امامِ علم وفن اور تدریسی وتصنیفی خدمات
از قلم ۔ محمد مناقب رضا عبیدی
متعلم:الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی
اسلام میں درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کا سبق معلم کائنات صلى الله عليه وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی اِقْرَأبِاسمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے ہی ملتا ہے۔جس سے درس و تدریس کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے. پھر پیغمبر اعظم ﷺ, جنہیں اللہ تعالی نے معلم کائنات اور مکارم اخلاق کا پیکر و نمونہ بناکر مبعوث فرمایا,درس وتدریس کا باضابطہ آغاز صفہ کے چبوترے سے فرمایا۔جس کی روشنی آج دنیا کی تمام درس گاہوں سے پھوٹ رہی ہے۔ فتح مکہ کے دن آزادی کے لیے فدیہ کی طاقت نہ رکھنے والے کفار قیدی کے لیے 10/ بے پڑھے لکھے آدمیوں کو پڑھاکر آزادی حاصل کرنے کا اعلان بھی درس وتدریس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
شمالی ہندوستان کے صوبہ بہار میں علاقہ سیمانچل ہمیشہ مردم خیز رہا ہے۔ یہاں ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی عبقری شخصیت دین و ملت سماج وسوسائٹی اور دین وسیاست کی قیادت کرتی رہی ہے ۔اس تناظر میں ماضی قریب کی بات کریں تو دینی و مذہبی فکر وفن کا لوہا منوانے والی
شخصیت
امام علم فن حضرت خواجہ مظفرحسین علیہ الرحمہ
کا نام سامنے آتا ہے۔ جو علوم اسلامیہ میں تبحر و دستگاہ رکھنے کے حوالے سے اپنے معاصرین میں نمایاں مقام و مرتبہ رکھتے تھے۔بلکہ کئ علوم تو ایسے ہیں جو ہماری درسگاہوں میں صرف اور صرف آپ کی وجہ سے باقی ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ آپ کو امام علم وفن،خیر الاذکیا، حل مشکلات، اور شارح تحقیقات رضا، وغیرہ بہترین القاب سے یاد کرتے ہیں۔
یوں تو آپ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا خراج وصول کرتے ہوئے مختلف جہتوں سے دین و ملت کی خدمات انجام دیں۔ مگر ہم یہاں آپ کی دو جہت کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
درس وتدریس
امام علم و فن کی اعلیٰ قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر فراغت کے بعد ہی معروف درس گاہ دارالعلوم مظہر اسلام(بریلی شریف) جو اس وقت اپنے تعلیمی معیار کی بنیاد پر طالبان علوم نبویہ کا مرجع تھا,کے ارباب بست و کشاد نے بحیثیت مدرس منتخب کرلیا۔ وہاں آپ نے مسلسل ٥/سال تک مشفق اساتذۂ کرام کے سایہ عاطفت میں رہ کر مختلف علوم و فنون کےتشنگان کو سیراب کرتے رہے۔
١٩۷١ھ میں حضور شیخ اعظم بانی جامع اشرف سید شاہ اظہار اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ آپ کو بحیثیت صدر المدرسین مشہور درس گاہ جامع اشرف (کچھوچھہ) مدعو کیا۔وہاں بھی آپ نے عرصۂ دراز تک طالبان علوم نبویہ کو علم و فن کا جام پلاۓ۔ان کے علاوہ بھی کئی مدارس میں درس وتدریس کی خدمت انجام دیں۔ جیسے:دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار؛ دارالعلوم غریب نواز الہ آباد؛ دارالعلوم فیضیہ بھاگل پور؛ خانقاہ قادریہ بدایوں شریف؛ خانقاہ رضویہ بریلی شریف؛ خانقاہ علویہ وغیرہ۔
آپ کے بےشمار تلامذہ ہیں۔یہاں ہم آپ کے چند مشہور تلامذہ کے اسما ذکر کرتے ہیں*: (١)فقیہ النفس مناظر اہلِ سنت مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی(٢) علامہ اسید الحق بدایونی (٣) سید ہاشمی میاں کچھوچھہ مقدسہ (٤) مولانا سید انور چشتی وغیرہ۔
تصنیف وتالیف
اللہ تعالٰی نے امام علم وفن علیہ الرحمہ کو قرطاس و قلم کی صلاحیت سے نوازا تھا۔جس پر آپ کے رشحات قلم شاہد عدل ہیں۔درس و تدریس میں مشغولیت کے سبب آپ تصنیف و تالیف کی طرف خاص توجہ نہیں دے پاۓ۔ مگر وقت ضرورت اپنے قلم فیض رقم کو جنبش دیا اور اپنے قلم کا احساس دلایا
مندرجہ ذیل کتابیں موصوف علیہ الرحمہ کی علمی تحقیقی اور قلمی
خدمات بین ثبوت ہیں:(١) لاوڈ اسپیکرکی آواز اصلی یا نقلی (٢) ٹی-وی اور ویڈیو کی تصویر اصلی یا نقلی یا فرضی(٣) اعلیٰ حضرت اور کر مقابلہ (٤) دیوبندی تابوت میں آخری کیل وغیرہ جیسی درجنوں کتابیں ہیں۔
وصال
امام علم وفن حضرت خواجہ مظفر حسین علیہ الرحمہ١٤ ذی الحجہ ٢٠ اکتوبر یکشنبہ/١٤
٣٤ھ/ ٢٠١٣/شب کو ٣ بج کر ٣٠ منٹ پر عالم فنا کو الوداع کہہ گئے۔
0 تبصرے