Header New Widget

یہ یتیمی کا احساس اور کتنی بار ہوگا؟

یہ یتیمی کا احساس اور کتنی بار ہوگا؟

شعور و آگہی کی زندگی کی شروعات جب سےہوئی ہے ہر صبح و شام کبھی خوشی کبھی غم کے لمحات سے سابقہ پڑتا رہا ہے. اس کیفیت سے تقریبا ہر کوئی گزراہوگا. خوشی کے دن بڑی برق رفتاری سے گزرجاتے ہیں مگر غم کے جھٹکے اتنے زور سے لگتے ہیں کہ سنبھلتے سنبھلتے سالوں گزر جاتے ہیں مگر احساس ہنوز باقی رہتا ہے.
ہمارےمشفق ومربی استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحکیم اشرفی علیہ الرحمۃ ساکن پربھیلی کٹیہار بہار کا انتقال میرے لئے غم و اندوہ کا پہاڑ جیسا تھا, ہمارے مرشد برحق حضور شیخ اعظم کا پردہ فرمانا آج بھی آنکھوں میں ساون بھادو بھر دیتاہے. پھر والدہ ماجدہ کا میری غریب الوطنی میں اچانک اللہ کو پیاری ہوجانا وجود کو لرزہ دینے والا حادثہ تھا. والد بزرگوار الحاج محمد مسلم کی وفات نے تو کمر ہمت ہی توڑدیا تھا. مادر و پدر کے سایہ شفقت و رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے استاذ و شیخ کی سایہ عاطفت سے محروم ہونا سیکڑوں یتیمی کے داغ سے کم نہیں ہے.
سمجھاتھا اور کہا بھی جاتا ہے کہ حقیقی اور روحانی باپ کے گزرجانے سے انسان یتیم ہوتا ہے مگر یہ بات میری تسلی کے لئے کافی نہ رہی.
حال ہی میں فقیہ اہل سنت حضرت علامہ مفتی آل مصطفیٰ مصباحی اشرفی شہجنہ کٹیہار بہارکی فرقت نے ہمارے جیسے ہزاروں سیمانچلی علماء کو خصوصاً اور عوام اہل سنت کو عموما بڑے رنج و غم سے دوچار کیا تھا اس نے بھی یتمیی کا شدید احساس کرایا. پھر بھی ہمت جٹائی اور اس بحران سے نکلنے کے لیے بھر پور کوشش کی مگر آج کی صبح نےکسی خوش خبری کے ساتھ اپنی روشنی کے پر پھیلانے کے بجایے اندوناک غم خبری لے آئی.
جامعہ میں پہلی گھنٹی سے فارغ ہوا تو کثرت سے میسج کی آمد کا احساس ہوا موبائل نکالا، دیکھا تو کلیجہ دھک سے رہ گیا، زبان سے بے ساختہ ترجیعی کلمات جاری ہوگئے. یقین نہیں ہورہا تھا اسی لیے فون کال کے ذریعے صحیح خبر معلوم کرنا چاہا. خبر صحیح تھی اور آج میں پھر سے یتیم ہوگیا. میرے مربی، میرے مشفق ، بہی خواہ ، یادگار سلف ، عالم باعمل ، صوفی باصفا ، تلمیذ ملک العلماء ، حضرت علامہ الحاج غلام عبد القادر رشیدی ساکن چکلہ بائسی ضلع پورنیہ بہار ایک طویل علالتی آزمائش کے بعد راہی ملک بقا ہوگیے.
حضرت کی بے نفسی، پاک بازی اور شریعت کی پاسداری کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ وہ ہر ایک کی نظر میں محبوب تھے. بڑے سے بڑا عالم ہوں یا نرا جاہل ہر کوئی ان کا شیدا. ہر جان ان پر فدا، ہر نظر فریفتہ ، ہر دل ان کے لیے قربان تھا. کیوں کہ رفتار و گفتار ،عادات و اطوار ، اخلاق و کردار ، عالمانہ وقار، چھوٹوں پر پیار ، بڑوں سے عقیدت کا رشتہ استوار رکھنے میں آپ کی نظیر نہیں ملتی. ہم جیسے بے بضاعت و کم علم کو جو حوصلہ ، ہمت اور زندگی کے رہمنا اصول اپنے زبان و بیان اور کردار و عمل سے عطا کیا اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا.
گھر کی مرغی دال برابر تو بہت سنا اور دیکھا مگر حضرت کی ذات نے ہمیشہ اس کہاوت بلکہ حقیقت کو مات دیا ہے. کئی گاؤں پر مشتمل ہماری عیدگاہ کے آپ امام رہے . بلکہ عوام و خواص میں آپ امام صاحب سے جانے جاتے تھے. گویا آپ امام علی الاطلاق تھے . امام صاحب کا لفظ سماعت سے ٹکراتے ہی ذہن آپ ہی کی طرف متبادر ہوتا ہے. عموما دیکھا گیا ہے کہ کسی کے گزرنے کے بعد اس کی اہمیت و ضرورت اور مقبولیت کا پتہ چلتا ہے مگر امام صاحب آل ٹائم مقبول و محبوب رہے. چاروں بیٹوں کو قابل قابل عالم بنایا. بیٹیوں کا نکاح قابل علماء سے کرایا خود بھی عالم باعمل ، استاذوں کے استاد،  ہزاروں شاگردوں کے معلم ، ارد گرد رہنے والے کے خصوصی مصلح رہے. کسی کو شکوہ شکایت کچھ بھی نہیں. معاملات میں بے داغ. تقوی و طہارت ان پے نازاں. عفو و درگزر کے کوہ گراں ، علم و عمل کے جبل شامخ. گویا یہ منش نہیں کوئی فرشتہ ہوں.
اللہ پاک ان کی قبر پر رحمت و انوار کی بارش فرمایے. ان کے درجات بلند فرمائے. پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین

یکے از سوگوار.
محمد نذرالباری اشرفی پورنوی
جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ
14 دسمبر 2022 / 19 جمادی الاولی 1444 بدھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے