اعلی حضرت اشرفی اور صدر الافاضل
از قلم:- شبیر احمد راج محلی
قارئین محترم! بات اس زمانے کی ہے جب سرزمین مرادآباد یوپی ہند میں "آل انڈیا سنی کانفرنس" کا پہلا اجلاس "شعبان 1343ھ مارچ 1925ء" کو انعقاد پذیر ہوا،تو اس انقلابی انفرادی کانفرنس کی صدارت کے لیے باتفاق جملہ مشائخین عظام و علمائے کرام جس ذات عالی مرتبت کا انتخاب عمل میں آیا وہ ذات کوئی اور نہیں بلکہ مجدد سلسلہ اشرفیہ شیخ المشائخ عالم ربانی پیر لاثانی اولاد محبوب سبحانی ہم شبیہ غوث جیلانی حضرت سید علی حسین اشرفی میاں المعروف اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی ذات مقدسہ تھی۔آپ علیہ الرحمہ نے اِس انقلابی "آل انڈیا سنی کانفرنس"میں بحیثیت صدر جو خطبہ صدارت قوم و ملت کے نام سپرد کیا اس خطبہ صدارت کی مقبولیت و جامعیت و معنویت کا عالم یہ ہے کہ" 1925ء تا 1947ء" تک کثرت کے ساتھ "آل انڈیا سنی کانفرس" ہوتی رہیں اور کثرت کے ساتھ خطبہ صدارت پڑھا جاتا رہا مگر سارے خطبات میں مجدد سلسلہ اشرفیہ کے خطبہ صدارت کو ہر لحاذ سے مقام فوقیت وافضلیت حاصل ہے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ تمام خطبات صدرات میں مجدد سلسلہ اشرفیہ کے خطبہ صدارت کو صدر کا مقام حاصل ہے اور سب سے بڑی بات کہ مجدد سلسلہ اشرفیہ نے یہ خطبہ صدارت جو کہ علمی ذخائر کا مجموعہ ہے کسی مہینہ دو مہینہ ہفتہ دو ہفتہ میں پہلے سے تیار نہیں کیا کروایا تھا بلکہ اِسی"آل انڈیا سنی کانفرنس" کے اسٹیج پر رقم فرمایا۔سبحان اللہ!مختصراً اگر اس خطبہ صدرات کے تعلق سے کہا جائے تو یہ کہا جائے کہ مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطبہ صدارت میں سمندر کو ایک چھوٹے پیالہ میں بند کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ مجدد سلسلہ اشرفیہ کے خطبہ صدارت نے تمام اہل سنت وجماعت کے عوام و خواص میں بیداری کی وہ روح پھونکی کہ پھر اس کے بعد" آل انڈیا سنی کانفرس" نے وہ کارنامہ انجام دیا بر صغیر میں کہ آج تک بر صغیر کے تمام سنی مسلمان "آل انڈیا سنی کانفرنس" کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں۔بہر حال! مجدد سلسلہ اشرفیہ کے خطبہ صدارت سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں جس سے آپ قارئین کو یہ محسوس ہوگا کہ مجدد سلسلہ اشرفیہ اور بانی آل انڈیاسنی کانفرنس حضرت صدرالافاضل فخر الاماثل مفسر اعظم مناظر اعظم مفکر اعظم مجاہد اسلام حضرت علامہ سید نعیم الدین قادری جلالی اشرفی محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کے درمیان کتنا گہرا و مضبوط رشتہ تھا؟ساتھ یہ بھی کہ اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے کتنے پیارے انداز میں حضرت صدر الفاضل علیہ الرحمہ کا تعارف قوم کے سامنے پیش فرمایا اور اپنا اور ان کا رشتہ بھی کیا وہ بھی بتایا اور قوم کے نام یہ بھی پیغام دے دیا کہ ہمارا تمہارا سب کا رشتہ ایمانی ہے اور اسی رشتہ کو فوقیت دینا چاہیئے اور یہ بھی کہ دونوں باعظمت ذات ایک دوسرے کی کس قدر عظمت و رفعت کا اقرار کرتے ہیں ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ حضرت صدر الفاضل علیہ الرحمہ کو قوم و ملت کا کتنا درد رہتا تھا اور اس کی دفاع کی کس قدر کوشش میں لگے رہتے تھے اور ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ سلسلہ اشرفیہ کے بزرگوں کے نزدیک فرقہ وہابیہ و قادیانیہ کی حیثیت کیا ہے؟چناں چہ مجدد سلسلہ اشرفیہ نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا:ہم نہایت آزادی کے ساتھ توپ کے دھانے کے سامنے کفر پسندوں کی نفرت سے بے پرواہ ہو کر:اعلان حق:کریں کیونکہ اعلان حق تیرہ سو برس سے صرف ہم مسلمانوں اور خالص سنیوں کا کام رہا ہے، اس میں کسی وہابی، قادیانی، گاندھوی،وغیرہ کا کوئی حصہ نہیں ہے،اِسی درد نے ہمارے"فرزند روحی وبرادر ایمانی استاذ العلماء مولانا حافظ سید نعیم الدین صاحب اشرفی جلالی" کو بے چین کردیا اور یہ اِن کے جزبات صادقہ کی ادنی کشش ہے کہ پنجاب سے بنگال تک کے ہر صوبہ کا مسلمان آپ کے سامنے موجود ہے جو "آل انڈیا سنی کانفرنس" کے دست ہمت وکارپردازی پر بیعت کرنے کو تیارہے-
[بحوالہ آل انڈیا سنی کانفرس 1925ء تا 1947ء:صفحہ نمبر135:مصنف محمد جلال الدین قادری:مکتبہ رضویہ گجرات]+بحوالہ_ماہنامہ اشرفی کچھوچھہ شریف صفحہ نمبر11:بمطابق شوال المکرم 1334ھ]
از قلم:شبیر احمد راج محلی-
0 تبصرے