حوران_جنت_کا_اسلامک_کانسیپٹ_اور
آزاد_خیالوں_کی_دسیسہ_کاریاں
دین اسلام کو بدنام کرنے کی روایت یہ آج کی کوئی نئی نویلی چیز نہیں ہے،بلکہ صدیوں سے چلا آرہا،ایک پرمپرا ہے۔جو کفار مکہ سے شروع ہوکر،یہود و نصارٰی اور اس وقت ملحدین و بے دین کے ہتھے چڑھا ہوا ہے۔لیکن فطرت اسلام کو بھی قدرت نے بلا کی لچک دی ہے۔ان لوگوں نے جتنی زیادہ مٹانے اور دبانے کی کوشش کی،یہ ابھرتا ہی چلاگیا۔کیوں کہ اس کی نِیوْ اوربنیادرکھنے والی شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔
تحریر کے آخر میں ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری کے حوالے سے پڑھیں گے کہ مشرقی دانشوروں نے کس قدر اسلام کو بدنام کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے کیسا جھوٹ گڑھا ہے۔
حور کا لغوی معنی:
(١)"الحَوْراءُ" اور "أحور" واحد ہیں ان کی جمع "حُورٌ" ہے۔ "الحوراء" واحد مؤنث کے لیے اور"أحور"واحد مذکر کے لیے مستعمل ہے۔مادہ"ح-و-ر" ہے۔
معانی مندرج ہیں:
"جنت کی حسین اور سیاہ چشم عورتیں"۔(القاموس الوحید،عربی اردو)
(٢)"خوب صورت عورتیں جو بہشت میں نیک آدمیوں کی خدمات گار ہوں گی"۔(فروزاللغات)
(٣)"گوری چٹی عورتیں جن کی آنکھوں کی پتلیاں اور بال بہت سیاہ ہوں،بہشتی عورتیں"۔(ریختہ ڈکشنری)
(٤)سفید فام عورتیں،اصطلاح اسلام میں جنت کی دو شیزائیں جن کی آنکھیں خاص طور پر بہت خوبصورت ہوں گی۔ قرآن پاک میں ان کا ذکر کئی جگہوں پر آیا ہے۔ ان کو دُرِّ مکنون سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان کی دوشیزگی کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے قبل ان کو کسی انسان نے ہاتھ نہ لگایا ہوگا۔ بعض مبصرین اور تذکرہ نویسوں نے ان کے شمائل کے متعلق مختلف خیال آرائیاں کی ہیں۔ ان کے لباس و جواہرات کی عمدہ تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا خمیر مشک و عنبر اور کافور سے تیار کیا گیا ہے۔صوفیائے کرام نے بھی ان کے متعلق اپنے خیالات کا موقع بہ موقع اظہار کیا ہے۔(گوگل ویکیپیڈیا)
"حور" کو بعض نے"اسم نکرہ" کہا اور بعض نے "اسم صفت"۔اور لفظ "حور"کا بعضے مذکر و مؤنث دونوں پر اطلاق کرتے ہیں۔مگر احوط یہی ہے کہ یہ مؤنث کے لیے ہے۔جیسا کہ قرآنی قرائن اس بات پر دال ہےکہ قرآن پاک میں جنتی حسیناؤں کا ذکر مؤنث کے تصریحی صیغہ کے ساتھ آیا ہے۔ اور وہ چار مقامات جہاں "حور" کا لفظ آیا ہے تو ان میں سے بھی دو مقامات (الرحمن، الواقعہ) کے سیاق و سباق میں مؤنث ہی کا اسلوب چل رہا ہے اور ممکن ہی نہیں کہ وہاں اسے جمع مؤنث کے ساتھ ساتھ جمع مذکر بھی قرار دیا جائے۔
وہ چار مقامات درج ذیل ہیں:
(١)كَذٰلِكَ-وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۔(سورۃ الدخان،۵٤)
(٢)مُتَّكِـٕیْنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍۚ-وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ(سورۃ الطور،۲۰)
(٣)حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ(سورۃ الرحمٰن،٧٢)
(٤)وَ حُوْرٌ عِیْنٌ(سورۃ الواقعہ،٢٢)
ایک بات مکمل ہوگئی تو اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں کہ آج لبرلزم کے پرستاروں کی جانب سے یہ دو چند اعتراض کیے جاتے ہیں۔
(١) مردوں کے لیے جنت میں حور ہے تو عورتوں کے لیے کیاانعامات ہیں؟
(٢)حوروں کی تمنا میں یہ مسلمان،انسانیت سوزی اور دہشت گردی کرتے ہیں،کیا قرآن غلط باتوں کی تعلیم نہیں دے رہا ہے؟
(٣)مردوں کو کئی ایک حور ملیں گی جب کہ عورت یہی دنیاوی مرد کے ساتھ باندھ دی جائے گی،کیا یہ نا انصافی نہیں ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
(١)جواب یہ ہے کہ دین اسلام میں ہر ایک کے لیے مکمل نظام حیات موجود ہے۔یہاں بے سر و پا باتیں نہیں کی جاتی ہیں،بلکہ جو آثار وقرائن بتاتے ہیں اسی کو پیش کرتا ہے۔تو اللہ تبارک وتعالیٰ متقیوں کو اپنا انعام و اکرام شمار کروا رہا ہے کہ تمھارے لیے جنت میں یہ ساری نعمتیں ہوں گی اور وہاں تم ان انواع و اقسام کی نعمتوں کو برتو گے۔
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَّ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةًﭤ(7)فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِﭤ(8)وَ اَصْحٰبُ الْمَشْــٴَـمَةِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَشْــٴَـمَةِﭤ(9)وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ(10) اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ(11)فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(12)ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ(13)وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَﭤ(14)عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ(15)مُّتَّكِـٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ(16)یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ(17)بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِیْقَ ﳔ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(18)لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَ(19)وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ(20)وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَﭤ(21)وَ حُوْرٌ عِیْنٌ(22)كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُوَٴ الْمَكْنُوْنِ(23)جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(24)۔
ترجمہ:
اور اے لوگو! تم تین قسم کے ہوجاؤ گے۔تو دائیں جانب والے( جنَّتی) کیا ہی دائیں جانب والے ہیں۔ اور بائیں جانب والے( یعنی جہنمی)کیا ہی بائیں جانب والے ہیں۔اور آگے بڑھ جانے والے تو آگے ہی بڑھ جانے والے ہیں۔وہی قرب والے ہیں۔نعمتوں کے باغوں میں ہیں۔وہ پہلے لوگوں میں سے ایک بڑا گروہ ہوگا۔اور بعد والوں میں سے تھوڑے ہوں گے۔(جواہرات سے)جَڑے ہوئے تختوں پر ہوں گے۔ان پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے۔ان کے اردگردہمیشہ رہنے والے لڑکے پھریں گے۔کوزوں اور صراحیوں اور آنکھوں کے سامنے بہنے والی شراب کے جام کے ساتھ۔اس سے نہ انہیں سردرد ہو گااور نہ ان کے ہوش میں فرق آئے گا۔اور پھل میوے جوجنتی پسند کریں گے۔اور پرندوں کاگوشت جو وہ چاہیں گے۔اور بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں ہیں۔جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی ہوں۔ان کے اعمال کے بدلے کے طور پر۔(سورۃ الواقعہ)
ان آیتوں میں جہاں بے شمار نعمتوں کا ذکر ہے وہیں ضمناً "حور" کا بھی ہے یہ نہیں کہ وہاں انسان صرف جنسی خواہش کی تسکین کے لیے ہی داخل ہوگا،جیسا کہ اس مدعے کو لے کر پروپیگنڈا کھڑا کیا گیا ہے؛بلکہ وہاں انھیں وہ نعمتیں دی جائیں گی جس کا انسان دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔اب عورتوں کو وہاں کیا ملے گا تو یہ دنیاوی عورتیں بھی نوع انسان سے ہی ہیں اور جو نیک عورت ہوں گی تو وہ بھی دخول جنت کی اہل ہوں گی۔ تو ان کا تذکرہ قرآن پاک کے دس مقامات پر لفظ"حور"کے علاوہ دوسری تعبیرات و تشریحات اور مختلف اسلوب نگاری کے ساتھ ہوا ہے۔بطور دلیل آیات و احادیث کے نمونے پیش ہیں۔
(١) وَلهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ) (البقره: ٢٥)
(۲) وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ (آل عمران : ١٥)
(٣)لهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ) (النساء: ٥٧)
(٤)هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِرُونَ) (يس: ٥٦)
(۵) وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ ﴾ (الصافات: ٤٨)
(٦)وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتُرَاب ) (ص:٥٢)۔
(٧)ادْخُلُوا الجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴾ (الزخرف: ٧٠)
(٨)وفيهِنَّ فَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمَّ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَان (الرحمن : ٥٦)
(٩)إنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاء فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا) (الواقعہ : ٣٥)
(١٠)وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ( النباء: ٣٣)
قرآن پاک اس تعلق سے ایک جگہ فرمایا:
إنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاء-فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا۔(واقعہ،٣٥)
ہم نے ان کی بیویوں کو خصوصیت سے پیدا کیا ہے۔ہم نے ان کو دوشیزہ بنایا۔
یعنی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو آدم کی عورتیں ہیں، یعنی ہم نے ان کو دوبارہ از سرنو پیدا کیا اور ہم نے ان کو نو جوانی اور شباب کے حال میں لوٹا دیا اور ہم نے بوڑھی خواتین اور بچیوں کو از سرنو جوان اور دوشیزہ بنا دیا۔(تبیان القرآن جلد،١١۔سورۃ الواقعہ،٣٤،٣٥)
اس آیت کی تائید میں حدیث پاک دیکھیں:
یعنی "ایک بڑھیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! دعا کیجیے کہ اللہ تعالی مجھے جنت میں پہنچادے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بی بی! جنت میں بڑھیا نہیں جائے گی۔ راوی بتلاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ بڑھیا روتے ہوئے واپس پھرنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بتلاؤ! جنت میں بڑھیا بڑھاپا لے کر نہیں جائے گی (بلکہ جنت میں جو بھی جائے گا جوان ہو کر جائے گا) کیونکہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: "ہم انھیں ایک نیا جنم دے کر کنواریاں، اپنے خاوندوں کی لاڈلیاں اور عمر میں یکساں بنادیں گے"۔(جامع الترمذی 3296)
ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں:
روایت میں صحابی رسول ابو نحیلہ کی ایک دعا نقل کی گئی ہے کہ "اللهم اجعلني من المقربين واجعل أمي من الحور العين"۔یعنی "اے پروردگار مجھے اپنا مقرب بنا اور میری ماں کو حوران بہشتی میں شامل فرما"(ماہنامہ الشریعہ)
اگر حوران بہشتی کے تذکرے صرف مردوں کا شوق جنت بڑھانے کے لیے ہوتے اور عورتوں سے غیر متعلق ہوتے تو اس کی وجہ سے جو ابہامات ہماری خواتین کو لاحق ہوتے ہیں، بعینہ یہی ابہامات عہد نبوی کی خواتین کے ذہن میں بھی ضرور پیدا ہوتے اور وہ اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتیں۔ان کے ذہنوں میں ایسا کوئی سوال پیدا نہ ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ عہدِ نبوی کی خواتین لا محالہ "حورانِ بہشتی"کے اطلاق میں مومن بیبیوں کو بھی شامل سمجھتی تھیں، ورنہ ان کے ذہن میں بھی یا کم از کم بعد کی کچھ صدیوں کی مومن خواتین کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہو تا۔
لہذا مذکورہ تمام قرائن و شواہد گواہی دیتے ہیں کہ دنیا سے گذر کر جانے والی مومن خواتین پر "حور" کا اطلاق کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اور جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حورانِ بہشتی" سے مراد علی الاطلاق جنتی حسینائیں ہیں (خواہ وہ دنیا کی مومن عور تیں ہوں یا کلمہ ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسینائیں) اور ان حسیناؤں کے بارہ میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ زنانہ حسن و جمال کا مرقع بن کر مومن مردوں ہی کے پاس ہوں گی۔تو دیکھیے کسی بھی عورت کی سب سے بڑی خواہش جو اسے پریشان کن حد تک لاحق ہوتی ہے،وہ یہ ہے کہ کسی طرح میں ایک مثالی حسن کی مالکہ بن جاؤں،میرا حسن و جمال،میری نگاہیں صنف مخالف کو مبہوت کر کے رکھ دیں اور یہ کہ میرا رفیق حیات ایک مثالی کردار اور مثالی شخصیت کا مالک ہو۔اب ذرا حوران بہشتی والی آیات واحادیث کو پڑھیے، کیا ان میں صنف نازک کی انھی چاہتوں کی تکمیل کی بات نہیں ہو رہی ہے؟ تو اب آپ خود ہی بتائیں کہ یہ آیات و احادیث عورتوں سے غیر متعلق کیوں کر ہوئیں؟ بے شک ان میں مردوں کے لیے بھی پوری پوری دلچسپی کا سامان موجود ہے، مگر یہ عورتوں کے لیے بھی غیر متعلقہ ہرگز نہیں ہیں۔ ہاں، اگر عورتوں کو لازوال حسن، بے مثال سراپا، قابل رشک شخصیت، نہ ختم ہونے والی جوانی، نگینہ جیسی صورت اور حسین، خلیق و معزز رفیق کی خواہش نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے، اس صورت میں حوران بہشتی کے احوال میں واقعی ان کے لیے دلچپسی کا کوئی سامان نہیں ہے۔معلوم ہوا کہ یہ ساری چیزیں انعامات الہیہ ہی قسمیں ہیں۔(ماہنامہ الشریعہ)
(٢) یہ ہے کہ حوروں کی چاہت میں قوم مسلم جہاد کرتی ہے اور Terrorism(دہشت گردی) پھیلاتی ہے۔تو اس پر بھی کھل کر گفتگو کرنا مناسب ہے۔جو لوگ بہ نام اسلام آتنکواد پھیلاتے ہیں دراصل یہ لوگ بہت بڑے مفاد پرست ہوتے ہیں۔نہ انھیں اسلام کی سمجھ ہوتی ہے اور نا ہی یہ اس کے لیے مخلص ہوتے ہیں بلکہ یہ دین بیزار لوگ ہیں۔جنھوں نے لفظ"جہاد" کو بدنام کررکھا ہے۔یہ بات یاد رکھیے کہ جہاد کوئی بری چیز نہیں ہے۔ہمیں جہاد کے صحیح مفہوم و معانی کو پہلے سمجھنے سمجھانے کی ضرورت ہے۔اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی جہاد کا حکم ہوا، وہ کس پس منظر اور کس intention میں ہوا،پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے آیات جہاد کا جو مفہوم ومطلب سمجھا اور دوسروں کو سمجھایا، مفسرین و علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں ان کی جو تفسیر اور تشریح وتوضیح کی، ان کے علم و مطالعہ کے بغیر اپنے مطلب کی آدھی ادھوری بات کرنا اور دوسری ہزاروں آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کو پس پشت ڈال کر واہی تباہی بکنا انصاف و دیانت سے دور اور محض افترا پردازی اور شر انگیزی ہے۔
آیت دیکھیں،ارشاد الٰہی ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَى الْقِتَالِؕ-اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ-اَلْــٴٰـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًاؕ-فَاِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔
ترجمہ:
اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ کافر سمجھ نہیں رکھتے۔اب اللہ نے تم پر سے تخفیف فرمادی اور اسے علم ہے کہ تم کمزو ر ہو تو اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تود و سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب ہوں گے اوراللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورۃ الانفال،٦٦/٦٥)
یہ سورۂ انفال مدینہ میں نازل ہوئی جب کہ مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کی زندگی دوبھر کر رکھی تھی جس بنا پر راتوں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرنا پڑا تھا۔اسلام دشمن عناصر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو سکون سے نہیں رہنے دیتے تھے۔ سازش و فتنہ کے تحت وہاں سے بھی انہیں نکالنا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ بھاری تعداد اور ساز وسامان کے ساتھ مکہ سے مدینہ پہنچ کر اُن پر حملہ بھی کر دیا۔ بے سروسامان مسلمان ان کے مقابلہ میں جب آئے تو ان کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی۔ اس جنگ کا نام غزوۂ بدر ہے جو تاریخ اسلام کا پہلا معرکہ ہے۔ اس معرکہ سے پہلے مذکورہ آیات نازل ہوئیں جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ تم ان قلیل التعداد مسلمانوں کو تیاری و مقابلہ کی ترغیب دو اور ان کے اندر شوق جہاد پیدا کرو، ان کے حوصلے بڑھاؤ۔ایمانی و روحانی قوت کے ساتھ جب یہ حملہ آوروں کے سامنے آئیں گے تو ان میں کا ایک ہی اُن کے دو کے مقابلہ میں کافی ہوگا۔اور نصرت خداوندی سے بعید نہیں کہ اس سے زیادہ پر بھی ایک ہی مجاہد بھاری پڑ جائے۔
آج کی یا کل کی دنیا آنکھ کھول کر دیکھے اور بتائے کہ اگر دشمن فوج جنگ کی تیاری کر رہی ہو۔ چڑھائی کے لیے کوچ کر رہی ہو۔ اس کے گھوڑے ہنہنا رہے ہوں۔ اس کی شمشیر و سنان چمک رہی ہوں۔ اس کی بندوقیں و مشین گنیں آگ اگلنے اور اس کی توپوں کے دہانے لاشوں کے چیتھڑے اڑانے کے لیے بیتاب ہوں۔ اور مخالف فوج قطار در قطار کھڑی ہو کر آنکھیں دکھا رہی ہو تو پھر اس وقت اپنے آدمیوں اپنے جوانوں اور اپنے بوڑھوں کے سینے میں جرات و بہادری کے ساتھ مقابلہ اور جنگ کا عزم و حوصلہ نہ پیدا کیا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ اور جو ایسا نہ کر سکے اس قوم و ملک کی دینی،ملی،ملکی اور قومی غیرت و حمیت کو کس گڈھے اور کس کھائی میں دفن کیا جائے؟ چودہ سو سال پہلے نہیں بلکہ آج کی اکیسویں صدی عیسوی میں دنیا کا کون سا ملک کون سی قوم کون سا قبیلہ اور کون سا مذہب ہے جو بغیر کسی مزاحمت و مقابلہ کے اپنے دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنا وجود فنا کرنے کے لیے تیار ہے؟(آیات جہاد کا قرآنی مفہوم۔از: یٰسین اختر مصباحی)
جواب ہر ایک کا نفی میں آئے گا،تو پھر مذہب اسلام پر ہی بھونڈے قسم کے اعتراضات اور طنز کیوں کسے جاتے ہیں کیا یہ حقیقت سے چشم پوشی نہیں ہے،کیا یہ تعصب پرستی نہیں ہے اور کیا یہ تاریخ اسلام سے ناواقفیت نہیں ہے؟؟؟؟اس طریقے سے جہاں بھی آیات جہاد نازل ہوئی ہوئی ہے تو Directly یہ حکم نہیں دیا گیا کہ کافروں کو مارو، اس کا کچھ نہ کچھ Background (پس منظر) ضرور ہے۔اگر مزید گہرائی میں جائیں گے تو اسلام کا اصول جنگ بھی معلوم ہوگا کہ وہ نہ عورتوں کو مارتے نہ بچوں کو اور ناہی بوڑھوں کو پریشان کرتے اور فتحیابی کے بعد مثلہ کرنا سختی سے منع تھا۔ایسے ہوش ربا عالم میں کون دیکھتا ہے کہ کس کو چھوڑنا ہے اور کس کو مارنا ہے مگر اسلام کی عظمتوں کا کیا کہنا۔بلکہ دین اسلام ضبط نفس کی تلقین کرتاہے،اس لیے نفس سے جہاد کرنے کو،جہاد اکبر کہا گیا ہے۔اب بتائیےجو لوگ بہ نام اسلام دہشت گردی کرتے ہیں اور اس کو جہاد سمجھتے ہیں کیا وہ اس پیمانے پر ہوتے ہیں؟ہرگز نہیں؛بلکہ وہ خود مغالطے میں ہیں۔انھیں حور توکجا،انھیں اس کی شکل بھی دیکھنے کو نہ ملے گی۔ اب کسی ایک فرد فرید کی افکار و نظریات کو اسلامی نظریہ قرار دینا اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ہاں!جس شرعی جہاد کی آثار و روایات اسلامی کتابوں میں موجود ہیں اس پر مسلمان آج بھی قائم ہے اور تاقیامت قائم رہے گا اور صرف حور کی چاہت میں نہیں بلکہ عزت و جاہ،جان و مال اور ملک و ملت کی آزادی کی خاطر کہ ان کی طرف اگر کوئی نگاہ غلط ڈالے گا،بنیادی حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش کرے گا یا ملک و ملت پر ناجائز قبضہ جمانے کی حماقت کرے گا تو اس کے لیے دفاعی پوزیشن اختیار کیا جائے گا،اور اس وقت یہ نہ آئین ہند کے خلاف ہے اور نا ہی ہمارے مذہب کےخلاف ہے۔بلکہ Indian Constitution تو اپنے آرٹیکل کے اندر ان حقوق کی تحفظ کا ضامن ہے۔اور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے گھر بار کی بچاؤ میں حملہ آور کی جان چلی جائے تو جرم نہیں ہے،اب ایسی صورت حال میں جو لڑائی لڑی جائے اسے جہاد سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، بتائیے یہ کہاں غلط ہے؟
(٣) مردوں کو جنت میں کئی ایک اور ایک روایت کے مطابق بہتر حور ملیں گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیور ہے وہ غیرت کو پسند فرماتا ہے۔جب دنیا میں بہ یک وقت ایک سے زائد مردوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کو ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کا سماج میں جینا دوبھر ہوجاتاہے،حالاں کہ غلطی اس کی نہیں ہوتی ہے تو جنت جیسی پاکیزہ جگہ میں یہ کیسے ممکن ہے۔
حدیث پاک ہے:
اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔(البخاری،4634)۔
مسلمانوں کے لیے قرآن و حدیث ہی دلیل ہے اب جو اس طرح کی بے حیائی(تعدد زوج) پر مصر ہیں،تو پھر انھیں کوئی نہیں روک سکتا ہے،ارشاد بارے تعالیٰ ہے:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىؕ-اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ۔
ترجمہ:
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔( اے نبی!)تم انھی لوگوں کوڈراتے ہو جو بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اورجس نے پاکیزگی اختیار کی تو بےشک اس نے اپنی ذات کے لئے ہی پاکیزگی اختیار کی اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے۔(سورۃ الفاطر،١٨)
اب اس طرح اگر ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں پر کیچڑ اچھالنا شروع کیا جائے تو یہ سلسلہ دراز ہوتاچلا جائے گا،دیکھیں،ہماری طرف سے بھی کچھ معروضات ان کی خدمت میں ہیں:
(١)مذہب اسلام کے علاوہ بھی تو دوسرے مذہب میں حوروں کی جگہ اپسراؤں کا ذکر ملتا ہے،جب وہاں غلط نہیں تو پھر یہاں کیسے؟
(٢)نیوگ:ہندو قدیم آریوں کی ایک رسم جس میں بھائی یا اور کوئی قریبی رشتہ دار متوفٰی کی بیوہ سے اولاد پیدا کرسکتا ہے؛بعض اوقات جس عورت کی اولاد نہ ہوتی ہو وہ خاوند کی اجازت سے کسی دوسرے شخص سے اولاد حاصل کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ دوسرا شخص عالی خاندان برہمن ہو۔(فی الحال ممنوع ہے)۔
(٣)قدیم بھارت کی وہ بڑی جنگ جو کورؤں اور پانڈؤں کے درمیان کروچھتر کے مقام پر ہوئی تھی اور اٹھارہ روز جاری رہی تھی۔(ریختہ ڈکشنری)
ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری اپنی کتاب "قرآن کے بنیادی اصول اور مسلم سماج کا ڈھانچہ" میں لکھتے ہیں۔
تنسیخ اسلام کی یہ مہم یقیناً ایک طویل مدت سے جاری ہے،کیونکہ اس میں قرونِ وسطی کے عیسائی راہب اور موجودہ دور کے ماہرین مشرقیات ہی نہیں بلکہ وہ دانشوران بھی شامل ہیں،جو اسلام کے خلاف مباحث سے کلی طور پر بے تعلق ہیں،جو اس انتہائی غلیظ اور گھٹیا کام میں منہمک ہیں۔اس سلسلےمیں چند منتخبہ مثالوں کو پیش کرتے ہیں:
(١)برمنگھم یونیورسٹی کے ڈاکٹر جے۔ ایچ۔ مرہیڈ نے اخلاقیات کے موضوع پر ایک درسی کتاب لکھی ہے،جس کا نام " ایلیمنٹس آف اتھکس" (فلسفۂ اخلاق کی جزئیات) ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے محض اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر درج ذیل ہے جوڑ بیان کو شامل کیا ہے جیسا کہ لو کے نے "نوان نیٹ پرو ملٹیکل پرنسپلر ( کسی بھی طرح کے باطنی اصولوں سے عاری ) عنوان کے تحت اپنے مشہور باب میں بتایا ہے کہ "ترک صوفیوں کی زندگیوں میں پاک دامنی کی نیکی کا کوئی تصور نہیں تھا"۔
اس الزام کا اطلاق قرون وسطی کے عیسائی رہبانیت پر ہوتا تھا، لیکن اس کا حوالہ دینے کے بجائے لو کے اور میر ہیڈ نے اسلام پر بہتان تراشی کی۔(قرآن کے بنیادی اصول اور مسلم سماج کا ڈھانچہ۔ص،٤٦/٤٥)
(٢)نیو کالج آکسفورڈ کے ڈاکٹر ہیسنگس رشڈال نے اپنی کتاب(The Theory of Good and Eevil) دی تھیوری آف گڈ اینڈ ایول (نیکی اور بدی کا نظریہ) جو مکمل طور سے فلسفہ اخلاق پر تعلیمی مقصد سے لکھی گئی کتاب ہے اور جس میں صرف مغربی اخلاقی نظریات پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس میں کسی بھی مناسبت کے بغیر اسلام پر کیچڑ اچھالی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ "جب خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریائی لائبریری کو جلانے کا حکم دیا"۔(قرآن کے بنیادی اصول اور مسلم سماج کا ڈھانچہ۔ص،٤٦)
یہ الزام ایسی ذات کے تعلق سے ہے جس نے اپنے دور خلافت میں علم کو یورپ و افریقہ کی سرحد و سیما تک پہنچا دیا تھا۔جب کہ اُس دور میں آج کے جتنے وسائل نہیں تھے۔
تاہم کچھ دانشوروں نے حقیت کو حقیقت ہی رہنے دیا اور سچائی کو بیان کیا،جیسے ڈاکٹر مارکس ڈوز لکھتے ہیں:
"ہم محسوس کرتے ہیں کہ ان کے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ ادا کیے گئے الفاظ ایک معمولی انسان کے الفاظ نہیں ہیں۔ان کا فوری سرچشمہ چیزوں کی باطنی حقیقت میں تھا،چونکہ وہ مستقل طور پر حقیقت کے ساتھ جیتے تھے"۔(قرآن کے بنیادی اصول اور مسلم سماج کا ڈھانچہ۔ص،٥٧)
آخراً عرض ہے کہ احکام شرعیہ،ممنوعات و محظورات،
جنت و دوزخ،موت و حیات،مغیبات و مستحضرات اور عقائد و نظریات جیسے اہم مسائل جن کا تعلق ضروریات دین سے ہے۔سیاست و ریاست کے مسئلے کی طرح سمجھ کر ہر کوئی ڈسکشن کرنے لگے اور تو دین اسلام کی اللہ ہی خیر فرمائے۔
محمد خورشید رضا مصباحی گریڈیہ،جھارکھنڈ
١٣/جون ٢٠٢٣ء ۣبروز سہ شنبہ
0 تبصرے