Header New Widget

ماں کی تربيت بچوں کی پہلی درسگاہ۔ QAUMI INQALAB

 ” ماں کی تربيت بچوں کی پہلی درسگاہ “

از : مولانا منتظر رضا اشرفی پورنیہ بہار


ماں کی گود بچے کی پہلی تربيت گاہ ہوتی ہے -اسی تربيت پر بچےکی شخصيت پروان چڑھتی ہے - أخلاق کی جو تربيت ماں کی گود میں میں ہوتی ہے اسی تربيت پر بچے کی سیرت کےبننے یا بگڑنےکا انحصار ہوتا ہے- اس لیے ماں کی ذمہداری ہے کہ اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت اس طرح سےکرے کہ اس کے رگ و ریشہ میں دینداری کی روح پھونک دے، انہیں أخلاق وکردار کا حامل اور شریعت کا پابند بنائے اور جملہ افعال قبیحہ و اعمال رذیلہ کی نفرت اس کےدل میں بٹھاۓ -لیکن اس کےلیے اس بات کی أشد ضرورت ہے کہ ماں بذات خود تعليم یافتہ ،دیندار، صاحب کردار، پاکیزہ عادات واطوار اور تمدن ومعاشرت کی مالکہ ہو ، باحیا اور اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کرنےوالی ہو، خوش مزاج ،ملنسار، مشفقہ اور نرم دل ہو، سیدةالنسا فاطمہ الزہرأ  کےنقش قدم پر چلنے والی ہو، کیونکہ بچہ سب سے زیادہ ماں سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ ماں ہی اس سے زیادہ قریب ہوتی ہے - چنانچہ ماں اگر نیک ہوگی تو بچہ بھی نیک ہوگا -حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ کے حالات زندگی کو ہم دیکھتےہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کو قرآن مجید کی بیشتر سورتیں یاد تھیں کیونکہ آپ کی والدہ محترمہ بہت بڑی عابدہ ،زاہدہ اور متقیہ تھیں اور روزانہ تلاوت کلام ان کا معمول تھا تو اس طرح بچے عبدالقادرجیلانی ؒ کو بھی قرآن مجید کے بیشتر حصہ ماں کی صحبت کی برکت سے حفظ تھا - اور  اولاد کی اچھی تربيت اس قدر اہم ہے کہ اللہ تعالی نے اس کےبارے میں فرمایا کہ” یاأیھاالذین آمنوا قوا أنفسکم وأھلیکم نارا “ ( پ،٢٨ ،التحریم:٦) ترجمہ: اےایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ -


جس طرح باپ بچے کو دنیا کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتاہے اسی طرح اسے چاہیے کہ اپنے بچے کوجہنم کی آگ سےبھی بچاۓ اور جہنم کی آگ سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کی تربيت کرے، اسے تہذیب سکھاۓ، اچھے أخلاق کی تعليم دے، برے دوستوں سے دور رکھے، آساٸشوں کی عادت نہ ڈالے،زیب وزینت اور عیش پسندی کی محبت اس کےدل میں پیدا نہ ہونےدے کہ وہ اس کی طلب میں اپنی عمر ضائع کردےگا،-پھر جب بڑا ہوگا تو داٸمی ہلاکت میں مبتلا ہوجاۓ گا لہذا شروع سے اس کی نگہداشت پر خاص توجہ دے کیونکہ مثل مشہور ہے "اپنی اولاد کو سونے کا نوالہ کھلاؤ اور شیر کی نگاہ رکھو"، پھر جب اس میں تمیز اور سمجھداری کے آثار دیکھےتو اچھے طریقے سے اس کی نگرانی کرےاور تمیز اور سمجھداری کےبارے اس طرح پتاچلےگا کہ اولاً اس میں حیا کا ظہور ہوگا کیونکہ جب وہ حیا کرتےہوۓ بعض کاموں کو چھوڑدےگا تو یہ بات اس پر دلالت کرےگی کہ اس میں عقل کا نور چمک رہاہے جس کی روشنی میں وہ بعض اشیإ کو قبیح دیکھتا ہے اور بعض کو نہیں، یوں وہ بعض سے حیا کرتے ہوۓ بچےگا اور بعض سے نہیں ، اور یہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہدایت اور بشارت ہے جو أخلاق کے معتدل ہونے اور قلب کی صفائی پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ بڑے ہوکر اسے کامل عقل نصیب ہوگی - جب بچے میں حیا پیدا ہوجاۓ تو اس کی طرف سے لاپرواہی اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی حیا اور تمیز کےمطابق اسے ادب سکھانا چاہیے _

لہذا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے حسن أخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ انکی اولاد عمدہ أخلاق کے حامل ہوں- اولاد کی اچھی تربيت کا فریضہ نہ صرف اسلام عاٸد کرتا ہے  بلکہ ملک وملت کی طرف سے بھی اس بات کا تقاضا کیا جاتا ہے اس میں پلنے بڑھنے والے شہری اپنے وطن کا روشن مستقبل ہوں ۔ 

حضور پاک ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربيت جس انداز میں فرماٸی وہ رہتی دنیا تک کےلیے نمونہ کامل ہے- ان کے طرزکلام ، حسن خلق، آداب گفتگو اور خشوع وخضوع میں حضور ﷺ کی جھلک نظر آتی ہے -

اگر والدین اپنی اولاد کو پر اعتماد اور بہترین سیرت و کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں تو انہيں اپنی گود سے بہترین درسگاہ فراہم کرنی ہوگی-

حضرت سیدنا امام حسن وحسینؓ کی ذات گرامی ہوں یا حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ یا حضرت مخدوم پاک علیہ الرحمہ ہوں یا حضرت بایزید بسطامی یا بابا فرید الدین گنج شکر ہوں یا صابر کلیری، یہ جلیل القدر ہستیاں ایسی ہی مقدس ومحترم ماٸوں کی تعليم و تربيت کا نتیجہ ہیں - یہ تمام عالی مرتبت ماٸیں نہایت ہی نیک دل ، پرہيز گار، صبرورضا کی پیکر ، عبادت گزار ، تقوی شعار اور زھد وقناعت کی خوگر تھیں_

تہذیب سکھاتی ہےبولنے کا سلیقہ

تعليم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی 



✍️ حضرت مولانا منتظررضا اشرفی صاحب قبلہ پورنیہ بہار 


المشتہر : مجلس ثقافت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے