اسلام میں عورتوں کا مقام
مفتی شمس الزمان خان صابری تخصص فی الفقہ
سرور کائنات فخر موجودات محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم جس روز دین کا پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے اس روز دنیا کے اندر ایک نئی روشنی کا ظہور ہوا جس کی برکت سے انسان کو عقیدہ و شعور کی وہ تابنائی ملی جو اخلاق کی بلندی،عمدہ خصائل اور فضائل و محاسن کا مجموعہ ہے ۔ اور جو عورت انسانی سوسائٹی میں باعث عار ونحوست سمجھی جاتی تھی، جسے ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جسے خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور معاشرے میں جس کی کوئی حیثیت اور قدر و منزلت نہیں تھی، اسے عزت و تکریم کا بلند درجہ، کھویا ہوا وقار اور حقیقی مقام عطا فرمایا، ورنہ مذہب اسلام کے علاوہ اکثر وبیشتر مذاہب کے لوگ عورت کو مظلوم سمجھتے اور اپنی ہوس پوری کرنے کا آلہ تصور کرتے تھے، ہر دور میں چاہے قدیم ہو یا جدید عورت پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔
دور قدیم میں یونان ہو یاروم، ہندوستان ہو یا ایران، یورپ ہو یا ایشیا عورت ہر جگہ مظلوم رہی ہے تمام ادیان نے عورت کے متعلق پست خیالات کا اظہار کیا جس کی بنا پر اسے انسانیت کے کندھوں پر ہمیشہ ایک بار کھا گیا، چنانچہ قدیم زمانے کا ذرہ ذرہ اس کے خون کا پیاسا، چپہ چپہ اس کی ذلت کا خواہاں اور اس کی عزت و ناموس کے درپے رہا،عورت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ محض خادمہ بن کر گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔ اہل یونان اپنی تمام تر تہذیب وتمدن کے باوجود عورت کے بارے میں گمراہ کن عقائد رکھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ آگ سے جلنے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج تو ممکن ہے مگر عورت کے شر کا مداوا محال ہے۔ یورپ جو آج کل عورتوں کابڑا اہم درد نظر آتا ہے آج سے صرف ایک صدی پہلے عورتوں کو شیطان سے بڑھ کر قابل نفرت اور ضرر رساں سمجھتا تھا۔ مرد عورت کے نان ونفقہ کا پابند نہ تھا، اسے کسی قسم کا سماجی حق حاصل نہ تھا، یہودیت اور نصرانیت دونوں نے عورت کو بد کار و بدطینت اور مرد کو نیک سرشت و نیک فطرت گردانا۔ چنانچه مرد عورت پر مکمل طور پر متصرف ہوتا مردوارث کی موجودگی میں عورت کو وراثت سے کوئی حصہ نہ دیا جاتا حتی کہ روم میں مرد عورت کو قتل کرنے کا بھی مجاز تھا۔ مغربی منکرین عورت کو ایک پیدائشی وسوسہ، ایک خانگی خطرہ ، ایک مرغوب آفتاب ، ایک ناگزیر دلربائی اور آراستہ مصیبت کہتے تھے۔
سینٹ پال اپنے ایک خط میں لکھتا ہے عورت کو کمال تابعداری سے سیکھنا چا ہیے میں اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ کچھ سکھائے یا مرد پر حکم چلائے اس کا کام تو یہ ہے کہ چپ چاپ مکمل فرمانبرداری کرے ۔ ( مواد اسلام میں عورت کامقام ) دور جدید میں جب زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب آیا عورت کی زندگی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی،اہل یورپ کو جب عورت کی ازلی مظلومیت کا گہرا احساس ہوا تو انھوں نے اس کا مداوا کرنے کے لیے دوسری راہ اختیار کی یعنی عورت کو ہر قسم کی آزادی دے ڈالی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بندشوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد عورت اپنی مظلومیت کے انتقام میں بہت آگے نکل گئی، آزادی نسواں کی بہت ہی تحریکیں پروان چڑھیں جنھوں نے عورت کو اس درجہ تک پہنچادیا کہ عورت نے کامل طور پہ عورت رہی اور نہ ہی مرد بن کی مصنوعی مرد بننے کے شوق میں گھر کے تمام فراض چھوڑ چھاڑ کر باہر سڑکوں گلیوں، ہوٹلوں، پارکوں سنیما گھروں عیاشی کے اڈوں مختلف دفتروں اور اداروں میں نکل آئی مگرمردانہ خصوصیات نہ ہونے کے باعث وہ نہ تو مرد بن سکی اور زنانہ خصوصیات ہونے کے باوجود عورت کو جس اخلاق و کردار شرم و حیا اور عفت پاکدامنی سے مرصع ہونا چاہیے اس سے عاری ہونے کی بنیاد پر ایک کامل عورت بھی نہ بن سکی کیوں کہ ایک عورت سے خانگی فرائض سے کوتاہی طبیعی وظالف سے فراموشی کے بنا پر گھریلو نظم بر باد ہوا، معاشرے میں بے حیائی بکثرت پھیلی حرام بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے گھر محلہ شہر ملک اور پوری کی پوری انسانی سوسائٹی معاشرہ اور سماج تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس طرح دور قدیم کی تفریط اس کے لیے غیر موزوں رہی اور زمانہ جدیدکی افراط بھی اس کے لیے قعر مذلت میں گرنے کا سبب بنی نہ اسے ہدایت کی راہ ملی اور نہ اس کا صحیح مقام ملا، بلکہ الٹا معاشرے میں بے پناہ مسائل پیدا ہو گئے جنھوں نے جدیدمعاشرے کو انتہائی کھوکھلا اور پراگندہ کر کے رکھ دیا۔
ایسے وقت میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسلام نے عورت کو کیسا مقام کیسی عزت کیسا وقار اور معاشرے میں کیسی اہمیت کا حامل بنایا ہے۔ رحمتہ اللعالمین، ہادی دو جہاں سرور کونین حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اللہ تبارک وتعالی کی رحمت کا جو ابر کرم روئے زمین پر برسا اس نے یوں تو ہر خاص و عام کو فیضیاب کیا اور ہر خشک وتر کو سیرابی عطا کی،مگر سب سے زیادہ فیض ان لوگوں کو پہنچا جو معاشرے میں دبے ہوئے کمزور مظلوم اور حقوق سے محروم تھے مثلاً غربا ، یتامی لونڈی غلام اور خواتین ان سب فرقوں کو اسلام نے وہ مقام کی بلندی اور معاشرے میں سر فرازی بخشی کہ اس سے آگے تو عورتوں کا کائی مقام ہے اور نہ اس کے آگے کوئی دوسرامقام دیا جا سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ طبقہ اناث کو جو فیض اور برکات اسلام نے عطا کیں وہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے کوئی دوسری تہذیب و تمدن یا مذ ہب اس کا عشر عشیر بھی عورت کو نہ دے گا۔
اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے اور جس مقام ومرتبہ اور عزت و عظمت سے نوازا ہے وہ عدیم المثال ومعدوم النظیر اور جدید قدیم کی افراط و تفریط سے یکسر پاک ہے۔ یہاں عورت کو نہ شیطان ایجینٹ قراردیا گیا نہ زہر سے زیادہ مغر بتایا گیا بلکہ ہر موڑ پر عورت کو اسلام نے ایک مقام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ماں ہے تو اس کے پاؤں کے بیچے جنت ہے اگر وہ بیوی ہے تو وہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک اخلاق کی بلندی اور کمال ایمان کی دلیل ہے ، اگر بیٹی ہے تو آتش دوزخ سے بچانے کا وسیلہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اگر بہن ہے تو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک جنت میں داخلے کا ضامن ہے، اگر بیوہ عورت ہے تو اس کی کفالت و تربیت سب سے بہترین صدقہ ہے اور اگرکوئی اجنبی عورت ہے تو گویا وہ تمھاری ماں، خالہ، پھوپھی یا بہن اور بیٹی کے درجے میں ہے لہذا اس پر نگاہ نہ ڈالو۔ غرض یہ کہ اسلام نے ہر حیثیت سے چاہے وہ ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو، شریک حیات ہو، بیوہ عورت ہو یا پھر کوئی اجنبیہ ہی کیوں نہ ہو انتہائی تکریم و اعزاز کا حق گردانا۔ شرف انسانیت میں مردو عورت کی تفریق روا نہیں رکھی۔ عالم انسانیت کے محسن اعظم حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پکار کر فرمایا: عورت اس لیے نہیں ہے کہ اسے حقارت سے ٹھکرا کر قعر مذلت میں ڈھکیل دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں وہ اچھی طرح ہے پرورش کرے تو یہی لڑ کیاں اس کے لیے دوزخ میں آر بن جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے اور اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کے لیے مردوں کو بار بارتاکید فرمائی کہ وہ عورتوں سے بہتر سلوک کریں، چنانچہ آپ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے بہترین سلوک روارکھے اور میں تم سب سےزیادہ اپنی بیوی سے بہترین سلوک روا رکھنے والا ہوں، نیک عورت دنیاکی ایک بہترین نعمت ہے۔ بیٹے سے فرمایا: تیری ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اسلام نے صرف فکری اور نظری اعتبار سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں کیا بلکہ قانون کے ذریعہ سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی اور مردوں کو ظلم کی روک تھام کا موثر انتظام فرمایا جہاں شریعت مطہرہ نے مرد کو نا گریز حالت کی بنا پر طلاق دینے کا اختیار سونیا ہے، وہاں عورتوں کو بھی کسی معقول وجہ کے باعث مرد سے طلاق لینے کا اختیار دلایا ہے اور اس طرح فریقین کے درمیان مساوات رواداری برقرار رکھی ہے۔ اسلام نے عورت کو تحصیل علم میں مرد کے برابر اجازت دی، اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا، اسلام نے عورت کو معاشرے کا ایک اہم جز اور عظیم مبر قرار دیا،اسلام سے پہلے عورت کی گواہی معتبر نہ تھی، اسلام نے اس کی گواہی کا اعتبار کیا، عورت کی عصمت کو حدد الہی میں شمار کیا۔ اس پر ظلم و بربریت کو معاشرے کے خلاف سمجھا گیا اور اسلام نے عورتوں کو اظہار عیاں کی بھی آزادی دی۔ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں قابل احترام تھی، اس معاشرے میں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جینے کاحق دیا اور عورتوں کا ایسا تحفظ فرمایا جس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں عورت کو وہ مقام ومرتبہ اور درجہ دیا جو آج کے جدید مغربی معاشرے میں تو کیا پوری دنیا میں اسے کہیں حاصل نہیں ہے۔ اب اسلامی خواتین کو بھی چاہیے کہ و ہ اسلام کے معاشرتی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دیں۔
مجلس ثقافت
0 تبصرے