عظمت سادات واقعات کی روشنی میں۔
از قلم:-شبیر احمد راج محلی۔
عظمت سادات اور اکرام سادات پر ایک بڑا مشہور واقعہ ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ:سید خاندان کے ایک سید صاحب"شہر بلخ"میں رہا کرتے تھے ان کی شریک حیات بھی سادات گھرانے کی ایک سیدہ تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سید صاحب کو اولاد میں بیٹیاں عطا کی تھی۔لیکن سید صاحب قبلہ پر فقر و غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے،سید صاحب قبلہ ان سیدہ بیوی اور سیدہ بیٹیاں فاقہ کشی کی زندگی گزارتے رہے،پھر اللہ کی مرضی کہ وہ سید صاحب قبلہ اپنی سیدہ بیوی اور سیدہ صاحبزادیوں کو چھوڑ کر انتقال کر گئے۔تب بیوہ سیدہ خاتون دشمنوں کے طعنوں کے خوف سے اپنی سیدہ بیٹیوں کو لے کر"شہر بلخ"سے"شہر سمرقند"روانہ ہوگئی۔ جب یہ حضرات"شہر سمرقند" پہنچیں تو وہاں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی،بیوہ سیدہ خاتون نے اپنی چھوٹی چھوٹی سیدہ بیٹیوں کو مسجد میں بٹھایا اور خود کھانے کی تلاش میں باہر نکل گئی۔اسی تلاش میں ان کا گزر دو مجمعوں کے پاس سے ہوا:ایک مجمع ایک مسلمان کے پاس لگا ہوا تھا جو اس شہر کا حاکم تھا،اور دوسرا مجمع اسی شہر کے ایک بڑے مجوسی آدمی کے پاس لگا ہوا تھا۔سب سے پہلے وہ بیوہ سیدہ خاتون اس مسلمان حاکم کے پاس گئی اور اس کے سامنے اپنا پورا حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے آج رات کا کھانا چاہیے۔اس مسلمان حاکم نے کہا: پہلے میرے پاس اس بات کے گواہ لا کہ تم واقعی"سید زادی"ہے۔ اس بیوہ سیدہ خاتون نے کہا:میں مسافرہ ہوں مجھے تو اس شہر میں کوئی نہیں جانتا تک نہیں۔گواہ کہا سے لاؤں۔اس جواب پر اس مسلمان حاکم نے اس بیوہ سیدہ خاتون کو بے رخی دکھلائی(جس کے سبب وہ بیوہ سیدہ خاتون آگے چلتی بنی)۔پھر اس بیوہ سیدہ خاتون نے اس مجوسی شخص کا رخ کیا اس کے پاس پہنچ کر اپنی ساری پریشانی بتائی اور اس مسلمان حاکم کا بھی پورا ماجرا کہہ سنایا۔اس مجوسی نے اس سید زادی کی پریشانی سن کر اپنے اہلِ خانہ کو اس سید زادی کے ساتھ مسجد بھیجا،پھر وہ مجوسی اس بیوہ سید زادی کو اور سیدہ بیٹیوں کو اپنے گھر لے آیا،پھر مجوسی نے ان سب سیدہ کے لیے اپنے گھر میں قیام وطعام کا انتظام کیا نیز عمدہ قسم کے کپڑوں سے انہیں نوازا۔پھر رات کو سارے لوگ آرام کرنے لگے۔
جب آدھی رات گزرگئی تو اس مسلمان حاکم نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں جھنڈا ہے اور سامنے سبز پتھر کا ایک خوبصورت محل ہے۔اس مسلمان حاکم نے نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم!یہ محل کس کا ہے؟نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ مُوَحِّدٍ، (ایک مسلمان آدمی کا محل ہے)۔اس مسلمان حاکم نے دوبارہ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! میں بھی مسلمان آدمی ہوں۔تب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:أَقِمْ عِنْدِي الْبَيِّنَةَ بِأَنَّكَ مُسْلِمٌ مُوَحِّدٌ،( پہلے اس بات کے میرے پاس گواہ لے آ کہ تو مسلمان شخص ہے)۔یہ سنتے ہی وہ شخص حیران ہو گیا۔پھر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس حاکم مسلمان شخص سے ارشاد فرمایا:لَمَّا قَصَدَتْكَ الْعَلَوِيَّةُ، قُلْتَ لَهَا: أَقِيمِي عِنْدِي الْبَيِّنَةَ، فَكَذَا أَنْتَ أَقِمْ عِنْدِي الْبَيِّنَةَ،(جب وہ سید زادی تمہارے پاس آئی تھی تو تم نے اس سے کہا تھا کہ پہلے اپنے سید زادی ہونے پر گواہ لے آ، اسی طرح تم بھی پہلے اپنے مسلمان ہونے پر گواہ لے آؤ) ۔ اسی حالت میں گھبراتے ہوئے وہ مسلمان حاکم جاگ اٹھا،پھر رونا اور سر پیٹنا شروع کر دیا اور اس سید زادی خاتون کو ڈھونڈ نے کے لیے "شہر سمرقند"میں چکر لگانا شروع کر دیا یہاں تک کہ اس کو سراغ مل گیا کہ وہ سید زادی فلاں مجوسی کے گھر میں ہے۔وہ دوڑے دوڑے اس مجوسی کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ آپ کے پاس جو سید زادی خاتون ہیں ان کو میں اپنے پاس لے کے جانا چاہتا ہوں۔مجوسی شخص نے کہا: یہ نہیں ہو سکتا۔ اس نے کہا: ایک ہزار سونے کی اشرفیاں مجھ سے لے لو اور ساری سید زادیوں کو مجھے دے دو۔مجوسی شخص نے کہا: انہوں نے مجھ سے کھانا طلب کیا تھا،میں نے ان کو کھانا اور ٹھکانا دیا۔اور اب تو میں اس مبارک سید زادیوں کی برکات اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہوں۔ان بابرکت حضرات کو اپنے پاس رکھنا میں اپنے لیے ضروری سمجھتا ہوں۔ پھر وہ مجوسی شخص کہنے لگا: جس چیز کو تم طلب کر رہے ہو، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔وہ محل جو تم خواب دیکھ کے آرہے ہو وہ میرے مقدر میں ہے۔اللہ کی قسم! میں اور میرے اہل خانہ گزشتہ رات اس وقت تک نہیں سوئے جب تک ہم نے اس سید زادی کے ہاتھ پر اسلام قبول نہیں کر لیا۔ اور سنو! جیسا خواب تم نے دیکھا ہے، ویسا ہی خواب میں نے بھی رات دیکھا ہے،خواب میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا ہے:الْعَلَوِيَّةُ وَبَنَاتُهَا عِنْدَكَ؟ ( وہ سیدزادی اور اس کی سیدہ صاحبزادیاں آپ کے پاس ہیں؟میں نے عرض کی:جی ہاں!تب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الْقَصْرُ لَكَ وَلِأَهْلِ دَارِكَ , وَأَنْتَ وَأَهْلُ دَارِكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، خَلَقَكَ اللَّهُ مُؤْمِنًا فِي الأَزَلِ(یہ محل تمہارا اور تمہارے اہل خانہ کا ہے، تم اور تمہارے اہل خانہ جنتی لوگ ہیں،اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں تمہیں ایمان والا ہیپیدا کیا تھا)۔
(البر والصلۃ لابن الجوزی،ص ٢٥٥،الْبَابُ الثَّانِي وَالْخَمْسُونَ فِي ذِكْرِ ثَوَابِ فِعْلِ الْمَعْرُوفِ مَعَ كُلِّ مَلْهُوفٍ،الناشر موسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت لبنان الطبعۃ ١٤١٣ھ)
اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سےالجھا،انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔رات کو زیارتِ اقدس"صلی اللہ علیہ وسلم" سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت"کا"خواہ ہوا،"تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے"اعراض فرمایا:اس نے عرض کی:میں بھی حضور کا امتی ہوں۔"تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے" فرمایا:کیا سند ہے تیرے امتی ہونے کی۔
[فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ٢٩،ص ٥٨٨ تا ٥٨٩،رسالہ اسماع الأربعين فی شفاعۃ سید المحبوبین،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور]
طالب دعا:- شبیر احمد راج محلی۔
٢٥/ دسمبر ٢٠٢٢ء بروز اتوار مطابق ١/ جمادی الآخرہ ١٤٤٤ھ
----------------جاری-----------------
0 تبصرے