حالت حاضرہ کے بینکوں سے سودی قرض لینا کیسا ہے؟
مسئلہ۔۔ حکومت لوگوں کو کاروبار کرنے کے لئے سود کے معمولی شرح پر چند سالوں کے لئے قرض دیتے ہے، زید کاروبار کے لئے بینک سے قرض لینا چاہتاہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کے لئے اپنے کاروبار کے لئے قرض لینا درست ہے یا نہیں؟ جواب مدلل عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
حکومت عوام کو کاروبار کرنے کے لئے سود کے معمولی شرح پر چند سالوں کے لئے جو قرض دیتی ہے وہ کئی اقسام کے ہوتے ہیں جن میں سے ایک قسم کا قرض صرف اور صرف صنعت کاروں اور تاجروں کے لئے ہوتا ہے۔ جس کا نام ہے۔ overdraft یہ بھی دو طرح کا ہوتاہے ایک clean overdraft دوسرا documentry overdraft.
بینک سے سودی قرض لینا کاروبار کے لئے صرف شدید ضرورت کے وقت ہے کیونکہ سودی لین دین پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
فروغ معاش کے بہت سے وسائل و ذرائع کی فراہمی یا خریداری کے سلسلے میں انکم ٹیکس کی ناگریز دشواری سامنے آتی ہے، جس سے بچنے کا ایک راہ بینک سے سودی قرض کا حصول ہے۔
اب تین طریقے سامنے آئیں گے
ایک۔ یاتو بینک سے قرض کا تعاؤن لئے بغیر فروغ معاش کے وسائل مہیا کرے تو یہ انکم ٹیکس کے یقینی اور مہیب خطرات کو دعوت دینا ہے۔
دوسرا۔ یہ ہے کہ بینک سے سودی قرض کا تعاؤن لیکر انکم ٹیکس کے خطرات سے یقینی تحفظ حاصل کرلیا جائے، یہ ذریعہ معاشی ترقی کی راہ میں کوئی زیادہ خلل انداز نہیں ہوگا۔
تیسرا۔ یہ ہے کہ" قلت شعار" بنکر معاشی ترقی کی راہ سے کنارہ کش ہو جاے تو پھر حالت زار خستہ سے خستہ تر ہوتی چلی جاے گی۔
ان تینوں صورتوں میں سب سے معتدل نیز محفوظ راہ یہ ہے کہ انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے بینک سے سودی قرض لیا جائے اور معاشی زندگی کو مضبوط بنایا جائے۔
اس تفصیل سے پیش نظر انکم ٹیکس کے ضرر اور اس کی تباہ کاری سے بچنے کی ضرورت، نیز مفسدہ مظنونہ کے ازالہ کے لئے بینک سے سودی قرض لینا جائز ہوگا۔
کیونکہ یہ فی الواقع اپنے مال کو ضیاع سے بچانا ہے، بلفظ دیگر ضرر اشد سے تحفظ کے لئے ضرر اخف کا ارتکاب ہے کیونکہ بینک سے قرض لے کر انٹریسٹ دینا بھی اپنے حق میں ضرر ہےاور اپنی دولت کا بیش بہا حصہ انکم ٹیکس کی ادائیگی میں صرف کرنا بھی ضرر ہے لیکن انکم ٹیکس کا ضرر عام حالات میں انٹریسٹ کے ضرر سے زیادہ ہے۔ لہذا ضرر اشد سے نجات حاصل کرنے کے لئے ضرر اخف کے ارتکاب کی اجازت ہوگی۔
کما فی الاشباہ والنظائر تحت القاعدۃ الخامسۃ ( لو کان احدھما أعظم ضررا من الآخر فان الاشد یزال بالاخف)
ایضاً۔ (من ابتلی ببلیتیں و ھما متساویان یاخذ بأیتھما شاء و ان اختلفا یختار أھونھما)
لیکن کچھ شرایط کے ساتھ جائز ہو گا۔
ایک۔ بنام انٹریسٹ، جتنی رقم زائد دینی پڑے وہ انکم ٹیکس کی عائد ہونی والی رقم سے کم ہو۔
دوسری۔ ممکنہ حد تک جلد از جلد قرض کی جملہ رقم ادا کردی جائے، کوئی قرض ناغہ نہ ہو جس کی بنا پر مزید اضافی رقم دینے کی نوبت آے۔
تیسری۔ اعتقاد یہی رکھے کہ قرض پر یہ زائد رقم بوجہ مجبوری دے رہا ہے اور اسے دل سے برا ہی جانے یہ نہیں کہ ( اجازت بوجہ مجبوری) کو اصل مباح سمجھ کر بغیر کسی ناگواری کے بطیب خاطر ایسے قرض کا لین دین جاری کرے۔
چوتھی۔ قرض اتنا ہی لے جتنے سے اسکی حاجت پوری ہوسکے کہ بوجہ حاجت جو اجازت ہوتی ہے وہ بقدر حاجت ہوتی ہے۔
پانچویں۔ اور یہ امید ہو کہ جتنا وہ قرض لیتا ہے اس سے زیادہ منافع حاصل کر لیتا ہو۔
اسی طرح اگر بینک کو لوٹائی جانے والی رقم سے زائد لوٹانے کی مدت تک کاروبار سے حاصل ہونے کا غالب گمان ہے تو جائز ہے اس لیے کہ حربی مال اس کی رضا سے عقود کے ذریعے لینا جائز ہے جو اسلام میں ہے۔۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ۔۔ محمد تصدق حسین جامعی
متعلم۔۔ جامع اشرف کچھوچھہ شریف امبیڈکر نگر یو پی
تصدیق۔۔ مفتی شہاب الدین اشرفی
صدر شعبہ افتا جامع اشرف کچھوچھہ شریف امبیڈکر نگر یو
٢٠/١١/٢٠٢٢
0 تبصرے