Header New Widget

سوشل میڈیا کے ذریعے رافضیت کے پنپتے جراثیم۔۔ حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت سے افضلیت مولی علی کا اثبات.

 سوشل میڈیا کے ذریعے رافضیت کے پنپتے جراثیم 

حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت سے افضلیت مولی علی کا اثبات. 

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا


میرا اپنا نظریہ ہے کہ جب کسی مسلمہ عقیدہ و نظریہ کے خلاف کوئی قول یا فعل نظر آئے تو اس میں کچھ نہ کچھ رموز ہیں جو ہماری نظروں سے مخفی ہوتے ہیں پسِ پردہ اس کی حقیقت اور ہی ہوتی ہے، ایسے میں کسی ایک قول یا فعل کو اختیار کرکے مسلمات کو چھوڑ دینا بلکہ اسے چلینج دینا حماقت ہی نہیں اپنے ایمان و عقیدہ کو خطرے میں ڈالنا ہے. تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ ایسے فرد کی گرفت کرنے کے بجائے اس کی ذہنی وعلمی قابلیت کے چرچے کیے جاتے ہیں. کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے ایمان شکن کارخانے کی باطل  پروڈکٹ کو مارکیٹ میں لانچ کرنےکے لیے انہیں سیلس مین کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اور باور یہ کرایا جارہا ہے کہ یہ سوال اسی کا ہے، یہ تلاش اس کی اپنی محنت ہے. بڑے خطرناک سوالات کرتا ہے. وغیرہ. 

معاملہ یہ ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سارے انبیاء کرام و رسولان عظام سے افضل ہیں یہ مسلمہ مجمع علیہ اور منصوصہ عقیدہ کون نہیں جانتا اور کون اس کے خلاف عقیدہ رکھ سکتا ہے .... لیکن اس عقیدہ کے ظاہراً خلاف نظر آنے والی اس روایت "وَلَا أَقُولُ: أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ يُونُسَ بنِ مَتَّى" سے یہ استدلال کرنا کہ جیسے نبی نے یہاں تواضعا اپنے کو حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت دینے سے روکا ہے ٹھیک اسی طرح حضرت مولا علی نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کو تواضعا اپنے سے افضل قرار دیا ہے. تو یہ کتنی بڑی جہالت اور دریدہ دہنی و فکری ہے. بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ میں حضرت علی کو سب سے افضل مانتا ہوں لگاؤ فتویٰ..... بات تب اور زیادہ بگڑتی دِکھتی ہے جب ایسا کہنے ،لکھنے والا اور اس کے موئیدین اپنے نام کے ساتھ نسبتِ سلاسلِ طریقت کا لاحقہ لگائے ہوئے ہیں جس سے عوام الناس کو دھوکا ہوتا ہے اور دوسرے حضرات بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں. اسی لیے مشائخ سلاسل طریقت کو چاہیے کہ ایسے فرد کی رہنمائی کرے . مناسب کارروائی کرے یا پھر گوشمالی کرتے ہوئے اسے اپنی ارادت سے نکال دے کیونکہ ایسی صورت میں اس فرد سے زیادہ اس کے شیخ پر انگشت نمائی ہوتی ہے، کچھ تو "شیخ ہی کی شہ " تک کہہ دیتے ہیں.

 مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایسا عقیدہ رکھ کر پوری دنیائے اہل سنت کو چیلنج کرتا ہے . پھر تو بات خود ہی واضح کردی اور اپنے پر اہل سنت سے خارج ہونے کا حکم خود ہی لگا لیا کیونکہ ایسا عقیدہ واقعتا اہل سنت کا نہیں ہے. جو ایسا عقیدہ رکھے وہ سب کچھ تو ہو سکتا ہے مگر اہل سنت و جماعت نہیں ہو سکتا. لیکن پھر بھی اس روایت سے اٹھنے یا اٹھائے جانے والے شبہات کا ازالہ ضروری ہے تاکہ اس کی کج فکری کی تابوت میں اصلاحی کیل ٹھونک دی جائے. 

پہلے احادیث و آثار کی روشنی میں یہ دیکھیں گے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت کا ذکر کیسے ہوا پھر محدثین کے اقوال سے اس کی توضیح و تحقیق پیش کی جائے گی. 


حضرت یونس علیہ السلام کی ذکرِ افضلیت کا پس منظر. 

صاحب مشکوٰۃ شریف نے اس تعلق سے ایک روایت نقل فرمائی. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا: اللہ کی قسم جس نے محمد ﷺ کو سارے جہان کے لوگوں میں بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا: اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہان کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا، اس پر مسلمان نے یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا،  یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورتِ حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بے ہوش ہو کر گر جاؤں گا، پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بےہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بے ہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بے ہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بے ہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بے ہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بے ہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا ) "وَلَا أَقُولُ: أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ يُونُسَ بنِ مَتَّى ".

اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔"

 اور حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم)


حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں لَا تفضلوا بَين أَنْبيَاء الله " یعنی تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔(متفق علیہ) 

اس سے واضح ہے کہ حضور نبی ﷺ نے انبیاء کرام اور بالخصوص حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت دینے سے مطلقا منع نہیں فرمایا ہے. 

علامہ ابن حجر نے لکھا ہے. 

وقال الحليمي: الأخبار الواردة في النهي عن التخيير إنما هي في مجادلة أهل الكتاب وتفضيل بعض الأنبياء على بعض بالمخايرة؛ لأن المخايرة إذا وقعت بين أهل دينين لا يؤمن أن يخرج أحدهما إلى الإزدراء بالآخر؛ فيفضي إلى الكفر، فأما إذا كان التخيير مستنداً إلى مقابلة الفضائل لتحصيل الرجحان. (فتح الباری 446/6)

حلیمی نے فرمایا: فضیلت دینے سے منع کرنے والی روایات اہل کتاب سے مجادلہ اور بعض انبیا کو بعض پر فضیلت کے اعتبار سے منتخب کرنے پر محمول ہیں. کیونکہ جب دو الگ الگ اہل دین کے درمیان مخایرہ ( فضیلت دینے میں منتخب کرنا) اور مجادلہ ہوگا تو دونوں ایک دوسرے کے منتخَب کوحقیر سمجھنے سے نہیں بچ سکیں گے اور یہ کفر ہے. البتہ افضلیت کی بنیاد فضائل و کمالات کو پیش کرنے پر ہو تو یہ درست ہے. 

اب اس روایت سے جو بھی افضلیت کے متفقہ و مسلمہ عقیدہ پر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مذموم سعی کررہے ہیں وہ اپنے عقیدے کی خیر منائیں. 


حضور نبی ﷺ کا خود کو افضل کہلانے سے منع فرمانے کے کچھ وجوہات حسب ذیل ہیں. 

(1) آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ حضورﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ،اور آپ کو  اپنے تمام انبیاء سے افضل ہونے کا علم نہیں تھا، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آپ ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے، ۔

 (2) آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ تمام انبیاءِ کرام سے افضل  ہیں اور ان کے سردار ہیں، لیکن آپ ﷺ نے تواضع ، عاجزی اور انکساری کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا تھا۔

علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے. 

قال العلماء: إنما قال صلى الله عليه وسلم ذلك تواضعاً إن كان قاله بعد أن أعلم أنه أفضل الخلق، وإن كان قاله قبل علمه بذلك فلا إشكال، (فتح الباری ج 6ص452)

حضور کا یہ فرمان اگر اپنے بارے افضل الخلق کا علم ہوجانے کے بعد ہے تو اسے تواضع پر محمول کیا جائے گا اور اگر اس سے پہلے کا ہے تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں

علامہ بدرالدین عینی نے بھی کچھ اسی طرح لکھا ہے. 

قَالَ هَذَا مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  على مَذْهَب التَّوَاضُع والهضم من النَّفس وَلَيْسَ مُخَالفا لقَوْله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: أَنا سيد ولد آدم؛ لِأَنَّهُ لم يقل ذَلِك مفتخراً وَلَا متطاولاً بِهِ على الْخلق، وَإِنَّمَا قَالَ ذَلِك ذَاكِرًا للنعمة ومعترفاً بالمنة، وَأَرَادَ بالسيادة مَا يكرم بِهِ فِي الْقِيَامَة، وَقيل: قَالَ ذَلِك قبل الْوَحْي بِأَنَّهُ سيد الْكل وَخَيرهمْ وأفضلهم، (عمدۃ القاری 293/15)


(3) نفسِ نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو، کیوں کہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، خصائص وصفات کے لحاظ سے افضل اور مفضول ہونے سے انکار نہیں ہے، جیسا کہ خود سورۂ بقرہ میں مؤمن کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه﴾ [البقرة: 285]  یعنی ہم کسی نبی اور رسول کے درمیان فرق نہیں کرتے  اور یہ نہیں کرتے کہ خدا کے سچے نبیوں میں ایک کو مانیں اور دوسرے کا انکار کریں۔

علامہ ابن حجر نے لکھا ہے. 

النهي عن التفضيل إنما هو في حق النبوة نفسها، كقوله تعالى: ﴿لا نفرق بين أحد من رسله﴾ ولم ينه عن تفضيل بعض الذوات على بعض؛ لقوله: ﴿تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض﴾. (فتح الباری 446/6)

(4) یایہ مرادہےکہ کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے ، بلاشبہ انبیاء اور رسولوں کے درمیان فرقِ مراتب ہے ، انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، اور اسی طرح تمام انبیاء کے درمیان  فضیلت دینے کی ممانعت بھی مذکور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی کو اس طرح دوسرے نبی پر فضیلت دینا ممنوع ہے کہ جس سے  دوسرے نبی کی  تنقیص لازم آتی ہو،.

علامہ ابن حجر نے لکھا ہے. 

قال العلماء في نهيه صلى الله عليه وسلم عن التفضيل بين الأنبياء: إنما نهى عن ذلك من يقوله بحيث يؤدي إلى تنقيص المفضول أو يؤدي إلى الخصومة والتنازع، أو المراد لا تفضلوا بجميع أنواع الفضائل بحيث لا يترك للمفضول فضيلة.(فتح الباری 446/6)

تفضیل بین الانبیاء سے اس شخص کو روکا گیا ہے جو اس طور فضیلت دے کہ مفضول کی تنقیص لازم آیے یا یہ جگھڑا اور تنازع کا سبب بنے یا یہ مراد ہے کہ کسی کو تمام فضائل میں اس طور فضیلت مت دو کہ مفضول کے لیے کوئی فضیلت بچے ہی نا. 

حضرت یونس علیہ السلام کا خصوصاً ذکر کرنے کی وجہ.


حدیث میں خاص کر یونس علیہ السلام کا ذکرفرمایا جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے. وَلَا أَقُولُ: أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ يُونُسَ بنِ مَتَّى .رسول کریم ﷺ نے فرمایا: یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام ابن متی سے بہتر ہوں ۔" ( بخاری ومسلم)

اس روایت کا دومعنی ہے 

1. کوئی عام شخص اپنے بارے میں کہے وہ یونس علیہ سے  بہتر ہے، اس صورت میں یہ جائز نہ ہونا بالکل ظاہر ہے کہ کسی بھی امتی کے لیے ایسا کہنا قطعاًجائز نہیں۔

علامہ عینی نے لکھا ہے 

لَيْسَ لأحدأَن يفضل نَفسه على يُونُس، (عمدۃ القاری 293/15)

2. خصوصیت کے ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صرف اس لیے ہے کہ جو شخص بھی یونس علیہ السلام کے حالات اور واقعات کا مطالعہ کرے تواس کے دل میں آپ کی ذاتِ اقدس کی تنقیص کا پہلو نہ آئے کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذا پہنچائی تو  یونس علیہ السلام ان کو عذاب سے ڈرا کر غصہ میں قوم کو چھوڑ کر نکل گئے اور کشتی میں جابیٹھے تھے، لہٰذا ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا درست ہے، لیکن آں حضور ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔ لہذا ان کی عظمت کے اس پہلو کو نمایاں کرکے تنقیص کے اس خدشہ کا سدباب کیا۔

علامہ ابن حجر نے لکھا ہے. 

خص يونس بالذكر؛ لما يخشى على من سمع قصته أن يقع في نفسه تنقيص له، فبالغ في ذكر فضله؛ لسد هذه الذريعة"(فتح الباری 452/6)

حضرت یونس علیہ السلام کا خصوصاً ذکر اس لئے ہےکہ یہ خدشہ ہے کہ ان کے حالات و واقعات پڑھ سن کر دل میں کہیں کوئی تنقیص کا پہلو جم جائے. لہذا ان کی فضیلت زوردار انداز میں بیان کرکے تنقیص کا سد باب کردیا. 

علامہ عینی نے بھی تنقیص شان کے خدشہ ہی کو خصوصی ذکر کی علت قرار دیا ہے .

علاوہ ازیں یہ بات بھی مسلم ہے کہ ابنیاء کرام کو جزوی فضیلت حاصل ہے ممکن ہے یہ ان کی جزوی فضیلت ہو لیکن فضیلت کلی حضور ﷺ ہی کو حاصل ہے. 

لہذا حضرت یونس علیہ السلام والی روایت کاسہارا لےکر اپنے گندے عقیدے کو پیش کرنے کا جواز فراہم نہیں کرسکتے. اتنی ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگاتے ہو سیدھے اعلان کیوں نہیں کردیتے کہ میرا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے.

اور اس بات پربھی توجہ دینی چاہیے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے شیخین کو جہاں افضل قرار دیا وہیں اگر کسی نے آپ کو افضل قرار دینا چاہا تو آپ نے اس کے لیے حد مفتری کے برابر سزا مقرر فرمائی. کیا نبی نے اپنی افضلیت پر کوئی ایسی سزا مقرر فرمایا ہے. اور کیا حقیقت بیانی کرنے والاافترا کی سزا کا سزاوار ہوسکتاہے ؟ 

اللہ پاک ہدایت نصیب فرمائے. 

ہیں کواکب، کچھ نظر آتے ہیں کچھ 

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا.

محمدنذرالباری اشرفی جامعی. پورنیہ بہار

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے