 8 ) ۔
( 3 ) *سلسلۂ فردوسیہ کی خلافت* :
تیسرا سلسلہ جس کی آپ کو خلافت حاصل تھی " سلسلۂ فردوسیہ " ہے جو حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۶۱۸ ھ ) سے منسوب ہے ۔ اس سلسلہ کی خلافت آپ کو حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل تھی ۔ ( 9 )
*حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا تعارف* :
حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری بہار شریف کے قصبہ منیر کے رہنے والے تھے ۔ آپ شیخ نجیب الدین فردوسی قدس سرہ کے مرید اور خلیفہ تھے ۔ ظاہری علوم آپ نے مولانا شرف الدین ابو توّامہ سے بنگال کے سنار گاؤں میں جا کر حاصل کیے تھے ۔ مولانا شرف الدین اپنے وقت کے بڑے عالم اور صاحبِ کشف بزرگ تھے ۔ جب سنار گاؤں سے علومِ دینیہ حاصل کر کے گھر لوٹے تو آپ کے گھر والوں نے آپ کی شادی کر دی ۔ کچھ دنوں بعد جب آپ کا ایک فرزند تولد ہوا تو آپ نے اپنی والدہ سے فرمایا کہ اسے میرا قائم مقام سمجھیے اور مجھے راہِ حق میں نکلنے کی اجازت دیجیے ۔ والدہ سے اجازت لے کر سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں دہلی آئے ۔ پھر وہاں سے حضرت شیخ بو علی قلندر کی خدمت میں پانی پت حاضر ہوئے ۔ چوں کہ کاتبِ تقدیر نے آپ کی تربیت و خلافت شیخ نجیب الدین فردوسی کے سپرد کی تھی ٬ اس لیے ان بارگاہوں میں آپ کو اپنا مطلوب حاصل نہ ہوا اور آپ بالآخر اپنے بڑے بھائی کے مشورہ سے شیخ نجیب الدین فردوسی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ شیخ نے آپ کو مرید کیا ، پھر نوازشات کا دریا بہاتے ہوئے سلسلۂ فردوسیہ کے تمام اذکار و مشاغل تعلیم فرمائے اور عقائدِ مذہبِ صوفیا خصوصاً وحدۃ الوجود سے آشنا کیا اور تبرکاتِ سلسلہ و خرقۂ خلافت عطا فرمایا ۔ پھر اس کے بعد آپ مدتوں جنگل میں رہ کر ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے ۔ آپ بہت بڑے صاحب کمال بزرگ اور صاحب کرامات ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنی کرامات چھپانے میں کوشاں رہتے تھے ۔ اپنے ارشادات میں بھی ایسے جملے ارشاد فرماتے کہ جس سے آپ کے کمال پر پردہ پڑار ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا کہ " جو ریاضت اور مجاہدہ شرف الدین نے کیا ہے اگر پہاڑ کرتا تو پانی ہو جاتا ٬ لیکن شرف الدین کچھ نہیں بنا ۔ آپ توحید کے حقائق و معارف بیان کرنے میں بے نظیر تھے ۔ تصوف میں قاضی عین القضاۃ ہمدانی کی اقتداء کرتے تھے ۔ آپ نے اپنی تصانیف میں اکثر ان کا ذکر کیا ہے ، ایک جگہ لکھا ہے : " آں عاشقِ فانی ، عین القضاة ہمدانی ،، اور ایک دوسری جگہ انھیں " مستِ الستِ یزدانی ، قاضی عین القضاة ہمدانی ، در معدن معانی “ کہا ہے ۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی میرا جنازہ نہ پڑھائے ، میرا جنازہ ایک صحیح النسب سید زادہ ، تارک السلطنت ، سات قراءتوں کا حافظ پڑھائے گا ٬ جو ابھی سفر پر ہے ۔ جب آپ کی وفات کے بعد تدفین کی تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو آپ کے اصحاب شدت کے ساتھ امام کا انتظار کرنے لگے کہ اسی اثناء میں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی شہر میں وارد ہوئے ۔ شیخ کے اصحاب میں سے ایک شخص پہلے ہی سے استقبال کے لیے شہر سے باہر موجود تھے ۔ آپ کی نورانی صورت کو دیکھتے ہی انہیں یقین ہو گیا کہ آپ ہی وہ شخص ہیں جن کی امامت کا حضرت شیخ نے حکم دیا ہے ۔ پھر کچھ سوال و جواب کے بعد جب وہ پوری طرح سے مطمئن ہو گئے تو آپ کو لے جا کر مصلیٰ امامت پر کھڑا کیا اور آپ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ پھر جب حضرت شیخ کو قبر میں رکھا گیا تو حضرت مخدوم اشرف کے دل میں خیال آیا کہ شاید میرے مخدوم یہی تھے ٬ جو دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ اس خیال کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے اس خطہ کو ولایتِ بنگال کا حصہ خیال فرمایا تھا ۔ جب آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تو حضرت شیخ کی روحانیت پاک نمودار ہوئی اور فرمایا : بیٹے اشرف ! آپ مطمئن رہیں ٬ آپ کے شیخ اقبال و سعادت کے ساتھ مسندِ ارشاد و ہدایت پر تشریف فرما ہیں ( یعنی آپ کے شیخ ابھی باحیات ہیں اور رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ) یہ سن کر آپ کو تسلی ہوئی ، پھر کچھ دیر بعد ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس سے سارے مریدین حیرت میں پڑ گئے ۔ ہوا یہ کہ حضرت شیخ شرف الدین کا دستِ مبارک قبر سے باہر نکل آیا ، آپ کے اصحاب میں سے کوئی اس راز کو نہ سمجھ سکے ، جب مخدوم اشرف کی جانب رجوع کیا گیا تو آپ نے فرمایا : شیخ کو مردانِ غیب سے جو کلاہِ مبارک ملی تھی ٬ اس کے بارے میں شیخ کی وصیت تھی کہ اس کلاہ کو بھی میرے ساتھ دفن کیا جائے ، غالباً آپ حضرات اس وصیت پر عمل کرنا بھول گئے ہیں ، اب ہاتھ نکال کر شیخ اسی کلاہ کو طلب فرما رہے ہیں ، آپ کے اصحاب نے کہا : آپ درست فرما رہے ہیں ، ان میں سے ایک صاحب نے اسی وقت جا کر ٹوپی لائی اور شیخ کے دستِ مبارک میں دے دی ، جیسے ہی ٹوپی ملی شیخ نے اپنا ہاتھ قبر میں کھینچ لیا ۔ پھر جب رات ہوئی تو آپ نے مقبرے ہی میں رات بسر کی ، رات کو شیخ کی روحانیت ظاہر ہوئی ، شیخ نے آپ کو اپنے مکتوبات کے پڑھنے کی اجازت دی اور اپنا خرقہ مرحمت فرمایا ( یعنی اپنا خرقہ اپنے اصحاب سے لینے کا حکم دیا ) ، جب صبح ہوئی تو حضرت مخدوم اشرف نے شیخ کا خرقہ شیخ کے اصحاب سے طلب فرمایا ٬ مگر شیخ کے اصحاب نے دینے سے انکار کر دیا ، آپ نے فرمایا : اس مقام پر حد سے تجاوز کرنا مناسب نہیں ہو گا ۔ بہتر یہ ہوگا کہ شیخ کے خرقہ کو شیخ کی قبر پر رکھ دو ، جس کے مقدر میں ہوگا اس کے ہاتھ آجائے گا ۔ سبھوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور خرقہ شیخ کی قبر پر رکھ دیا ، پھر شیخ کے اصحاب نے باری باری اپنے ہاتھ بڑھائے مگر خرقہ کسی کے ہاتھ میں نہ آیا ، آخر میں حضرت مخدوم اشرف نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور آپ نے خرقہ کو پھول کی مانند اٹھا لیا ، پھر سر پر رکھا ، پھر زیب تن فرمایا ۔ جب آپ نے شیخ کا خرقہ زیب تن فرمایا تو آپ پر ایک عجیب و غریب حال اور وجد و کیف طاری ہو گیا ۔ یقیناً یہی وہ خرقۂ خلافت تھا جو حضرت مخدوم اشرف کو شیخ شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ سے حاصل ہوا تھا ٬ جیسا کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے " صحائفِ اشرفی " میں لکھا ہے : حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کو عالم ارواح میں بالمواجہ بمقام بہار شریف حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ سے خرقۂ خلافت و ارشاد حاصل ہوا ۔ حضرت شیخ شرف الدین علیہ الرحمہ کا وصال ۶ / شوال ۷۸۲ ھ بروز جمعرات سلطان فیروز شاہ کے عہد میں ہوا ۔ ( 10 )
( 4 ) *سلسلۂ کبرویہ کی خلافت* :
چوتھا سلسلہ جس کی خلافت آپ کو حاصل تھی " سلسلۂ کبرویہ " ہے ۔ سلسلۂ فردوسیہ کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب ہے ۔ مرأۃ الاسرار میں ہے کہ شیخ نجم الدین کبریٰ کے مرید دو فرقوں میں منقسم ہوئے ، ایک فرقہ " فردوسیہ " اور دوسرا " کبرویہ " کہلاتا ہے ۔ اس سلسلہ کی خلافت آپ کو حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی قدس سرہ سے حاصل ہوئی تھی ۔ لطائف اشرفی میں ہے : حضرت قدوۃ الکبریٰ نے فرمایا کہ ہم اپنے ابتدائے کار میں ان کی خدمت میں ( شیخ علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں ) باریاب ہوئے تھے اور ان سے بہت سے حقائق و معارف حاصل کیے تھے ۔ علاوہ اس کے صحائفِ اشرفی میں اس خلافت کا ذکر مع مکمل شجرہ کے موجود ہے ۔ ( 11 )
*حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی کا تعارف* :
حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی ذی الحجہ ۶۵۹ ھ میں پیدا ہوئے ، آپ کا شمار کاملینِ وقت میں ہے ۔ طریقت میں آپ کی شان بلند ، حال قوی اور ہمت نہایت بلند تھی ، اکثر مشائخ وقت نے علم تصوف میں آپ کی اقتدا کی ہے ۔ آپ شیخ نور الدین عبد الرحمٰن اسفرائنی کے مرید و خلیفہ تھے ، وہ حضرت شیخ احمد جوزفانی کے ٬ وہ حضرت شیخ رضی الدین علی لالا کے ، وہ حضرت شیخ مجد الدین بغدادی کے اور وہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہ کے ۔ آپ سمنان کے شاہی خاندان سے اور حضرت مخدوم اشرف کے اقربا میں سے تھے ۔ خانقاہ سکاکیہ میں بحیثیت شیخِ خانقاہ سولہ سال مقیم رہے اور اس مدت میں ایک سو چالیس چلّے کیے ۔ خانقاہ سکاکیہ کی تعمیر حضرت مخدوم اشرف کے آباء و اجداد نے کی تھی ۔ آپ کے خلفاء میں حضرت شیخ علی مصری ، حضرت شیخ ابو البرکات تقی الدین علی دوستی ، حضرت شیخ عبد الله غرجستانی اور حضرت شیخ شرف الدین محمود بن عبد الله مفروقامی وغیر ہم تھے ۔ آپ ۷۷ / سال زندہ رہے ، آپ کی وفات ۲۱ / رجب ۷۳۶ ھ کو ہوئی ۔ آپ کی تدفین حضرت قطب الاوتاد عماد الدین عبد الوہاب کے احاطہ میں عمل میں آئی ۔ ( 12 )
( 5 ) *سلسلۂ قادریہ جلالیہ کی خلافت* :
پانچواں سلسلہ جس کی خلافت آپ کو حاصل تھی " سلسلۂ قادریہ جلالیہ " ہے ۔ اس سلسلہ کو قادریہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ غوث الثقلین حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ سے منسوب ہے اور جلالیہ اس لیے کہ حضرت سید جلال الدین بخاری علیہ الرحمہ تک پہنچ کر اس سلسلہ نے سلسلہ قادریہ کی ایک مستقل شاخ کی حیثیت اختیار کر لی ہے ۔
( 6 ) *سلسلۂ سہروردیہ جلالیہ کی خلافت* :
چھٹا سلسلہ جس کی آپ کو خلافت حاصل تھی " سلسلۂ سہروردیہ جلالیہ " ہے ۔ اس سلسلہ کو سلسلۂ سہروردیہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سلسلہ حضرت شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی علیہ الرحمہ سے منسوب ہے اور جلالیہ اس لیے کہ یہ سلسلہ بھی حضرت سید جلال الدین بخاری تک پہنچ کر ان کی شخصیت کی عظمت اور ان کی تعلیمات اور خدمات کی انفرادیت کی بنیاد پر ایک مستقل سلسلہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔
( 7 ) *سلسلہ حسنیہ و حسینیہ کی خلافت* :
ساتواں سلسلہ جس کی آپ کو خلافت حاصل تھی " سلسلۂ حسنیہ و حسینیہ " ہے ۔ یہ وہ سلسلہ ہے جو سادات و ائمۂ اہل بیت سے گزرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ اس میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا واسطہ نہیں آتا ۔ مذکورہ تینوں سلاسل ، سلسلہ قادریہ جلالیہ ٬ سلسلہ سہروردیہ جلالیہ اور سلسلہ حسنیہ و حسینیہ کی خلافت حضرت مخدوم اشرف علیہ الرحمہ کو حضرت سید جلال الدین بخاری معروف بہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ سے حاصل ہوئی ہے ۔ ( 13 )
*حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا تعارف* :
قطب الاقطاب حضرت سید جلال الدین بخاری معروف بہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت ۱۵ / شعبان ۷۰۷ ھ بروز جمعرات بوقت مغرب پیدا ہوئے ۔ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد آپ کو شیخ جمال کی خدمت میں لے گئے ، انھوں نے فرمایا : تمہارا یہ فرزند ایسا بزرگ ہوگا جیسے آج کی رات کی بزرگی تمام جہان میں ۔ آپ کے دادا حضرت سید جلال الدین سرخ بخارا سے ملتان ہوتے ہوئے اوچ میں آ کر سکونت پذیر ہوئے ، حضرت مخدوم جہانیاں اپنے والد سید احمد کبیر کے مرید تھے اور خلافت متعدد مشائخ سے پائی تھی ، چنانچہ سب سے پہلے شیخ رکن الدین ابو الفتح بن شیخ صدر الدین بن شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی تربیت میں رہے اور ان سے سلسلۂ سہروردیہ کی خلافت پائی اور سب سے آخر میں حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی کی خدمت میں پہنچے اور ان سے مشائخِ چشت کا خرقہ حاصل کیا ۔ اس سے پہلے حضرت امام عبد اللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ سے مکہ معظمہ جا کر فیضانِ صحبت حاصل کیا اور ساری دنیا کا سفر کر کے چاروں سلسلوں اور اکتالیس گروہوں کے مشائخ سے استفادہ کیا ۔ آپ کے بھائی حضرت شیخ راجو قتال علیہ الرحمہ سے منقول ہے کہ آپ نے تین سو سے زائد صاحبِ ارشاد مشائخ سے فیضِ صحبت اور خلافت حاصل کی ۔ مخدوم جہانیاں آپ کا آسمانی خطاب تھا، آپ مسلکاً حنفی تھے ۔ آپ نہایت صاحب کمال تھے ٬ مگر اس کے باوجود ہمیشہ کرامات کے چھپانے میں سعیِ بلیغ کیا کرتے اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے ۔ آپ کو اگر چہ تمام سلاسل کے خلافت حاصل تھی مگر جو شخص آپ سے بیعت کرتا آپ اسے سلسلۂ سہروردیہ یا سلسلۂ چشتیہ میں داخل کرتے تھے ۔ آپ کے بہت سے خلفاء تھے ۔ جن میں سے چند کے نام لطائف اشرفی میں بھی ذکر کیے گئے ہیں اور ان ناموں میں پانچواں نام ہے " سید اشرف جہانگیر سمنانی " ۔
آپ کے بارے میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کا ارشاد ہے کہ یہ درویش جہاں تک روئے زمین میں سفر کیا اور دیکھا وہ نور و سرور جس کا مشاہدہ اس نادرۂ روزگار و فاخرۂ ہر دیار ( مخدوم جہانیاں جہاں گشت ) کی پیشانی میں کیا اولیائے روزگار و اصفیائے نامدار میں نہیں پایا ۔ آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جس قدر حقائق و معارف اور دقائق و عوارف اور خوارقِ عاداتِ سنیہ و اطوار معاملات یقینیہ حضرت مخدوم جہانیاں سے صادر ہوئے ہیں ٬ متاخرین صوفیاء میں سے کسی سے صادر نہیں ہوئے ہیں ۔ آپ مظہر العجائب و مصدر الغرائب تھے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب یہ فقیر پہلی مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو جیسا کہ آپ کا طریقہ تھا آپ نے اخذِ مقامات کی ابتداء کی ، جب دیکھا کہ اشرفؔ کے مقامات کا منتقل ہونا ممکن نہیں ہے تو بہت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ برادرم اشرف ! مجھ سے ضرور کچھ حاصل کریں گے ۔ میں جب آپ کی اجازت سے پہلی رات خلوت گاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے جسم کے ساتوں اعضا الگ الگ جگہ پڑے ہوئے ہیں اور ہر عضو تسبیح میں مصروف ہے اور یہ ذکر و تسبیح مختلف زبانوں میں جاری ہے ، کچھ دیر بعد آپ اپنی اصلی حالت پر واپس آئے اور فرمایا : میرے بھائی اشرف ! یہ نعمت تمہیں مبارک ہو ۔ دوسری رات جب خلوت گاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کا جسم تجلّیِ بسیط سے پھیل گیا ہے اور پورا کمرہ جسم سے بھر گیا ہے اور گوشت کے ٹکڑے سوراخوں سے باہر نکل رہے ہیں ، پھر تھوڑی دیر بعد اصلی حالت پر واپس آئے اور فرمایا : یہ نعمت بھی تمہیں مبارک ہو ۔ تیسری شب جب خلوت میں باریابی ہوئی تو دیکھا کہ آپ کا جسم اس قدر لطیف ہو گیا ہے کہ سر سے پاؤں تک جسم کا ایک ایک ذرہ دیکھا جا سکتا ہے ٬ اس حال کے مشاہدہ سے دہشت طاری ہو گئی اور میں خلوت گاہ سے واپس آ گیا تھوڑی دیر بعد جب آپ اپنی اصلی حالت پر واپس آئے تو مجھے بلوایا اور ارشاد فرمایا : میرے بھائی اشرف ! یہ نعمت بھی تمہیں مبارک ہو ۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میں جب آخری بار حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے شرف اختصاص حاصل ہوا تو آپ نے تمام اکابر و مشائخ کے نام سے گن گن کر وہ فیوض عطافرمائے جو آپ کو ان مشائخ سے حاصل ہوئے تھے ۔ آپ ۷۸ / سال زندہ رہ کر ۱۰ / ذی الحجہ ۷۸۵ ھ بروز بدھ بوقت مغرب اس دنیا سے رخصت ہوئے ، آپ کا مزار مبارک شہر اوچ میں قبلۂ حاجات ہے ۔ ( 14 )
( 8 ) *سلسلۂ نقشبندیہ کی خلافت* :
آٹھواں سلسلہ جس کی خلافت آپ کو حاصل تھی " سلسلۂ نقشبندیہ " ہے جو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند علیہ الرحمہ سے منسوب ہے ۔ اس سلسلہ کی خلافت آپ کو بانی سلسلۂ نقشبندیہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند علیہ الرحمہ سے بنفس نفیس حاصل ہوئی ہے ۔ صحائفِ اشرفی کی عبارت ہے : محبوب یزدانی اول سفر میں حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی سے اجازت اور خلافت لے چکے تھے ۔ ( 15 )
*حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند علیہ الرحمہ کا تعارف* :
آپ کا نام محمد بن محمد بخاری ہے ، بہاء الدین نقشبند سے مشہور ہیں ۔ نقشبند کی وجہ تسمیہ کا تعلق یا تو ان کی صورت کا نقش قائم کرنے سے ہے کہ یہ نسبت ان تک پہنچتی ہے اور اس نسبت کے تصور سے کیفیت حاصل ہوتی ہے ۔ بلفظ دیگر جو طالبِ صادق دل سے آپ کی خدمت میں جاتا ہے آپ کے فیضِ نظر سے اس کے دل میں نقشِ معنوی بندھ جاتا ہے ٬ اسی وجہ سے آپ کو " نقشبند " کہا جاتا ہے ۔ یا اس لیے کہ جب حضرت خواجہ بابا سماسی نے آپ کی تربیت حضرت سید امیر کلال کے سپرد کی تھی تو انھوں نے فرمایا تھا : نقشبند یعنی دل میں نقش قائم کرو ٬ اس لیے آپ کو نقشبند کہا جانے لگا ۔ یا اس لیے کہ آپ اور آپ کے والدین کا پیشہ کمخواب ( ایک ریشمی کپڑا) بُننا اور اس پر نقش و نگار بنانا تھا ٬ اس لیے نقشبند سے مشہور ہوئے ۔ آپ محرم ۷۱۸ ھ کو بخارا سے ایک فرسنگ کے فاصلے پر واقع قصر عارفان نامی بستی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا شمار اکا بر اولیائے کرام میں ہے ، آپ اپنے عہد میں امامِ طریقت ، مقتدائے شریعت اور پیشوائے اہل سنت و جماعت تھے ۔ لڑکپن میں ہی آپ سے کرامات صادر ہونے لگے تھے ۔ جب آپ پیدا ہوئے تو حضرت خواجہ سماسی نے آپ کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا لیا ۔ خواجہ بابا سماسی جب کبھی " قصر ہندوان " کی طرف سے گزرتے تو فرماتے : بہت جلد وہ وقت آئے گا جب قصر ہندوان " قصر عارفان " بن جائے گا ۔ ایک روز سید کلال کے گھر سے واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں فرمایا : اب وہ خوشبو زیادہ ہوگئی ہے شاید وہ بچہ پیدا ہو گیا ہے ، چنانچہ آپ کے دادا آپ کی پیدائش کے تیسرے دن آپ کو کپڑے میں لپیٹ کر حضرت بابا سماسی کی خدمت میں لے گئے ، خواجہ نے فرمایا : یہ ہمارا فرزند ہے اور اپنے اصحاب سے کہا : ہم اسی فرزند کی خوشبو کی خبر دیا کرتے تھے ، ان شاء اللہ یہ بچہ مقتدائے زمانہ اور پیشوائے دیار و امصار ہو گا ۔ خواجہ سماسی نے اپنی فرزندی میں قبول کرنے کے بعد تربیت کے لیے آپ کو اپنے خلیفہ سید امیر کلال کے سپرد کیا ، سید امیر کلال نے کمال عنایت کے ساتھ آپ کو نسبت ارشاد و تلقین اور آداب سلوک و طریقت کی تعلیم سے نوازا ، پھر ایک دن اپنے حضور بلا کر ارشاد فرمایا : اے فرزند ! میں نے تمہارے بارے میں حضرت خواجہ بابا سماسی کی اس نصیحت و وصیت کو پورا کر دیا ہے جو حضرت نے مجھے کی تھی ، انھوں نے فرمایا تھا کہ جیسی تربیت میں نے تمہاری کی ہے ویسی ہی تربیت تم میرے فرزند بہاء الدین کی کرنا اور اس میں کچھ بھی کوتاہی نہ کرنا آج میں نے تمہاری تربیت کا وہ حق مکمل طور سے ادا کر دیا ہے اور اس میں کچھ بھی کوتاہی نہیں کی ہے ۔ آپ حضرت مولانا عارف خلیفۂ امیر کلال اور مشائخِ ترک میں سے حضرت بابا فتم شیخ اور شیخ خلیل اتا صاحبان سے بھی مستفید و مستفیض ہوئے ہیں ۔ فتم شیخ جن کے ۹/ بیٹے تھے ، آپ کو اپنا دسواں بیٹا کہا کرتے تھے ۔ آپ کو حضرت خواجہ عبد الخالق کی روحانیہ سے بھی تربیت حاصل تھی ۔ اس طرح آپ ظاہر میں حضرت سید امیر کلال کے خلیفہ تھے اور باطن میں اویسی مشرب تھے ۔ آپ کے بڑے خلفاء میں حضرت خواجہ علاء الدین عطار اور حضرت خواجہ محمد پارسا علیہم الرحمہ ہیں ۔
آپ ایک مرتبہ اس دن مکہ مکرمہ پہنچے جس دن حجاج کرام قربانی کر رہے تھے ، آپ نے فرمایا : ہمارا بھی ایک بیٹا ہے ہم نے اسے اللہ کی راہ میں قربان کیا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا بیٹا اسی دن بخارا میں فوت ہو گیا ۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ خواجہ بہاء الدین قدس سرہ کا طریقہ متاخرین مشائخ میں سے کس کے طریقۂ تربیت سے مناسبت رکھتا ہے اور کس کے مماثل ہے ؟ انھوں نے فرمایا : متاخرین کا کیا ذکر ہے ، متقدمین کے بارے میں پوچھو ؟ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ایسے گوناگوں انوار ولایت اور نوع بنوع انوارِ عنایت جو اللہ کے لطف و کرم اور فضل و عطا سے ان کے حصے میں آئے کسی اور شیخ طریقت کو حاصل نہ ہوئے ۔ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی درویشی موروث ہے یا مکتسب ؟ ( یعنی وراثت میں ملی ہے یا آپ نے خود سے حاصل کی ہے ) اس پر آپ نے فرمایا : جذبة من جذبات الحق ( حق کے جذبات میں سے ایک جذبہ اور کشش کا نتیجہ ہے کہ میں اس سعادت سے مشرف ہوا ہوں ۔ آپ سے کہا گیا کہ جب آپ کے طریقہ میں ذکرِ جہر اور خلوت نہیں ہے تو پھر آپ کے طریقہ کی بنیاد کس چیز پر ہے ؟ آپ نے فرمایا : بظاہر با خلق و بباطن با حق ۔ یعنی ظاہر میں خلق اور باطن میں حق کے ساتھ مشغول رہنے پر ہے اور اس کے بعد یہ شعر گنگنایا :
از دروں شو آشنا و از بروں بیگانہ باش
این چنیں زیبا روش کم بود اندر جہاں
یعنی باطن سے آشنا ہو جا اور دنیا سے بیگانہ رہ ، اس سے بہتر کوئی روش دنیا میں نہیں ہے ۔ ایک شخص نے آپ سے کرامت کا مطالبہ کیا ، آپ نے فرمایا : ہماری کرامت واضح ہے ، کثرت سے گناہ کرنے کے باوجود ہم زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور زمین ہمارے گناہ کے بوجھ سے دھنستی نہیں ہے ۔ آپ کی وفات شب دوشنبہ ۳ / ربیع الاول ۷۹۱ ھ کو ہوئی ، مزار مبارک قصر عارفان میں ہے ۔ ( 16 )
( 9 ) *سلسلۂ مداریہ کی خلافت* :
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو جن بزرگوں سے اجازت و خلافت حاصل تھی ٬ ان میں حضرت شاہ مدار رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اپنی کتاب " صحائفِ اشرفی " میں حضرت شاہ مدار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک دو الگ الگ شجرۂ اجازت و خلافت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : حضرت سید بدیع الدین مدار قدس سرہ نے حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کو یہ دونوں سلسلہ عنایت کر کے اپنا خرقۂ محبت پہنایا اور حضرت محبوب یزدانی نے سلاسلِ چشتیہ و قادریہ وغیرہ کی اجازت مدار صاحب کو عطا کی اور انھیں اپنا خرقۂ محبت پہنایا ۔ ( 17 )
*حضرت شاہ مدار قدس سرہ کا تعارف* :
آپ کا نام بدیع الدین اور لقب شاہ مدار ہے ۔ خزینۃ الاصفیاء میں آپ کے والد کا نام شیخ علی اور والدہ کا نام بی بی ہاجرہ اور آپ کو اہل قریش سے بتایا گیا ہے ۔ آپ کے والد کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسل سے اور آپ کی والدہ کو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی نسل سے قرار دیا گیا ہے ۔ والد کی جانب سے شجرۂ نسب اس طرح مذکور ہے : شاہ مدار بن علی بن شاہ طیفور بن شاہ کافور بن قطب بن اسماعیل بن محمد بن حسن بن علی بن طیفور بن بہاء الدین محمد شاہ بن بدر الدین بن قطب الدین بن عماد الدین بن عبد الحافظ بن شہاب الدین بن طاهر بن مطہر بن عبد الرحمٰن بن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ اور والدہ کی جانب سے نسب نامہ اس طرح مذکور ہے : شاہ مدار فرزند بی بی ہاجرہ بنت حامد بن محمود بن عبد الله بن احمد بن آدم بن محمد بن فخر الدین بن طیفور بن محمد بن قوام الدین بن شمس الدین بن سراج الدین بن عبد الرحمٰن بن بلحوز بن عبد الرشيد بن عبد الجليل بن عبد الرحمٰن بن شمس الدین بن کبیر الدین بن عبد الحمید بن عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ۔ رسالہ " مرآت مداری ( مؤلف : شیخ عبد الرحمٰن چشتی ) میں ہے کہ آپ کے آباء و اجداد انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام کی اولاد سے تھے ، آپ کے والد کا نام ابو اسحاق شامی تھا ، آپ کا وطن ملک شام تھا ، آپ کے والد کا کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا بچپن میں فوت ہو جاتا تھا ۔ ایک دن آپ کے والد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ابو اسحاق مطمئن رہو ٬ حق تعالیٰ تمہیں ایک ایسا بدیع یعنی نادرِ روزگار فرزند عطا فرمائے گا جس کی ذات سے میری ولایت کا تصرف ظاہر ہو گا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد آپ کی ولادت ہوئی اور آپ کے والدین نے آپ کا نام " بدیع الدین " رکھا ۔ آپ کے والدین نے علم حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک یہودی عالم کے سپرد کر دیا ۔ آپ ان کے پاس دینِ موسوی کی تعلیم حاصل کرتے رہے ٬ یہاں تک کہ دوران تعلیم آپ کے والدین کا انتقال ہو گیا ۔ آپ دل برداشتہ ہو گئے اور آپ کی طبیعت دنیا سے اچاٹ ہو گئی اور یہی سبب بنا آپ کے دین موسوی سے دین محمدی کی طرف منتقل ہونے کا ۔ ایک دن استاذ کے پاس پہنچے اور عرض کیا : یا شیخ ! آپ ہمیں کبھی کبھی درس کے دوران ضمناً احمد علیہ السلام کے بارے میں بتایا کرتے تھے ٬ آج میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون ہیں اور کہاں ملیں گے ؟ استاذ نے کہا : وہ تو اب ( ظاہری طور پر ) دنیا میں نہیں رہے ٬ البتہ ان کے ماننے والے مکہ اور مدینہ میں ہیں ۔ آپ استاذ سے اجازت لے کر مکہ معظمہ پہنچے اور قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا ۔ پھر مدینہ منورہ گئے اور درِ رسول ﷺ پر حاضری دی اور کچھ عرصہ بلادِ عرب میں رہ کر شریعت و طریقت میں کمال حاصل کیا ۔ آپ کو مدینہ منورہ میں روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ سے یہ حکم ملا کہ ہندوستان جاؤ اور معین الدین چشتی کی روحانیت تیرے لیے جس مقام کا تعین کرے ٬ وہاں سکونت اختیار کر کے گمراہی کے جنگل میں بھٹکنے والوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرو ۔ آپ گجرات ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے اور خواجہ صاحب کے در پر حاضری دینے کے بعد کوکلا کی پہاڑی پر چلہ کش ہوئے ۔ چلہ کی تکمیل کے بعد رسالہ " مرأت مداری " کے مطابق خواجہ صاحب کی طرف سے اشارہ ملا کہ تیری قیام گاہ قنوج کے قریب دریا کے کنارے تجویز کی گئی ہے ٬ وہاں جاؤ اور خلقِ خدا کو فیض پہنچاؤ ۔ آپ حکم کے مطابق نکلے اور راستہ میں کالپی میں قیام فرمایا اور خلقِ خدا کو خوب خوب مستفیض فرمایا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد وہاں حضرت شیخ سراج الدین سوختہ اور کالپی کے حکمران قادر شاہ کے ساتھ آپ کا مشہور و معروف واقعہ پیش آیا ٬ جس کے نتیجے میں آپ نے کالپی کو خیر باد کہا اور اپنی مطلوبہ منزل کی تلاش میں شہر قنوج پہنچے اور قنوج کے گرد و نواح میں اس مقام کی تلاش میں لگے رہے جس کی نشان دہی حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی تھی ۔ یہاں تک کہ آپ کو وہ جگہ مل گئی ۔ آپ وہاں فروکش ہوئے اور اپنے مریدین کو خانقاہ تعمیر کرنے کا حکم فرمایا ۔ یہ وہی جگہ ہے جسے " مکن پور " کہا جاتا ہے ۔ آپ نے مکن پور کے ساتھ ہندوستان کے دوسرے علاقے جون پور اور لکھنؤ وغیرہ کا سفر کر کے بھی خلقِ خدا کو خوب خوب فیض پہنچایا ۔
خزينۃ الاصفیاء میں ہے کہ آپ بارہ سال تک مقامِ صمدیت میں رہے اور اس عرصہ میں کھانے پینے سے باز رہے ۔ آپ جو لباس ایک بار پہن لیتے وہ نہ پرانا ہوتا تھا اور نہ پھٹتا تھا ۔ اللہ نے آپ کو ایسا حسن و جمال عطا فرمایا تھا کہ جس کی نظر آپ کے جمالِ با کمال پر پڑ جاتی تھی ٬ وہ اضطراری طور پر سجدہ میں چلا جاتا تھا ۔ اس لیے آپ اکثر اوقات اپنے چہرۂ مبارک کو کپڑے سے ڈھانپ کر رکھتے تھے تا کہ لوگوں سے اس طرح کی نازیبا حرکتیں صادر نہ ہوں ۔ مرأت ِمداری میں ہے کہ آپ کا مشربِ طریقت تنہائی ، گوشہ نشینی اور گمنامی تھا ، دنیاوالوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے تھے ، اسباب خود نمائی اور شہرت عام سے پورے طور پر بے نیاز رہتے تھے ۔ آپ کے بارے میں " لطائف اشرفی " میں حضرت مخدوم اشرف کا یہ ارشاد منقول ہے کہ حضرت بدیع الدین الملقب بہ شاہ مدار اویسی مشرب رکھتے تھے اور ان کا مشرب بہت ہی بلند تھا ۔ بہت سے نادر اور عجیب و غریب علوم ہیمیا، سیمیا ، کیمیا اور ریمیا وغیرہ کا ان سے ظہور ہوا ۔ اس زمانہ میں ان علوم پر شاید ہی کوئی ویسا عبور رکھتا ہو ۔ " - اور" مکتوبات اشرفی " میں ہے : اس فقیر ( مخدوم اشرف ) نے ان کی ( شاہ مدار اور خواجہ حافظ شیرازی کی ) صحبت پائی ، ان سے بعض ایسے نوادر علوم اور غرائب آثار کا مشاہدہ کیا جو بہت سے اولیائے روزگار پر منکشف نہیں ہوئے ۔ علم سکر سے مکمل حصہ رکھتے تھے ( یعنی ان پر اکثر جذب و سکر کی کیفیت طاری رہا کرتی تھی ) جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنی دستار ، پیراہن اور ازار جسے پچاس سال تک زیب تن فرمایا تھا ٬ جو روز اول ہی کی طرح صاف و شفاف اور نیا تھا ٬ اتار کر اپنے مرید خاص قاضی محمود کنتوری کے حوالے کیا اور فرمایا کہ ہماری یہ امانت میٹھے مدار کو پہنچا دو ۔ یہ خلعت فاخرہ اسی کا حصہ ہے ۔ یہ میٹھے مدار قاضی محمود کے صاحب زادہ تھے جو آپ کی دعا سے پیدا ہوئے تھے اور حضرت شاہ مدار انھیں اپنا فرزند کہتے تھے اس کا نام میٹھا مدار آپ نے ہی رکھا تھا ۔ رسالہ " مرأت مداری " میں ہے کہ آپ کی ولادت ۷۱۵ ھ اور وفات ۱۸ / جمادی الاولیٰ شب پنجشنبہ ۸۴۰ ھ کو ہوئی اور آپ کی کل عمر ۱۲۵ / سال ہوئی اور صاحبِ خزینۃ الاصفیاء نے سنہ وفات ۸۴۰ ھ تحریر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ صاحبِ معارج الولایۃ کے بقول : آپ کی کل عمر ۲۵۰ / سال ہے اور صاحب مخبر الواصلین نے آپ کا سنہ ولادت ۷۱۶ ھ اور سنہ وفات ۱۸ / جمادی الاولیٰ ۸۴۰ ھ رقم فرمایا ہے ٬ مگر کل عمر شریف ۱۲۴ / سال لکھا ہے ۔ آپ کا مزار مبارک قصبہ مکن پور میں زیارت گاہِ خلائق ہے ۔ ( 18 )
( 10 ) *سلسلۂ زاہدیہ کی خلافت* :
فروعی سلاسل میں ایک سلسلہ " سلسلۂ زاہدیہ " ہے جو حضرت خواجہ فخر الدین زاہد کے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ بدر الدین زاہد سے منسوب ہے ۔ مرأۃ الاسرار میں ہے کہ یہ سلسلہ پہاڑی علاقوں میں بہت پھیلا ہے اور کافی مقبول ہوا ہے ، شہر جون پور میں بھی یہ سلسلہ ہے ۔ اس سلسلہ کی خلافت بھی حضرت مخدوم اشرف کو حاصل تھی اور بانیِ سلسلہ حضرت خواجہ بدر الدین بدر عالم زاہدی سے بنفسِ نفیس حاصل ہوئی تھی ۔ مخدوم پاک کی اس خلافت کا ذکر صحائفِ اشرفی میں مع مکمل شجرہ کے موجود ہے ۔ ( 19 )
( 11 ) *سلسلۂ شطاریہ کی خلافت* :
حضرت مخدوم اشرف کو جن سلاسل کی خلافت حاصل تھی ان میں ایک سلسلہ " سلسلۂ شطاریہ " ہے ۔ اس سلسلے کی خلافت آپ کو حضرت شیخ حاجی محمد بن عارف القاری سے حاصل ہوئی ہے ۔ واضح ہو کہ سلسلہ شطاریہ میں دو سلسلے ہیں ۔ ایک سلسلہ حضرت شیخ الشیوخ اور ان کی اولادوں سے منتقل ہوتا ہوا شیخ عبد اللہ شطار تک آتا ہے ٬ جن سے ہندوستان میں سلسلۂ شطاریہ کو خوب خوب فروغ ملا ہے ۔ اسی لیے انہیں سلسلۂ شطاریہ کا بانی بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ بزرگ ہمارے ممدوح حضرت مخدوم اشرف کے ہم عصر ہیں اور حضرت مخدوم اشرف سے مستفیض ہیں ۔ اس سلسلہ کا ذکر " لطائفِ اشرفی " میں اس طرح ہے :
حضرت عمر معروف بہ شیخ الشیوخ سے شیخ حماد کو پہنچا اور ان سے شیخ نجم الدین کو پہنچا اور ان سے شیخ ضیاء الدین کو پہنچا اور ان سے شیخ رشید الدین کو اور ان سے شیخ عبد اللہ شطار کو اور ان سے شیخ حسام الدین شطار کو ۔ حضرت مخدوم پاک فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ نیچے کی طرف شیخ الشیوخ کی اولادوں سے منتقل ہوتے ہوئے آتا ہے اور ہندوستان میں انہیں بزرگوں سے مشہور ہوا ہے ۔ مشرب شطار کا دوسر اسلسلہ وہ ہے جس کی پوری تفصیل لطائف اشرفی میں اس طرح ذکر کی گئی ہے کہ یہ سلسلہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے حضرت امام حسین کو پہنچا اور ان سے حضرت زین العابدین کو اور ان سے حضرت امام باقر کو اور ان سے حضرت امام جعفر کو اور ان سے سلطان العارفین حضرت با یزید بسطامی کو اور ان سے خواجہ محمد مغربی کو اور ان سے خواجہ اعرابی مزید عشقی کو اور ان سے ابو المظفر مولانا ترک طوسی کو اور ان سے حضرت ابو الحسن خرقانی عشقی نوری کو اور ان سے شیخ خدا قلی ماوراء النہری کو اور ان سے شیخ محمد عاشق کو اور ان سے شیخ خدا قلی کو اور ان سے شیخ حاجی محمد بن عارف القاری کو اور ان سے اس فقیر اشرف کو پہنچا ۔ ( 20 )
( 12 ) *سلسلۂ رضائیہ کی خلافت* :
حضرت مخدوم اشرف کو جن بزرگوں سے خرقۂ ارشاد حاصل تھا ٬ ان میں ایک حضرت ابو الرضا رتن رضی اللہ عنہ بھی ہیں ٬ جن کا مزار مبارک قصبہ بھنڈا میں ہے ۔ لطائف اشرفی میں ہے : حضرت قدوۃ الکبریٰ می فرمودند وقتی کہ ایں فقیر بملازمت حضرت ابو الرضا رتن رسید و از انواع لطائف ایشان بہر مند شده یک نسبت خرقہ این فقیر بحضرت رتن می رسد و او را بحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ ( 21 ) یعنی حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے تھے کہ یہ فقیر ابو الرضا رتن کی خدمت میں پہنچا اور قسم قسم کی نوازشوں سے بہرہ ور ہوا ۔ اس فقیر کو ایک نسبت خرقہ حضرت رتن سے حاصل ہے اور انہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
اے صاحبِ ختم رسل اے حاجی بابا رتن
آیا ہے در پہ آپ کے اک خستۂ رنج و محن
تم سے میرے جد کو ملا خرقہ رسول اللہ کا
مجھ کو بھی کر دو عطا بگڑی مری سب جائے بن
*حضرت حاجی ابو الرضا رتن ہندی کی صحابیت کا مسئلہ* :
حضرت حاجی ابو الرضا رتن ہندی رضی اللہ عنہ کی صحابیت اگرچہ علامہ ذہبی کے نزدیک جھوٹ اور باطل ہے جیسا کہ انہوں نے " سیر اعلام النبلاء " میں تحریر فرمایا ہے ٬ مگر حضرت مخدوم پاک اور حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی جیسے اکابر صوفیاء کے نزدیک ان کی صحابیت مسلم ہے ۔ استشہاد کے لیے ذیل کی دو عبارتیں ملاحظہ فرمائیں ۔
( ١ ) صحائفِ اشرفی میں ہے : جس وقت امیر تیمور گرگانی نے حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ملازمت حاصل کیا ٬ اس وقت نسبت درازیِ عمر حضرت حاجی رتن رضی اللہ عنہ دریافت کیا تو حضرت نے فرمایا کہ بیشک وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے ٬ میں نے ان سے ارشاد حاصل کیا اور انہوں نے مجھ کو اپنا خرقہ مرحمت فرمایا اور فقیر نے ان سے تصحیحِ حدیث بھی کی ہے ۔ ( 23 )
( ۲ ) لطائف اشرفی میں ہے :
آورده اند کہ شیخ علی لالا از صد و چہارده مشائخ کامل خرقہ دارد و بعد از وفات وی صد و سیزده خرقہ بوده یافتند سفر ہندوستان کرده بود و صحبت ابو الرضا رتن رضی اللہ عنہ دریافتہ صحبت یعنی الشیخ رضی الدین علی لالا صاحب حضرت رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ابا الرضا رتن بن نصیر رضی اللہ عنہ فاعطاه مشطا من امشاط رسول الله صلى الله عليه و سلم و شیخ رکن الدین علاء الدولہ السمنانی آن شانہ را در خرقہ پیچیدہ و آن خرقہ بکاغذ پیچیده و بخط مبارک خود بران نوشتہ : هذا مشط من امشاط رسول الله صلى الله علیہ و سلم وصل الى هذا الضعيف من صاحب رسول الله صلى الله عليه و سلم و هذه الخرقة وصل من ابی رضا رتن إلى هذا الفقیر ۔ ( 24 )
*ترجمہ* : منقول ہے کہ شیخ علی لالا نے ایک سو چودہ اجلہ مشائخ سے خرقہ پایا تھا ، ان کی وفات کے بعد ایک سو تیرہ خرقے پائے گئے تھے ، انھوں نے ہندوستان کاسفر کیا تھا اور ابو الرضا رتن رضی اللہ عنہ کی صحبت حاصل کی تھی یعنی شیخ رضی الدین علی لالا نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو الرضا رتن بن نصیر رضی اللہ عنہ کی صحبت حاصل کی تو انہوں نے ان کو ( حضرت ابو الرضا رتن نے شیخ علی لالا کو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھوں میں سے ایک کنگھا دیا اور شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی ( جنہیں وہ کنگھا مع خرقہ کے اپنے مشائخ سے حاصل ہوا تھا ، ان کے مشائخِ سلسلہ میں تیسرے نمبر پر شیخ علی لالا ہیں ۔ شیخ علاء الدولہ مرید و خلیفہ شیخ عبد الرحمٰن کے ، وہ شیخ احمد کے اور وہ شیخ علی لالا کے ) اس کنگھا کو ایک خرقہ میں اور اس خرقہ کو ایک کاغذ میں لپیٹ کر رکھتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اس پر لکھ رکھے تھے : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھوں میں سے ایک کنگھا ہے جو اس ضعیف تک ( بواسطۂ مشائخ ) پہنچا ہے اور یہ خرقہ ابو رضا رتن سے اس فقیر کو ( بواسطۂ مشائخ ) موصول ہوا ہے ۔
*خاتمہ* : اب تک جن خلافتوں پر مفصل گفتگو کی گئی ٬ یہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کو حاصل ہونے والی وہ خلافتیں تھیں جن کی تفصیلات راقم الحروف کو لطائف اشرفی اور صحائف اشرفی کے مطالعہ سے دستیاب ہوئیں ۔ مذکورہ کتب کے مطالعہ کی روشنی میں اور حضرت مخدوم اشرف کے حالات قلم بند کرنے والے حضرات کے مضامین و مقالات اور کتب و رسائل کی روشنی میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرت مخدوم اشرف کو حاصل ہونے والی خلافتیں انہیں مذکورہ خلافتوں میں منحصر نہیں ہیں ٬ بلکہ ان سے بھی زائد خلافتیں مخدوم اشرف کو حاصل ہوئی ہیں ٬ چنانچہ لطائفِ اشرفی میں ہے : حضرت قدوۃ الکبریٰ می فرمودند در ملازمت آخرین کہ بحضرت مخدوم جہانیان در مقام بلده اوچہ رسیدیم و بشرف اختصاص مشرف شدیم اسامی اکابر متعدده کہ ایشان را از انجا فائدہ شدہ بود شمردند و آن ہمہ نعیم متعدده و متکثرہ این فقیر را انتشار کردند و حاصلات آن ہمہ دودمان و خاندان ایثار نمودند ۔ (25 )
*ترجمہ* : حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے تھے کہ آخری صحبت جو ہم نے مخدوم جہانیاں سے شہر اوچ میں پہنچ کر حاصل کی اور شرف اختصاس سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر حضرت نے ان متعدد اکا بر کے نام شمار کیے جن سے آپ کو فوائد حاصل ہوئے تھے اور وہ تمام متعدد و متکثر نعمتیں اس فقیر پر نچھاور کیں اور ان تمام دودمان و خاندان سے حاصل شدہ نعمتیں عطا فرمائیں ۔
مذکورہ عبارت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت مخدوم جہانیاں نے اپنی تمام خلافتیں آپ کو عطا فرمائی تھیں اور حضرت مخدوم جہانیاں کو بیشمار مشائخ سے خلافت حاصل تھی ۔ لطائف اشرفی میں چند مشہور خلافتوں کے بیان میں ہے کہ آپ کو حضرت امام عبد اللہ یافعی سے ، حضرت شہاب الدین ابو سعید سے ، حضرت شیخ محمد عبید غیثی سے ٬ حضرت شیخ قطب الدین منور سے ، حضرت مولانا شمس الدین یحیی اودھی سے ، حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی سے ٬ حضرت شیخ نور الدین علی بن عبد اللہ سے ٬ حضرت شیخ رکن الدین علی سے ٬ حضرت حمید الدین ابو الوقت محمد حسین سمرقندی سے ، حضرت قطب عالم شیخ رکن الدین ابو الفتح بن صدر الدین بن بہاء الدین زکریا ملتانی سے ٬ حضرت شیخ الاسلام محمود تستری سے ٬ ( خواب میں ) حضرت شیخ نجم الدین اصفہانی سے ٬ حضرت فقیہ یصال قطب عدن سے ، حضرت قطب المشائخ شیخ عبد اللہ قطری سے ، حضرت سلطان عیسیٰ سے ٬ حضرت شیخ سلطان ابو اسحاق گاذرونی سے (خواب اور بیداری دونوں میں ) ٬ شیخ نجم الدین کبریٰ سے (خواب میں ) ٬ حضرت قطب الاولیاء سید احمد کبیر رفاعی سے ( خواب میں ) ، حضرت شیخ الاسلام شیخ نظام الدین اولیاء سے ( خواب میں ) ، حضرت خواجہ خضر علیہ السلام سے اور بلا واسطہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ۔ ( 26 )
جب حضرت مخدوم جہانیاں نے حضرت مخدوم اشرف کو اپنی تمام خلافتوں سے نوازا تھا تو واضح ہوا کہ حضرت مخدوم اشرف کو حضرت مخدوم جہانیاں کے واسطے سے ان تمام مشائخ کے سلاسل کی خلافتیں حاصل تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب مرأۃ الاسرار و دیگر سیرت نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ حضرت مخدوم اشرف کو چہاردہ سلاسلِ طریقت کی اجازت و خلافت حاصل تھی ۔ اس مضمون کے مشمولات و مندرجات سے یہ بات دلیل و برہان کے ساتھ پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ جامعِ سلاسلِ طریقت بزرگ تھے ۔ یہ آپ کا وہ وصف ہے جو آپ کو اپنے عہد کے سینکڑوں مشائخ کے درمیان ممتاز کرتا ہے ۔ اللہ تعالی آپ کی قبر پر رحمت و نور کی بارش برسائے اور ہم سب کو آپ کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔
*حوالہ جات* :
( 1 )ملاحظہ ہو : مرأة الاسرار ( اردو ترجمہ ) صفحہ : ۱۰۴۴ ٬ مصنف : حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی قدس سره متوفیٰ : ۱۰۹۴ ھ ٬ مترجم : مولانا واحد بخش سیال چشتی ، صابری
ناشر : ضیاء القرآن پبلیکشنز ، گنج بخش روڈ ، لاہور ۔ مطبع : حامد جمیل پرنٹرز ریٹی گن روڈ، لاہور - سنہ اشاعت ١٤١٤ھ - ١٩٩٣ ء -
( 2 ) مندرجہ ذیل کتابوں سے ماخوذ :
( الف ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ) حصہ اول ٬ لطیفہ : ۱۴ ٬ صفحہ : ۵۲۴ تا ۵۴۶ ٬ مرتب : حضرت مولانا نظام الدین یمنی رحمۃ اللہ علیہ خلیفۂ حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ، مترجم : حضرت شمس بریلوی ٬ ناشر : شیخ محمد ہاشم رضا اشرفی مرحوم ٬ پاکستان ، خلیفۂ مخدوم المشائخ سرکار کلاں کچھوچھوی ۔ مطبع : سہیل پریس پاکستان چوک کراچی - سنہ اشاعت :١٩٩٩ ء -
( ب ) مرأة الاسرار ( اردو ترجمہ ) صفحہ : ۶۹ تا ۷۸ و از مختلف صفحات -
( ج ) خزینۃ الاصفیاء ( فارسی ) اس کی مختلف جلدوں سے صرف بعض بزرگوں کا سنہ وصال لیا گیا ہے ۔
( 3 ) ملاحظہ ہو : لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ : ۱۴ / ۱۵ ص : ۵۲۴ ٬ ۵۴۵ ٬ ۶۰۷ -
( 4 ) لطائفِ اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ : ۱۴ ٬ ص : ۵۴۵ ۔
( 5 ) ملاحظہ ہو :
( الف ) صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ۔ دسواں صحیفہ : ص : ۳۷ مرتب : اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ ٬ ناشر : اداره فیضان اشرف سنی دار العلوم محمدیہ ٬ ممبئی ۔ زیر اہتمام : اشرف العلماء حضرت مولانا سید حامد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ سنہ اشاعت ١٤١١ ھ - ١٩٩١ ء -
( ب ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصّہ اول - لطیفہ ۱۵۔ صفحہ ۵۴۷/۵۴۸ ۔
( 6 ) ملخص از :
( الف) مرأة الاسرار ( اردو ترجمہ ) صفحہ : ۱۰۱۳ تا ۱۰۱۷ ۔
( ب ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول، لطیفہ ١٢، ص ٤٩٧ -
( 7 ) ملاحظہ ہو : صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ ٬ ص : ۳۹ ۔
( 8 ) لطائف اشرفی اور صحائف اشرفی کے مختلف مقامات سے ماخوذ ۔
( 9 ) ملاحظہ ہو : صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ : صفحہ ۴۶ ۔
( 10 )ماخوذ از :
( الف ) مرأة الاسرار ( اردو ترجمہ ) ٬ صحفہ : ۹۲۷ تا ۹۳۵ -
( ب ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصّہ دوم ۔ لطیفہ ۲۲.
مترجم : پروفیسر ایس ۔ ایم - لطیف اللہ ۔
ناشر: شیخ ہاشم رضا اشرفی (مرحوم) پاکستان ۔
سنہ اشاعت ۲۰۰۲۔ مطبع : اوکھائی پرنٹنگ پریس کراچی -
( ج ) صحائف اشرفی حصہ دوم ۔ دسواں صحیفہ ۔ صفحہ ۴۶۔
( 11 ) ( الف ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ نمبر : ۱۵ ٬ صفحہ : ۵۸۸، مرتب، مترجم، ناشر مطبع اور سنہ اشاعت حاشیہ نمبر ٢ میں مذکور ہے -
( ب ) صحائف اشرفی حصّہ دوم، دسواں صحیفہ صفحہ ۴۴ -
( 12 ) ملاحظہ ہو :
( الف ) لطائفِ اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ نمبر : ۴ / ۱۵ ٬ صفحہ : ۱۲۲ ٬ ۱۲۳ ٬ ۵۸۸ ٬ ٥٨٩ - مرتب، مترجم، ناشر مطبع اور سنہ اشاعت حاشیہ نمبر ٢ میں مذکور ہے -
( ب ) مرأۃ الاسرار ( اردو ترجمہ ) ملخص از صفحہ ۹۴۰- تا ۹۵۰
( 13 ) ملاحظہ ہو : صحائف اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ ٬ صفحہ : ۴۰ ٬ ۴۱ ٬ ۴۲ -
( 14 ) ملخص از :
( الف ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ : ۱۵ صفحہ : ۶۱۰ ٬ ۶۱۱ ٬ ۶١٢ - مرتب، مترجم، ناشر مطبع اور سنہ اشاعت حاشیہ نمبر ٢ میں مذکور ہے -
( ب ) مرأۃ الاسرار ( اردو ترجمہ ) صفحہ۹۶۹- تا-۹۷۵ -
( ج ) مکتوبات اشرفی (فارسی) مکتوب سی و دوم - قلمی زیراکس موجود در مختار اشرف لائبریری صفحہ ۲۳۰ -
( 15 ) صحائف اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ صحیفہ : ۱۱ ٬ صفحہ ۶۵ -
( 16 ) ماخوذ از :
( الف ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول ٬ لطیفہ : ۱۵ ٬ صفحہ : ۵۹۸ ٬ ۶۰۰ ٬ ۶۰۱ ٬ مرتب ، مترجم ، ناشر ، مطبع اور سنہ اشاعت حاشیہ نمبر : 2 میں مذکور ہے ۔
( ب ) مرأۃ الاسرار ( اردو ترجمہ ) صفحہ۹۶۰- تا-۹۶۷ -
( ج ) خزینۃ الاصفیاء ( فارسی ) جلد اوّل، مخزن چہارم صفحہ ۵۴۸- تا ۵۵۱ -
مصنف : غلام سرور لاہوری -
مطبع ثمر ہند لکھنؤ -
ناشر : منشی نول کشور، مالک اودھ اخبار -
سنہ اشاعت : ١٨٧٣ ء -
( 17 ) صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ ٬ ص : ۴۷ -
( 18 ) ( الف) خزينۃ الاصفیاء ( فارسی ) جلد دوم ٬ مخزن ششم ٬ صفحہ : ۳۱۰ تا ۳۱۲ -
( ب ) مرآت مداری
مؤلف : شیخ عبدالرحمن چشتی متوفی ١٠٩٤ ھ - مختلف صفحات سے ماخوذ و ملخص -
مترجم : مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی استاذ جامعہ شمس العلوم گھوسی -
ناشر : مولانا علی مسعودی بانی و مہتمم الثقافۃ المسعودیۃ، رسیا موڑ، بہرائچ -
سنہ اشاعت : ٢٠٠٩ ء -
( ج ) لطائف اشرفی ( اردو ترجمہ ) حصہ اول، لطیفہ ١٤ - صفحہ ٥٤٦ - مرتب، مترجم، ناشر، مطبع اور سنہ اشاعت حاشیۃ نمبر ٢ میں مذکور ہے -
( د ) مکتوبات اشرفی ( فارسی ) مکتوب پنجاہ و پنجم - قلمی زیراکس، موجود در مختار اشرف لائبریری - صفحہ ٣٧٣ -
( 19 ) صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ ٬ صفحہ : ۴۴ ۔
( 20 ) ملاحظہ ہو : لطائف اشرفی ( فارسی ) حصہ اول ٬ لطیفہ پانزدہم ٬ ص : ۳۸۹ ٬ مرتب : حضرت مولانا نظام الدین یمنی رحمۃ اللہ علیہ خلیفۂ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ۔
ناشر : پیر سید مظاہر اشرف اشرفی جیلانی امیر حلقۂ اشرفیہ ٬ پاکستان ۔ سنہ طباعت : ١٤١٩ ھ - ١٩٩٩ ء -
( 21 ) لطائفِ اشرفی ( فارسی ) ٬ حصہ اول ٬ لطیفہ : پانزدہم ٬ ص : ۳۷۸ ٬ مرتب ، ناشر اور سنہ طباعت حاشیہ نمبر : ٢٠ میں مذکور ہے ۔
( 22 ) صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ : ص : ۵۲ -
( 23 ) صحائفِ اشرفی ٬ حصہ دوم ٬ دسواں صحیفہ : صفحہ نمبر : ۴۹ ٬ ۵۰ ۔
( 24 ) لطائفِ اشرفی ( فارسی ) حصہ اول ٬ لطیفہ : پانزدهم صفحہ : ۳۷۸ ٬ مرتب ، ناشر اور سنہ طباعت حاشیہ نمبر : ٢٠ میں مذکور ہے ۔
*نوٹ* : اس اقتباس کی عربی عبارت میں چار جگہ " ھذہ " کا لفظ ہے ۔ میں نے تین جگہ " ھذہ " کو کتابت کی غلطی مان کر " ھذا " سے بدل دیا ہے ۔
( 25 ) لطائف اشرفی ( فارسی ) حصہ اول : لطیفہ : پانزدہم ٬ صفحہ : ۳۹۱ ۔ مرتب ، ناشر اور سنہ طباعت حاشیہ نمبر :٢٠ میں مذکور ہے ۔
( 26 ) ملاحظہ ہو : لطائف اشرفی ( فارسی ) حصہ اول ٬ لطیفہ : پانزدہم ٬ صفحہ : ۳۹۰ / ۳۹۱ - مرتب ، ناشر اور سنہ طباعت حاشیہ نمبر - ٢٠ میں مذکور ہے ۔
0 تبصرے