تعزیہ داری : ایک تجزیہ
تاریخ اسلام میں ہزاروں ایسے دلخراش و کرب ناک واقعات رونما ہوئے جو بے رحمیو، روح فرسا ، جفا کاریوں کا اندوہناک مرقع ہیں ، بارہا اس زمین کو اللہ کے مقدس بندوں کے خون سے رنگین کیا گیا ہے لیکن کیا حضرت امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کے ماسوا کسی کی شہادت پر اس طرح ماتم کیا جارہا ہے ؟، عزاداری و سوگواری کی محفلیں روپذیر ہوتی ہیں،؟ کیا صحابہ کرام نے اس کی ترغیب دلائی ہے اور خود عمل پیرا ہوے؟ اگر ایسا ہے تو ان کے حکم کے سامنے ہمارا سر تسلیم خم ہے، کیونکہ وہ سب
ہمارے لئے مینارہ نور اور سر چشمہ رشد و ہدایت ہیں۔۔ ۔۔ باوجودیکہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔۔۔۔۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول! اگر آپ نے ہم کو صبر و شکیبائی کی تعلیم دے کر رونے چلانے، ماتم اور گریہ و زاری کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو آج آپ کی وفات پر اتنا روتے اور ماتم کرتے کہ بدن کی رطوبت خشک ہو جاتی۔۔
( نہج البلاغت ص ۱۹۳ )
ہر چند کہ اس مسٔلہ میں علماے کرام مختلف الآراء نظر آرہے ہیں تاہم تطبیق کی صورت کی نکل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
کاغذ سے روضہ اقدس سید الشہداء امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کا صحیح نقشہ بناکر بہ نیت تبرک گھر میں رکھنا جائز اور یکسر درست ہے ۔۔ از روے شریعت نفس تعزیہ میں کوئی مواخذہ اور مضائقہ نہیں ہے ، مکانات، غیر جاندار کی تصاویر اور ایسی چیزیں جو دین اسلام کی عظمت اور رفعت و بلندی کو باور کراے اس کے جائز ہونے میں کیونکر قباحت ہوسکتی ہے ؟
راقم الحروف کو جب غواص بحر معرفت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی نور اللہ مرقدہ کی فلک نما تصنیفات میں سے فتاویٰ رضویہ کا ایک رسالہ بنظر غائر مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، تو راقم پر یہ بات عیاں ہوئی کہ انہوں نے جائز ہونے کی استدلال اس مثال سے کیا ہے کہ صدہا سال سے طبقۃ فطبقۃ علمائے اہل سنت نعلین شریفین حضور سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ کو رسالے میں قلمبند کرتے ہیں۔۔
تاہم رواں دور میں جہال بیخرد نے اس چیز کا پاس و لحاظ نہ رکھا، اس کی حرمت و تقدس کو پامال کر کے اصل ہیئت کو نست و نابود اور مسمار کردیا، ایسی صدہا خرافات رونما ہونے لگیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں، اولاً تو نقشے کی نوعیت درست نہیں ہوتی ہے نیز اشاعت غم کے تئیں گلی کوچوں میں لے کر گشت کرنا، بیہودہ ہجوم و طمطراق ارو شور و غوغا کرنا، نوحہ نما ہیئت ، رقص کناں صورت اور ماتم کناں شکل اختیار کرنا، بہ تصنع خود رونا اور بہ تکلف لوگوں کو رولانا، سینہ زنی و سینہ کوبی کرنا، طواف و سجدہ کرنا، منتیں ماننا، مرادیں مانگنا، اضاعت مال اور اسراف و تبذیر کرنا علاؤہ ازیں اس کے پیچھے ناچ ،گانے،ڈھول، باجے، ہر طرح کے کھیلوں کی دھوم بازی، بازاری عورتوں کا ہجوم ، بے حیا عورتوں کا مردوں سے اختلاط ، جاہلانہ و فاسقانہ رسومات کا جنم لینا یہ سب کتنی قبیح و شنیع اور قابل مذمت حرکتیں ہیں۔۔۔۔۔
شریعت مطہرہ ان چیزوں کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ہے یہی وجہ ہےکہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی قدس سرہ نے رواں دور میں مروجہ تعزیہ داری کو قطعاً بدعت و ناجائز و حرام قرار دیا ہے۔ اور یہ امر ان کےلئے ناگزیر بھی تھا کہ اہل بدعت سے ایک گونہ مشابہت بھی پائی جاتی تھی۔۔۔۔۔ گویا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے امت مسلمہ کے لیے شاہراہِ عمل متعین کر دیا۔۔۔
الحدیث: اتقوا مواضع التھم۔۔۔
تہمت کی جگہ سے احتیاط برتو۔۔۔۔
لہٰذا صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کریں اور اسے بقصد تبرک بے آمیزش منہیات اپنے پاس رکھیں، جس طرح حرمین شریفین سے کعبہ معظمہ اور روضہ عالیہ کے نقشے آتے ہیں۔۔
( فتاویٰ رضویہ ۲۴.. رسالہ نمر ۷۔ اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الھند و بیان شھادۃ)
رھبر رشیدی جامعی حفظہ اللہ
⁰⁶/⁰⁸/²⁰²²
0 تبصرے