السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ
جرسی کا جو پیچھے کا ٹوپا ہوتا ہے وہ لگانا ضروری ہے یا نہیں نماز ہوجائے گی یا نہیں
المستفتی عبدالسلام
جھارکھنڈ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں جرسی کے ٹوپی کو پیچھے لٹکا کر نماز پڑھنے سے بلاکراہت نماز ہوجاتی ہے اس لیے کہ فقہائے کرام نے جو سدل کی تعریف کی ہے اس میں یہ صورت صادق نہیں آتی ہے جیسا کہ ھدایۃ میں ہے (هو ان يجعل ثوبه علي راسه او كتفيه ثم يرسل اطرافه من جوانبه)
یعنی ہدایہ میں ہےسدل یہ ہے کہ وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو بغیر ملائے چھوڑدے۔
عالمگیری میں ہے
(هو ان يجعل ثوبه علي راسه او كتفيه فيرسل جوانبه)
یعنی سدل یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو چھوڑدے)
فتاویٰ شامی میں بحرالرائق سے نقل کرتے ہوئے لگھتے ہیں
(فسره الكرخي بان يجعل ثوبه علي راسه او علي كتفيه ويرسل اطرافه من جانبيه اذا لم يكن عليه سراويل) جلد 2کتاب الصلوۃ
یعنی کرخی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کوچھوڑدےاور وہ پائجامہ نہ پہنے ہوئے ہو)
بہار شریعت میں ہے رومال شال یا رضائی یا چادر کے کنارے دونوں مونڈھوں سے لٹکتے ہوں تو یہ ممنوع ومکروہ تحریمی ہے اور ایک کنارہ دوسرے مونڈھے پر ڈال دیا اور دوسرا لٹک رہا ہے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر ایک ہی مونڈھے پر ڈالا اس طرح کہ ایک کنارہ پیٹھ پر اور دوسرا پیٹ پر جیسے عموماً اس زمانہ میں رومال رکھنے کا طریقہ
ہے تو یہ بھی مکروہ ہے ۔،، جلد 1دعوت اسلامی ایڈیشن ۔
خلاصۂ مضمون
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سدل فقہائے کرام کے نزدیک یہ ہے کہ
چادر یا دوپٹہ یا دوسرا کپڑا سر یا شانے پر رکھ کر اس کے اطراف کو بغیر ملائے ہوئے چھوڑدیں کرخی نے سدل کی تعریف میں ایک قید اور بڑھائی ہے وہ یہ ہے کہ پائجامہ نہ پہنے ہوں تب مکروہ ہے۔ مذکورہ بالا وضاحت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ سدل کی تعریف صورت مسٹولہ میں صادق نہ آنے کی وجہ سے مکروہ بھی نہیں ہے ۔،،
فقط واللہ اعلم بالصواب
0 تبصرے