وحی کا مفہوم
وحی کا مفہوم ذہن میں رکھ کر وحی کے مفہوم اور اس کی حقیقت پر غور فرمائیں وحی اور ایحائ عربی زبان کے الفاظ ہیں۔اور لغت میں ان کے معنی جلدی سے کوئی اشارہ کردینا خواہ یہ اشارہ رمز و کنایہ استعال کر کے کیا جائے خواہ کوئی بے معنی آواز نکال کر خواہ کسی عضو کو حرکت دے کر یا تحریر و نقوش استعمال کر کئےئ ہر صررت میں لغۃ اس پر یہ الفاظ صادق آئے ۔
چنانچہ اسی معنی میں حضعرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ کہأَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
پس وہ اپنی قوم کے سامنے محراب سے نکلے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہا کرو
پھر وہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشارے س مقصد یہ ہی ہوتا ہے کہ مخاطب کے دل میں کوئی بات ڈال دی جائے اس لئے لفظ وحی اور ایحائ دل میں کوئی بگات ڈالنے کے معنیئ میں بھیی استعمال ہونے لگا چنانچہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں مینں یہی معنی مراد ہیں ،مثلا وَأَوْحَى رَبُّكَ إلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الجِبَالِ بُيُوتًا اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں میں گھر بنالے
یہاں تک کہ شیاطین دلوں میں جووسوسہ ڈالتے ہیں ان کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے ارشاد ہے ۔و کذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الی بعض۔اور سی طرح ہم نے ہر نبی کے لئےئ ایک نہ ایک دشمن ضرور پیدا کیا ہے ۔ جن و انس کے شیاطین (میں سے جو (ایک دوسرے کے دل مینں وسوسے ڈالتے۔
نیز ارشاد ہوا۔ وان الشیطین لیوحون الی اولیئھم لیجادلوکم۔ اور بلا شبہ شیطان اپنے دوستوں کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ تمہارے ساتھ جھگڑا کریں۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں سے جو خباب فرماتے ہیں اس کو بھی ایحائ کہا گیا ہے ۔
اذا یوحی تبک الی الملئکۃ انی معکم
جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو ابلاع دیتے تھے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں
کسی غیر نبی کے دل میں جوبات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈآلی جاتی ہے اس کو بھی اسی لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔
واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ
اور ہم نے موسی کی والدہ کو الہام کیا کہ اس کو دودھ پلاو۔
لیکن یہ سب اس لفظ کے لغوی منہونم ہیں شرعی اصطلاحی میں وحی کی تعریف یہ ہے ۔: کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ ۔اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پو نازل ہو۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لفظ وحی اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعماول پیغمبر کے سوا کسی اور کے لئے درست نہیں ،
0 تبصرے